کچھ وقت غلام محمد قاصرؔ کے ساتھ
پہاڑپور میں آنکھیں کھولنے والے اس باکمال شاعر نے ادبی حوالے سے انتہائی نامساعد حالات میں اپنے تخلیقی سفر کا آغا زکیا
TAIPEI:
قیامِ پاکستان کے بعد خیبر پختونخوا ( جسے چند برس قبل تک صوبہ سرحد کہا جاتا تھا ) سے تعلق رکھنے والے جن اُردو شعرا نے ملک گیر شہرت حاصل کی، ان میں میرے نزدیک احمد فراز، فارغ بخاری اور محسن احسان کے بعد چوتھا سب سے بڑا نام غلام محمد قاصر مرحوم کا ہی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک پسماندہ قصبے پہاڑ پور میں آنکھیں کھولنے والے اس باکمال شاعر نے ادبی حوالے سے انتہائی نامساعد حالات میں اپنے تخلیقی سفر کا آغا زکیا کہ اُن ہی کے بقول ابھی تک وہاں نہ ریل پہنچی تھی اور نہ بجلی۔ آٹھویں تک اُردو پڑھنے کے بعد سائنس میں میٹرک کرنے کی وجہ سے وقتی طور پر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا، ماحول کے دبائو اور کوئی کالج نزدیک نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے مدّرسی کا پیشہ اختیار کیا اورا س دوران میں ایف اے اور بی اے کے بعد اُردو میں ایم اے کیا اور پھر ایک وقفے کے بعد وہ پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو میں کامیابی کے بعد لیکچرار ہوگئے اور پھر اِسی کے ہو رہے۔
میرا ان سے پہلا تعارف قاسمی صاحب کے ''فنون'' کے حوالے سے ہوا جس میں اُن کا کلام کیفی قلندر کے نام سے چھپتا تھا۔ فنون کے دفتر میںہونے والی چند ملاقاتیں ہم دونوں کو محبت اور رفاقت کے ایک ایسے رشتے میں باندھ گئیں کہ کم ملاقاتوں کے باوجود ہم کبھی ایک دوسرے سے دُور نہیں رہے ۔ آگے چل کر وہ عمدہ شاعر ، سعید احمد اختر کے داماد اور عزیزی خاور احمدکے بہنوئی بننے کے ساتھ ساتھ وہ دو بہت ذہین اور ذمے داربیٹوں عماد قاصر اور عدنان قاصر اور نیلم بیٹی کے والد بنے، اُن کی اچانک وفات کے وقت تینوں بچے ابھی چھوٹے تھے اور یہ ہماری بھابی سلمیٰ قاصر کا کمال ہے کہ انھوں نے نہ صرف خاندان کو جوڑے رکھا بلکہ بچوں کی بھی انتہائی شاندار تربیت کی جس کا ایک زندہ ثبوت ''رنگِ ادب'' کا یہ ضخیم اور بہت عمدہ ''قاصر نمبر'' بھی ہے۔
720بڑے سائز کے صفحات پر جس محنت اور محبت سے یہ نمبر ترتیب دیا گیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں غلام محمد قاصر کی تحریروں کے ساتھ ساتھ اُن کی شخصیت اور فن پر اُن کی زندگی میں لکھے گئے مضامین سمیت اُن تمام مضامین ، آرا اور تعزیتی کالموں کو بھی جمع کر دیا گیا ہے جو اس دوران میں شایع ہوئے ہیں۔ قاصرؔ عمومی طور پر ایک کم گو اور قدرے شرمیلے انسان تھے اور اگرچہ ان کے شعری مجموعوں ''تسلسل'' ، ''آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے'' اور ''دریائے گماں''کو فوری اور بہت شہرت ملی مگر وہ کبھی اور کہیں بھی خود کو نمایاں کرنے کی شعوری کوشش نہیں کرتے تھے۔ یہ تو میرے علم میں تھا کہ ان کے بچے ان کی اور ان سے متعلق تحریروں کو جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر سچی بات یہ کہ مجھے بھی ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا کہ اس بظاہر خاموش طبع اور غیر مجلسی انسان کے بارے میں اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے۔
''رنگِ ادب '' کے مدیر اعزازی شاعر علی شاعر بھی تعریف اور مبارک کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس نمبر کو قاصر کے بارے میں ایک مکمل اور باقاعدہ دستاویزی شکل دے دی ہے۔ ترتیب کا انداز کچھ یوں ہے کہ پہلے حصے کو ''نثرِ قاصر'' کا عنوان دیا گیا ہے جس میں مختلف ادبی موضوعات شخصیات اور کتابوں پر لکھے گئے 23مضمون شامل ہیں۔
دوسرے حصے میں ان کے چارڈرامے اور تیسرے حصے میں چار اُردو اور ایک انگریزی انٹرویو رکھا گیا ہے، اس نمبر کا چوتھا حصہ ''قاصرؔ، اہلِ قلم کی نظر میں'' سب سے بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد وقیع اور جامع بھی ہے کہ اس میں شامل شدہ 48تحریروں کے بعد اگلے حصے میں مختصر آرا کے عنوان سے 23احباب کے تاثرات بھی محفوظ کر دیے گئے ہیں،اس کے بعد 14تعارفی کالم ہیں جن میں قاصر کی شخصیت کے مختلف گوشے مزید اُجاگرہوتے ہیں اس کے بعد ''تقاریب پذیرائی اور رپورٹس'' کا سیکشن ہے جس میں 19مضامین شامل ہیں قاصر کے نام خطوط والے حصے میں 37خطوط شامل کیے گئے ہیں جن میں ان کے عہد کے تقریباًسب بڑے نام شامل ہیں۔
