لیاری میں پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی
لیاری کے لوگ عوامی سواری کے لیے رل گئے ہیں خاص طور پر صبح کے وقت اپنے کام پر جانے والے لوگ جن میں خواتین بھی شامل ہیں
PARIS:
21 جون کو حکومت سندھ کی جانب سے کراچی اور لاڑکانہ کے مختلف علاقوں کے لیے پیپلز بس سروس کا افتتاح کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں کراچی میں 130 اور لاڑکانہ میں 10 بسیں چلائی جائے گی۔ کراچی میں ان بسوں کے 6 روٹس ہیں ان روٹس میں کراچی کی قدیم ترین آبادی لیاری کا ذکر نہیں ہے جہاں کی آبادی 20 لاکھ سے زیادہ شمار کی جاتی ہے جب کہ لیاری میں عرصہ دراز سے عوامی سواری کا شدید فقدان ہے۔
اس سے قبل بھی کراچی کے دیگر علاقوں کے لیے شہید بے نظیر بھٹو سی این جی بس پروجیکٹ کا اعلان کیا گیا تھا اس میں بھی لیاری کو یکسر نظر انداز کیا گیا تھا۔ لیاری کے علاقے بکرا پیڑی براستہ نوکیں لین، نیا کمہار واڑہ، کلاکوٹ، محراب خان عیسیٰ خان روڈ، جمیلہ اسٹریٹ، گھاس منڈی، رنچھوڑ لین کی آبادی مجموعی طور پر لاکھوں نفوس پر مشتمل ہے یہ صدر ٹاؤن اور لیاری ٹاؤن پر مشتمل علاقے ہیں یہاں بھی قیام پاکستان سے قبل اور اب تک کسی قسم کی بس اور مزدا روٹس دستیاب نہیں ہے۔ جس وجہ سے یہاں مکین پہلے تانگہ گھوڑا گاڑی، پھر چنگ چی (موٹر سائیکل رکشہ) اور اب آٹو رکشہ کے ذریعے بکرا پیڑی تا رنچھوڑ لائن تک سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح شہر کے وسط تک جانے کے لیے شہریوں کو دو، دو گاڑیاں تبدیل کرنا پڑتی ہیں۔ ضرورت ہے کہ یہاں سے صدر، براستہ رنچھوڑلائن، جوبلی چوک، سعید منزل، سول اسپتال، اردگرد کے علاقے، ریگل چوک صدر سے ہوتا ہوا جناح اسپتال تک دو نئے روٹس کا اجرا کیا جائے۔
قبل ازیں میوہ شاہ، جہان آباد سے لی مارکیٹ براستہ رنچھوڑ لائن تا صدر و پنجاب کالونی گزری تک X-9 اور رشید آباد سے گلشن اقبال صفورہ گوٹھ براستہ لیاری کے علاقے میراں ناکہ، چاکیواڑہ اور لی مارکیٹ تک X-20 کے روٹ کی منی بسیں چلتی تھی یہ روٹس 2005ء سے بند کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح لیاری سے U-1 اور P-1 کے بھی روٹس بند کر دیے گئے ہیں جو بالترتیب رنچھوڑ لائن، سول اسپتال، آرام باغ، برنس روڈ، صدر، جناح اسپتال اور اختر کالونی تک۔ لی مارکیٹ، رنچھوڑ لائن، لسبیلہ، تین ہٹی، سینٹرل جیل روڈ، نیوٹاؤن، شاہراہ فیصل، بلوچ کالونی، ڈرگ روڈ، ناتھا خان، کراچی ایئرپورٹ، ملیر سٹی اور کھوکھرا پار تک ہوا کرتے تھے۔ اب لیاری سے ان علاقوں تک جانے کے لیے کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ لیاری کے لوگ ان میں صرف آٹو رکشوں پر جا سکتے ہیں جو کہ غریبوں کی پہنچ سے دور ہے۔
