پاکستانی انجینئرز کی کاوش سے معذور افراد کو نئی زندگی مل گئی
پریس کلب میں منعقد پریس کانفرنس میں مریضوں کی دیکھ بھال کے پروگرام کے تحت ایڈوانس مصنوعی بازو کے حوالے سے بات کی گئی
ISLAMABAD:
پاکستانی نوجوان انجینئرز کی کاوش کے ذریعے سول اسپتال سے منسلک برنس سینٹر میں جلے ہوئے مریضوں کی معذوری کے علاج کے لئے انقلابی پیش رفت کردی گئی۔
پریس کلب میں بائیونکس اور برنس سینٹر رتھ کے ایم فاؤ سول اسپتال کے اشتراک سے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مریضوں کی دیکھ بھال کے پروگرام کے تحت ایڈوانس مصنوعی بازو کے حوالے سے بات کی گئی۔
اس موقع پر بائیونکس چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) انس نیاز نے کہا کہ برنس سینٹر کافی عرصے سے کام کر رہا ہے،بہت سے افراد حادثات کا شکار ہو کر اپنے بازو گنوادیتے ہیں۔ان کے لیے کوئی سہولت نہیں تھی۔جو مصنوعی بازو لگایا جاتا تھا وہ معزوری کو پوشیدہ رکھتا تھا،مگر اس سے کام نہیں کیا جا سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 11سالہ بچہ عبداللہ بائیونکس کا ایڈوانس بازو استعمال کررہا ہے۔مصنوعی بازو لگانے کے لیےسرجریز بھی کرنی پڑھتی ہیں۔اگر عبداللہ بیرون ملک سے مصنوعی بازو لگواتاتو پہلے اس کی سرجری ہوتی پھر دو مہینے بعد جب پاکستان آتا تو یہاں کا ماحول مختلف ہوتا،جس کے باعث وہ مصنوعی بازو درست کام نہیں کرتا۔لیکن عبداللہ کو لگایا گیا ایڈوانس بازو دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو وہ بلو توتھ کے ذریعے دماغ سے منسلک ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس ایڈوانس بازوں کے ذریعے معمولات زندگی کے کام انجام دیئے جاتے ہیں،بیٹری ختم ہونے پر ہاتھ نہیں اتارنا پڑھتا، اس میں صرف چارج کرنے کے لیے بیٹری نکالی جاتی ہے۔ہم دعویٰ نہیں کرتے کہ اس سے ان کی زندگی میں معزوری کا خاتمہ ہوجائے گا مگر ان سے کافی سہولت ملے گی۔اس ایڈوانس بازو کے ذریعے دماغ سے نہ صرف انگلیوں بلکہ کوہنی کی حرکت بھی کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عبداللہ احد مصنوعی بازو لگنے کے بعد روبوٹک ٹیکنالوجی کی مدد سے بہت سے کام کرنے کے قابل ہو چکا ہے۔ ٹیکنالوجی اور یہ شاہکار ایجاد دیکھنےسےتعلق رکھتی ہے۔مصنوعی بازواپنی قیمت کے حوالے سے بہت مہنگا ہے اس لیے ہم خیر اور صاحب استطاعت احباب سے یہ گزارش کریں گے کہ وہ آگے آئیں اور اپنی مالی معاونت کے ساتھ ایسے مریضوں کو زندگی گزارنے کے قابل بنائیں جنہیں کل اپنے کنبے کا سہارا اور اس ملک کا ایک مفید شہری بنتا ہے ۔ سیکڑوں مریض ایسے دردمند دل رکھنے والوں کی توجہ اور معاونت کے طالب ہیں ۔
پاکستانی نوجوان انجینئرز کی کاوش کے ذریعے سول اسپتال سے منسلک برنس سینٹر میں جلے ہوئے مریضوں کی معذوری کے علاج کے لئے انقلابی پیش رفت کردی گئی۔
پریس کلب میں بائیونکس اور برنس سینٹر رتھ کے ایم فاؤ سول اسپتال کے اشتراک سے پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں مریضوں کی دیکھ بھال کے پروگرام کے تحت ایڈوانس مصنوعی بازو کے حوالے سے بات کی گئی۔
اس موقع پر بائیونکس چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) انس نیاز نے کہا کہ برنس سینٹر کافی عرصے سے کام کر رہا ہے،بہت سے افراد حادثات کا شکار ہو کر اپنے بازو گنوادیتے ہیں۔ان کے لیے کوئی سہولت نہیں تھی۔جو مصنوعی بازو لگایا جاتا تھا وہ معزوری کو پوشیدہ رکھتا تھا،مگر اس سے کام نہیں کیا جا سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 11سالہ بچہ عبداللہ بائیونکس کا ایڈوانس بازو استعمال کررہا ہے۔مصنوعی بازو لگانے کے لیےسرجریز بھی کرنی پڑھتی ہیں۔اگر عبداللہ بیرون ملک سے مصنوعی بازو لگواتاتو پہلے اس کی سرجری ہوتی پھر دو مہینے بعد جب پاکستان آتا تو یہاں کا ماحول مختلف ہوتا،جس کے باعث وہ مصنوعی بازو درست کام نہیں کرتا۔لیکن عبداللہ کو لگایا گیا ایڈوانس بازو دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو وہ بلو توتھ کے ذریعے دماغ سے منسلک ہوجائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس ایڈوانس بازوں کے ذریعے معمولات زندگی کے کام انجام دیئے جاتے ہیں،بیٹری ختم ہونے پر ہاتھ نہیں اتارنا پڑھتا، اس میں صرف چارج کرنے کے لیے بیٹری نکالی جاتی ہے۔ہم دعویٰ نہیں کرتے کہ اس سے ان کی زندگی میں معزوری کا خاتمہ ہوجائے گا مگر ان سے کافی سہولت ملے گی۔اس ایڈوانس بازو کے ذریعے دماغ سے نہ صرف انگلیوں بلکہ کوہنی کی حرکت بھی کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عبداللہ احد مصنوعی بازو لگنے کے بعد روبوٹک ٹیکنالوجی کی مدد سے بہت سے کام کرنے کے قابل ہو چکا ہے۔ ٹیکنالوجی اور یہ شاہکار ایجاد دیکھنےسےتعلق رکھتی ہے۔مصنوعی بازواپنی قیمت کے حوالے سے بہت مہنگا ہے اس لیے ہم خیر اور صاحب استطاعت احباب سے یہ گزارش کریں گے کہ وہ آگے آئیں اور اپنی مالی معاونت کے ساتھ ایسے مریضوں کو زندگی گزارنے کے قابل بنائیں جنہیں کل اپنے کنبے کا سہارا اور اس ملک کا ایک مفید شہری بنتا ہے ۔ سیکڑوں مریض ایسے دردمند دل رکھنے والوں کی توجہ اور معاونت کے طالب ہیں ۔