سفراقصیٰ

انعام الرحمن سحری ایک ایسے برٹش نژاد پاکستانی شہری ہیں جو کئی دھائیوں سے برطانیہ میں مقیم ہیں

ATLANTA:
سفراقصیٰ اردو زبان میں تحریر کی جانے والی ایک ایسی چشم دید کتاب ہے جو اسی ہفتے مارکیٹ میں آئی ہے۔ ممتاز مصنف اور سابقہ بیوروکریٹ انعام الرحمان سحری جو ان دنوں برطانیہ میں مقیم نے حال ہی میں فلسطین اور اسرائیل ریل کا سفر کیا اور وہاں کئی ہفتے قیام کے دوران وہاں جو کچھ دیکھا اسے سفر یروشلم میں قلم بند کیا ہے۔ یہ منفرد کتاب تاریخی اور تحقیقی اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ آج ہم اس کتاب کا طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔

انعام الرحمان سحری صاحب لکھتے ہیں یروشلم دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ اسے گولڈن سٹی بھی کہا جاتا ہے۔ صدیوں پر تاریخ رکھنے والا یہ شہر سیکڑوں مرتبہ شکست و ریخت سے دوچار ہوا اور اتنی ہی بار دوبارہ بسا۔اس کے در و دیوار میں ان گنت تاریخی ابواب دفن ہیں۔آج کا یروشلم قدیم اور جدید تہذیبوں کا خوبصورت امتزاج ہے۔ یہ ایک تقسیم شدہ شہر ہے ، اس کا بہت سا حصہ عربوں نے آباد کیا اور اتنا ہی یہودیوں کی نئی نسل نے۔یروشلم بہت سے انبیاء کرام کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔

دنیا کے 79 ممالک کے باشندوں کو اسرائیل جانے کے لیے ویزا کی ضرورت نہیں۔ برطانوی پاسپورٹ ہولڈرز بھی اسرائیل جا سکتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ یروشلم اور فلسطین کا اپنا کوئی ایئرپورٹ نہیں وہاں جانے کے لیے اسرائیل کے تل ابیب ایئرپورٹ پر ہی لینڈ کیا جاتا ہے۔تل ابیب ایئرپورٹ پر پاکستانی نژاد ہونے کی وجہ تمام دستاویزات کا خصوصی جائزہ لیا جاتا ہے۔آپ کی تمام معلومات کو کھنگالا جاتا ہے۔ آپ کے فیس بک اکانٹ ٹویٹر اور ای میل کے ایڈریس وغیرہ تمام تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔اس مرحلے سے گزرنے کے بعد آپ کو انٹری کارڈ مل جاتا ہے، اب آپ ٹورسٹ تصور کیے جاتے ہیں۔ٹورسٹ کارڈ کارڈ مل جانے کے بعد آپ اسرائیل میں میں کسی بھی جگہ جاسکتے ہیں۔


تل ابیب کے بن گوریان انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے یروشلم کا زمینی فاصلہ 54 کلومیٹر ہے۔ ایئرپورٹ سے باہر نکلتے ہی ٹیکسی مل جاتی ہے جو 250 اسرائیلی کرنسی شیکل لے کر آپ کو یروشلم کے کسی بھی ہوٹل میں پہنچا دیتی ہے۔کھانے پینے اور خوراک کے اعتبار سے یروشلم کو سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے۔ یہاں یہودی اور مسلم دونوں طرح کے کھانے باآسانی دستیاب ہیں۔ ہر قسم کے ریستوران اور گلی بازار میں مختلف درجہ بندی کے ہوٹل ہیں جہاں آپ کو سستے اور مہنگے ہر طرح یورپی اور مشرقی کھانے مل سکتے ہیں۔ یہاں مراکشی اور لبنانی کھانے بھی آسانی سے مل جاتے ہیں۔ کھانے میں سلاد اور پھل لازمی جزو کے طور پر دیا جاتا ہے۔ یہاں ترکی کی پیٹا بریڈ بھی باآسانی ملتی ہے۔

عام ریسٹورنٹ میں سور اور بکری کا گوشت نہیں ملتا،تا ہم چکن اور گائے کا گوشت آسانی سے دستیاب ہے۔یہودی مچھلی نہیں کھاتے لہٰذا مچھلی شاید ہی کسی ریسٹورنٹ پر میسر ہو۔ یہودیوں کی مشہور ڈش کوشر باآسانی دستیاب ہے۔ کوشر میں ذبح شدہ گوشت استعمال کیا جاتا ہے۔اس کے لیے مخصوص ریسٹورنٹ بنائے ہیں جہاں صفائی کا اعلیٰ معیار ہے۔ یہ مہنگے ترین ریسٹورنٹس شمار کیے جاتے ہیں۔ سحری صاحب رقمطراز ہیں کہ یروشلم کے مرد اب بھی اٹھارویں صدی کا قدیم لباس زیب تن کیے ہوئے نظر آتے ہیں، یہاں کی عورتیں بہت ڈھیلا ڈھالا لباس پہنتی ہیں ارور زیادہ تر گھروں میں ہی رہتی ہیں۔

یہ کتاب یروشلم کی قدیم اور جدید زندگی کے ہر پہلو کی تحریری اور تصویری تفسیر ہے۔اس کتاب کے مطالعے سے قاری کو یروشلم اور بیت المقدس کی پوری تاریخ،مسجد اقصی ، سنہری گنبد، دیوار گریا،ہیکل سلیمانی، بیت اللحم،ھولو کاسٹ چیمبر، قوم لوط پر عذاب کا مقام اور سینٹ جیمز کیتھیڈرل کے بارے میں تحریری اور تصویری تفصیلات بھی حاصل ہوتی ہیں۔مصنف کا کہنا ہے کے ''سفر اقصی'' دراصل ایک ایسی کتاب ہے جسے مذہبی رواداری پر یقین رکھنے والا ہر قاری پسند کرے گا۔

انعام الرحمن سحری ایک ایسے برٹش نژاد پاکستانی شہری ہیں جو کئی دھائیوں سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔برطانیہ میں رہنے کے باوجود ان کے دل کی دھڑکن اور دماغ میں پاکستان ہی بسا رہتا ہے۔سحری صاحب نے سی ایس ایس کر کے پاکستان پولیس سروس جوائن کی اور بہت سے اہم عہدوں پر تعینات رہے۔سحری صاحب 1998 میں برطانیہ ہجرت کرگئے۔وہ برطانیہ اور یورپ کے کئی ٹیلی ویژن چینلز پر حالات حاضرہ نہ کے پروگراموں میں بھی تواتر سے شرکت کرتے ہیں۔
Load Next Story