ماضی میں لیاری سے صدر تک جانے کے لیے بس روٹ 22-A ہوا کرتی تھی زمانہ ہوا ہے اسے ختم ہوئے۔ اسی طرح مزدا منی بس روٹ G-7 تھی جو لیاری سے ہوتی ہوئی مہاجر کیمپ جاتی تھی۔ لی مارکیٹ، لیاری سے ہوتے ہوئے منگھو پیر تک جانے والی بس روٹ نمبر 60 بھی تھی، اسے بھی بند کر دیا گیا اسی طرح ملیر ولانڈھی اور ٹھٹھہ تک جانے والے قدیمی بس اسٹاپ کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔
لیاری سے ہوتا ہوا کیماڑی تک جانے والا 1H کا روٹ بھی بند کر دیا گیا ہے، کسی زمانے میں لیاری کا مرکزی علاقہ چاکیواڑہ ٹرام پٹہ ٹرام جنکشن ہوا کرتا تھا جہاں سے کیماڑی اور صدر تک ٹرام چلا کرتے تھے یہ عوامی سواری بھی 1975ء میں ختم کر دیا گیا پھر اس کے بعد سرکاری او منی بس کا جنکشن بنا دیا گیا تھا جس سے لوگوں کو سہولیات میسر تھے وہ باآسانی شہر کے ہر حصے میں جایا کرتے تھے پھر رفتہ رفتہ یہ تمام سہولیات ماند پڑ گئیں اور وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا رہا ہے اب لیاری کے لوگوں کو شہر کراچی کے دیگر علاقوں تک جانے کے لیے دو، دو، تین تین گاڑیاں تبدیل کرنا پڑتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ دانستہ طور پر لیاری کو شہر کراچی کے دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع کر دیا گیا ہے۔
ایک طرح سے لیاری کی ناکہ بندی کر کے لیاری کے لوگوں کو محصور کر دیا گیا ہے۔کسی زمانے میں لیاری کے علاقہ چاکیواڑہ میں ٹریفک پولیس چوکی قائم تھی، لیاری بھر میں ٹریفک پولیس گشت کرتی ہوئی نظر آتی تھی اب لیاری میں ٹریفک پولیس مرکز کا بورڈ صرف لیاری کے ایک تھانہ کی دیوار پر آویزاںنظر آتا ہے دور دور تک ٹریفک پولیس کا نشان تک نہیں ہے۔
لیاری میں ٹریفک سگنل ہوا کرتے تھے سڑکوں پر زیبرا کراسنگ ہوا کرتے تھے سب کے سب تحلیل کر دیے گئے۔ لیاری کوئی محلہ نہیں ہے، لیاری بیس لاکھ نفوس پر مشتمل قدیمی علاقہ ہے اسے کراچی کی ماں کا بھی رتبہ حاصل ہے، لیاری بھی کراچی کا ایک حصہ ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ لیاری میں اب تک جتنے بھی عوامی نمایندے آئے اور اب بھی لیاری میں عوامی نمایندے اپنا وجود رکھتے ہیں لیکن کسی نے بھی لیاری میں عوامی سواری کے فقدان کو ختم کرنے کی سعی نہیں کی ہے سب کے سب صرف اپنی لیڈری کو چمکانے میں، سالگرہ، منانے اور برسی مناتے ہوئے نظر آتے ہیں اور سیاسی کارکنان و سماجی رہنمائے اپنا اپنا مخصوص مفادات حاصل کرنے کے چکر میں نظر آتے ہیں کسی میں اتنی جرات و ہمت نہیں کہ وہ لیاری کے لوگوں کو درپیش پبلک ٹرانسپورٹ کی دستیابی کے لیے آواز بلند کریں، ان کاسارا زور صرف گٹر اور گلیاں پختہ کرنے پر ہے اور ان پر اپنا سیاسی جھنڈا لگانے پر ہے۔
لیاری کے لوگ عوامی سواری کے لیے رل گئے ہیں خاص طور پر صبح کے وقت اپنے کام پر جانے والے لوگ جن میں خواتین بھی شامل ہیں پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے پریشان کھڑے نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لیاری میں بھی نئے بسوں کی روٹ کا اجرا کیا جائے تاکہ لیاری کے مکین بھی باآسانی شہر کراچی کے دیگر علاقوں کی سفر کر سکیں۔ لیاری کے مکینوں کو توقع ہے کہ سندھ حکومت لیاری میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل پر توجہ دیگی۔
