گلوبل وارمنگ سے بچاؤ ممکن ہے

جنگلات کا صفایا بھی اسی آلودگی کو ازحد بڑھانے کی ایک بڑی وجہ ہے

PARIS:
آکسیجن تمام جانداروں کے لیے زندگی ہے لیکن انسانی ترقی کا کیا کہیے کہ خود اپنی زندگی کے پیچھے پڑی ہے، جسے ہم صنعتی انقلاب کا نام دے دے کر تھکتے نہ تھے آج فضائی آلودگی کی صورت میں اس دنیا کے درجہ حرارت کو خطرناک حد تک بڑھا رہی ہے۔

جنگلات کا صفایا بھی اسی آلودگی کو ازحد بڑھانے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں جنگل کی آگ نے قیمتی درختوں کو بھس کیا وہیں دنیا بھر میں کبھی آسٹریلیا تو کبھی امریکا میں جنگلات کی آگ فضائی آلودگی میں اضافہ کرتی رہتی ہے تو وہیں ان درختوں کی کمی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو بڑھا رہی ہے۔ آکسیجن کے تین ایٹم مل کر اوزون گیس بناتے ہیں، یہ گیس ہماری زمین کے لیے بہت اہم ہے یا یوں کہہ لیں کہ یہ ہمارے سیارے کی سیکیورٹی تہہ ہے جو سورج کی مضر لہروں کو ہم تک پہنچنے نہیں دیتی۔

یہ قدرت کا ایک خوب صورت نظام ہے، افسوس ناک بات یہ ہے کہ فضائی آلودگی اس حد تک بڑھ چکی ہے جو اس اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس میں پڑنے والا شگاف خطرناک حد تک بڑا ہو گیا ہے بلکہ کئی جگہ سے اس میں دراڑیں پڑ رہی ہیں جو انسانی صحت کے لیے نہایت خطرناک ہے۔گلوبل وارمنگ کی تعریف اس طرح سے کی جاسکتی ہے۔''ماحول میں حرارت کا اضافہ جو گرین ہاؤس پر انسان کی اثراندازی کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے۔''

حرارت کا اضافہ اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے جب انسان غیر متوازن انداز میں توانائیوں کا استعمال کرتا ہے۔ ان توانائیوں کے حاصل ہونے پر ان کا فضلہ ماحول کی آکسیجن جذب کرتا ہے اور وہ زہریلی گیس جو زمینی فضاؤں کے لیے خطرناک ہے چھوڑتا رہتا ہے۔ اس کی ایک عام سی مثال سڑک پر چلتا ایک پرانا رکشہ یا ٹرک جو اس کے چلنے کے لیے پٹرول کو توانائی حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے لیکن اس کے سائلنسر سے کالا زہریلا دھواں خارج ہو رہا ہے، ذرا تصور کریں کہ اس طرح کے کئی رکشے یا گاڑیاں اور فیکٹریاں، کارخانے اور پاور لومز وغیرہ اپنا دھواں اور فضلہ خارج کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے مناسب ٹھکانے کا کوئی بندوبست نہیں ہے، یہ دھواں یہ فضلہ ایک حد تک جاکر کیا کرسکتا ہے تو یہ حد گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت کو بڑھا رہی ہے، ابھی یہ ایک لال سگنل ہے جو منظر عام پر کھل کر سامنے آچکا ہے۔


جرمن واچ کے گلوبل کلائمیٹ انڈیکس میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک پاکستان کو عالمی تنظیموں کی جانب سے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون بارشوں میں شدت آتی جا رہی ہے اور 2010 کے بعد تقریباً ہر سال ہی پاکستان کے کسی نہ کسی علاقے میں سیلاب آتا رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی صورت میں قطب شمالی اور قطب جنوبی میں قدرتی طور پر برف کی ایک بہت بڑی کھیپ جسے پانی کے بڑے ذخائر اور میٹھے پانی کے اسٹور ہاؤس بھی کہا جاتا ہے جو برف کے گلیشئرز کی صورت میں ہیں، لیکن عالمی درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے وہ گلیشئرز جو آہستہ آہستہ پگھل رہے تھے اب بہت تیزی سے پگھل رہے ہیں، ان کا پانی دریاؤں کے راستے بہہ کر سمندر میں چلا جاتا ہے اور وہ میٹھا پانی کھارا پانی بنتا جا رہا ہے۔