21 جون کو حکومت سندھ کی جانب سے کراچی اور لاڑکانہ کے مختلف علاقوں کے لیے پیپلز بس سروس کا افتتاح کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں کراچی میں 130 اور لاڑکانہ میں 10 بسیں چلائی جائے گی۔ کراچی میں ان بسوں کے 6 روٹس ہیں ان روٹس میں کراچی کی قدیم ترین آبادی لیاری کا ذکر نہیں ہے جہاں کی آبادی 20 لاکھ سے زیادہ شمار کی جاتی ہے جب کہ لیاری میں عرصہ دراز سے عوامی سواری کا شدید فقدان ہے۔
اس سے قبل بھی کراچی کے دیگر علاقوں کے لیے شہید بے نظیر بھٹو سی این جی بس پروجیکٹ کا اعلان کیا گیا تھا اس میں بھی لیاری کو یکسر نظر انداز کیا گیا تھا۔ لیاری کے علاقے بکرا پیڑی براستہ نوکیں لین، نیا کمہار واڑہ، کلاکوٹ، محراب خان عیسیٰ خان روڈ، جمیلہ اسٹریٹ، گھاس منڈی، رنچھوڑ لین کی آبادی مجموعی طور پر لاکھوں نفوس پر مشتمل ہے یہ صدر ٹاؤن اور لیاری ٹاؤن پر مشتمل علاقے ہیں یہاں بھی قیام پاکستان سے قبل اور اب تک کسی قسم کی بس اور مزدا روٹس دستیاب نہیں ہے۔ جس وجہ سے یہاں مکین پہلے تانگہ گھوڑا گاڑی، پھر چنگ چی (موٹر سائیکل رکشہ) اور اب آٹو رکشہ کے ذریعے بکرا پیڑی تا رنچھوڑ لائن تک سفر کرنے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح شہر کے وسط تک جانے کے لیے شہریوں کو دو، دو گاڑیاں تبدیل کرنا پڑتی ہیں۔ ضرورت ہے کہ یہاں سے صدر، براستہ رنچھوڑلائن، جوبلی چوک، سعید منزل، سول اسپتال، اردگرد کے علاقے، ریگل چوک صدر سے ہوتا ہوا جناح اسپتال تک دو نئے روٹس کا اجرا کیا جائے۔
قبل ازیں میوہ شاہ، جہان آباد سے لی مارکیٹ براستہ رنچھوڑ لائن تا صدر و پنجاب کالونی گزری تک X-9 اور رشید آباد سے گلشن اقبال صفورہ گوٹھ براستہ لیاری کے علاقے میراں ناکہ، چاکیواڑہ اور لی مارکیٹ تک X-20 کے روٹ کی منی بسیں چلتی تھی یہ روٹس 2005ء سے بند کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح لیاری سے U-1 اور P-1 کے بھی روٹس بند کر دیے گئے ہیں جو بالترتیب رنچھوڑ لائن، سول اسپتال، آرام باغ، برنس روڈ، صدر، جناح اسپتال اور اختر کالونی تک۔ لی مارکیٹ، رنچھوڑ لائن، لسبیلہ، تین ہٹی، سینٹرل جیل روڈ، نیوٹاؤن، شاہراہ فیصل، بلوچ کالونی، ڈرگ روڈ، ناتھا خان، کراچی ایئرپورٹ، ملیر سٹی اور کھوکھرا پار تک ہوا کرتے تھے۔ اب لیاری سے ان علاقوں تک جانے کے لیے کوئی پبلک ٹرانسپورٹ نہیں ہے۔ لیاری کے لوگ ان میں صرف آٹو رکشوں پر جا سکتے ہیں جو کہ غریبوں کی پہنچ سے دور ہے۔
ماضی میں لیاری سے صدر تک جانے کے لیے بس روٹ 22-A ہوا کرتی تھی زمانہ ہوا ہے اسے ختم ہوئے۔ اسی طرح مزدا منی بس روٹ G-7 تھی جو لیاری سے ہوتی ہوئی مہاجر کیمپ جاتی تھی۔ لی مارکیٹ، لیاری سے ہوتے ہوئے منگھو پیر تک جانے والی بس روٹ نمبر 60 بھی تھی، اسے بھی بند کر دیا گیا اسی طرح ملیر ولانڈھی اور ٹھٹھہ تک جانے والے قدیمی بس اسٹاپ کو بھی بند کر دیا گیا ہے۔
لیاری سے ہوتا ہوا کیماڑی تک جانے والا 1H کا روٹ بھی بند کر دیا گیا ہے، کسی زمانے میں لیاری کا مرکزی علاقہ چاکیواڑہ ٹرام پٹہ ٹرام جنکشن ہوا کرتا تھا جہاں سے کیماڑی اور صدر تک ٹرام چلا کرتے تھے یہ عوامی سواری بھی 1975ء میں ختم کر دیا گیا پھر اس کے بعد سرکاری او منی بس کا جنکشن بنا دیا گیا تھا جس سے لوگوں کو سہولیات میسر تھے وہ باآسانی شہر کے ہر حصے میں جایا کرتے تھے پھر رفتہ رفتہ یہ تمام سہولیات ماند پڑ گئیں اور وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا رہا ہے اب لیاری کے لوگوں کو شہر کراچی کے دیگر علاقوں تک جانے کے لیے دو، دو، تین تین گاڑیاں تبدیل کرنا پڑتی ہیں ایسا لگتا ہے کہ دانستہ طور پر لیاری کو شہر کراچی کے دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع کر دیا گیا ہے۔
ایک طرح سے لیاری کی ناکہ بندی کر کے لیاری کے لوگوں کو محصور کر دیا گیا ہے۔کسی زمانے میں لیاری کے علاقہ چاکیواڑہ میں ٹریفک پولیس چوکی قائم تھی، لیاری بھر میں ٹریفک پولیس گشت کرتی ہوئی نظر آتی تھی اب لیاری میں ٹریفک پولیس مرکز کا بورڈ صرف لیاری کے ایک تھانہ کی دیوار پر آویزاںنظر آتا ہے دور دور تک ٹریفک پولیس کا نشان تک نہیں ہے۔
لیاری میں ٹریفک سگنل ہوا کرتے تھے سڑکوں پر زیبرا کراسنگ ہوا کرتے تھے سب کے سب تحلیل کر دیے گئے۔ لیاری کوئی محلہ نہیں ہے، لیاری بیس لاکھ نفوس پر مشتمل قدیمی علاقہ ہے اسے کراچی کی ماں کا بھی رتبہ حاصل ہے، لیاری بھی کراچی کا ایک حصہ ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ لیاری میں اب تک جتنے بھی عوامی نمایندے آئے اور اب بھی لیاری میں عوامی نمایندے اپنا وجود رکھتے ہیں لیکن کسی نے بھی لیاری میں عوامی سواری کے فقدان کو ختم کرنے کی سعی نہیں کی ہے سب کے سب صرف اپنی لیڈری کو چمکانے میں، سالگرہ، منانے اور برسی مناتے ہوئے نظر آتے ہیں اور سیاسی کارکنان و سماجی رہنمائے اپنا اپنا مخصوص مفادات حاصل کرنے کے چکر میں نظر آتے ہیں کسی میں اتنی جرات و ہمت نہیں کہ وہ لیاری کے لوگوں کو درپیش پبلک ٹرانسپورٹ کی دستیابی کے لیے آواز بلند کریں، ان کاسارا زور صرف گٹر اور گلیاں پختہ کرنے پر ہے اور ان پر اپنا سیاسی جھنڈا لگانے پر ہے۔
لیاری کے لوگ عوامی سواری کے لیے رل گئے ہیں خاص طور پر صبح کے وقت اپنے کام پر جانے والے لوگ جن میں خواتین بھی شامل ہیں پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے پریشان کھڑے نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لیاری میں بھی نئے بسوں کی روٹ کا اجرا کیا جائے تاکہ لیاری کے مکین بھی باآسانی شہر کراچی کے دیگر علاقوں کی سفر کر سکیں۔ لیاری کے مکینوں کو توقع ہے کہ سندھ حکومت لیاری میں بھی پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل پر توجہ دیگی۔