پاکستان میں اس سے کیا صورت حال پیدا ہو رہی ہے، یہ ایک بہت بڑا سوال ہے، لیکن ہم اس کے جواب سے ناواقف رہنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ سال عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی ایک مشترکہ رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان میں اگلی دو دہائیوں کے دوران درجہ حرارت میں ڈھائی درجے سیلیئس کا اضافہ ہوجائے گا جس سے زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوگی، جب کہ پچھلے چند سالوں میں ہیٹ ویو نے کئی انسانی جانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا آج تک اس گرم لہر کا خوف دل سے دور نہیں ہوا ہے۔پاکستان میں گلگت بلتستان میں شیشپر گلیشئر کی جھیل نہ صرف پھٹ گئی بلکہ شاہراہ ریشم کا تاریخی پل جو حسن آباد پر قائم تھا وہ بھی اس سیلاب کی زد میں بہہ نکلا۔

پاکستان جو ماحولیاتی آلودگی کے اعتبار سے اب خاصا اوپر آچکا ہے اس کے ارد گرد چین اور بھارت جو اس لحاظ سے دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں ان ممالک میں بھی ماحولیاتی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ پاکستان میں پانی کی قلت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور وجہ عالمی درجہ حرارت کا بڑھنا ہے۔پاکستان میں گزشتہ اکسٹھ سال کا ریکارڈ جب کہ بھارت میں ایک سو بائیس سالہ ریکارڈ بلند درجہ حرارت کا ریکارڈ ٹوٹا ہے۔ درجہ حرارت کے بڑھنے سے پانی کے ذخائر سوکھ جاتے ہیں، قابل کاشت زمین بنجر ہو جاتی ہے، گلیشئرز کے پگھلنے سے قدرتی میٹھے پانیوں کا ذخیرہ معدوم ہوتا جائے گا۔ ایک عام شہری اپنے طور پر اس تشویش ناک صورت حال کے لیے کیا کر سکتا ہے؟ کیا ہم اس گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کے لیے کچھ کر سکتے ہیں یا صرف بڑے بڑے سیمینارز اور تقریبات منعقد کرکے یا ان میں شرکت کرکے عالمی درجہ حرارت کے کچھ سیلیئس کم کرسکتے ہیں؟

ہمارا دین ہر لحاظ سے ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے۔ اس کے تحت ہم اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف رکھ کر اپنے صحن میں چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا، یا محض ایک چھوٹی سی گیلری ہی ہو، پودے اگا کر اپنے لیے تازہ آکسیجن کے چھوٹے چھوٹے کارخانے پیدا کرسکتے ہیں، اپنے گھر کے گیلے کچرے جن میں استعمال شدہ چائے کی پتی سے لے کر پھلوں اور سبزیوں کے چھلکے تک شامل ہیں کھاد بنانے کے کام میں لاسکتے ہیں، آج کل قربانی کے جانوروں کی وجہ سے گلیوں اور محلوں میں رونق سی لگی رہتی ہے، ساتھ میں برسات کا موسم بھی ہے، ایسے میں جانوروں کے فضلے اور ان کے بچے کچھے چارے کو بھی کھاد بنانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

گلی محلوں میں اڑتے بھاگتے پلاسٹک کے شاپرز کو جمع کرکے کسی ایک شاپر میں جمع کردیا جائے تو یہ سیوریج کے بڑے نالوں کو بند ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے آخر ایسا کیوں فرمایا گیا ہے؟ ہمیں اس بات پر غور ہی نہیں کرنا بلکہ سمجھنا بھی ہے تو یقیناً ہم گلوبل وارمنگ جیسے بڑے مسائل بھی سلجھا سکتے ہیں۔
Load Next Story