''بیاد، قاصر' کے حصے میںتعزیتی خبروں ، رپورٹس اور اجلاس کے ساتھ تعزیتی خطوط کو جگہ دی گئی ہے جس کا اگلا حصہ تعزیتی کالموں کا ہے جس میں 17باقاعدہ کالم اور 73احباب کے تعزیتی تاثرات شامل ہیں اس طرح منظوم خراجِ عقیدت پیش کرنے والوں کی تعداد بھی 20سے زیادہ ہے آخری دو حصے منتخب کلام اور تصاویر سے مزین ہیں کلام تو قاصر کا اچھا تھا ہی مگر یہ انتخاب بھی داد کے قابل ہے کالم کی تنگ دامانی کی وجہ سے اشعار نقل کرنا شاید ممکن نہ ہو کہ ہر شعر دل کو چُھوتا اور دامن پکڑتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل میں نے احباب کے وہ خطوط جو مختلف وقتوں میں میرے نام لکھے گئے تھے ایک کتاب ''قاصد کے آتے آتے'' میں جمع کردیے ہیں، اس میں غلام محمد قاصرؔ کا 29مارچ1996ٗ کا لکھا ہوا ایک خط بھی شامل ہے جس میں اُن کی خوب صورت ، انسان دوست اور انتہائی با اخلاق شخصیت ایک ایک لفظ سے ٹپک رہی ہے تو آخرمیں اُن کو یاد کرنے اور بچوں کو اس شاندار دستاویز کی اشاعت پر داد دیتے ہوئے بغیر کسی تبصرے کے وہ خط درج کر رہا ہوں۔
برادرِ مکرم!
سلام مسنون! کل مجھے اپنی نئی کتاب ''دریائے گماں'' ملی ہے، ڈیڑھ سال تاخیر بھی ہوئی اورکتاب گیٹ اپ کے لحاظ سے بھی بس واجبی سی ہے، سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہوا کہ اس میں وہ چیزیں شامل نہیں کیں جو میں نے بعد میں بھجوائی تھیں، چار نظمیں اور چار غزلیں کورئیر سے بھجوائیں۔ صفدر حسین نے فون پر اُن کے ملنے کی اطلاع اور چھپنے کا وعدہ کیا لیکن اب وہ اس میں نہیں ہیں۔
مجھے آپ سے اور ندیم صاحب سے انتہائی شرمندگی ہو رہی ہے کہ آپ کو بتا دیا ورنہ اتنی اذّیت نہ ہوتی نئی چیزوں کے شامل کرنے سے موضوعات کے اعتماد سے ایک تو ازن سا پیدا ہوجاتا، میں نے صفدر حسین سے کہا ہے کہ وہ آپ سے صحیح صورتِ حال کا اظہار کرے تاکہ میرے ضمیر کا بوجھ کسی حد تک کم ہو ۔کتاب بھی آپ تک پہنچانے کے لیے میں نے کہا ہے، بدگمانی اچھی چیز نہیں ہے تاہم سوچتا ہوں کہ ان دو نظموںکے کتاب میں شامل نہ ہونے کو محض اتفاق کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا، اب تو خاموشی اختیارکرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گے ۔
مخلص
غلام محمد قاصر
قیامِ پاکستان کے بعد خیبر پختونخوا ( جسے چند برس قبل تک صوبہ سرحد کہا جاتا تھا ) سے تعلق رکھنے والے جن اُردو شعرا نے ملک گیر شہرت حاصل کی، ان میں میرے نزدیک احمد فراز، فارغ بخاری اور محسن احسان کے بعد چوتھا سب سے بڑا نام غلام محمد قاصر مرحوم کا ہی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک پسماندہ قصبے پہاڑ پور میں آنکھیں کھولنے والے اس باکمال شاعر نے ادبی حوالے سے انتہائی نامساعد حالات میں اپنے تخلیقی سفر کا آغا زکیا کہ اُن ہی کے بقول ابھی تک وہاں نہ ریل پہنچی تھی اور نہ بجلی۔ آٹھویں تک اُردو پڑھنے کے بعد سائنس میں میٹرک کرنے کی وجہ سے وقتی طور پر یہ سلسلہ منقطع ہوگیا، ماحول کے دبائو اور کوئی کالج نزدیک نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے مدّرسی کا پیشہ اختیار کیا اورا س دوران میں ایف اے اور بی اے کے بعد اُردو میں ایم اے کیا اور پھر ایک وقفے کے بعد وہ پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو میں کامیابی کے بعد لیکچرار ہوگئے اور پھر اِسی کے ہو رہے۔
میرا ان سے پہلا تعارف قاسمی صاحب کے ''فنون'' کے حوالے سے ہوا جس میں اُن کا کلام کیفی قلندر کے نام سے چھپتا تھا۔ فنون کے دفتر میںہونے والی چند ملاقاتیں ہم دونوں کو محبت اور رفاقت کے ایک ایسے رشتے میں باندھ گئیں کہ کم ملاقاتوں کے باوجود ہم کبھی ایک دوسرے سے دُور نہیں رہے ۔ آگے چل کر وہ عمدہ شاعر ، سعید احمد اختر کے داماد اور عزیزی خاور احمدکے بہنوئی بننے کے ساتھ ساتھ وہ دو بہت ذہین اور ذمے داربیٹوں عماد قاصر اور عدنان قاصر اور نیلم بیٹی کے والد بنے، اُن کی اچانک وفات کے وقت تینوں بچے ابھی چھوٹے تھے اور یہ ہماری بھابی سلمیٰ قاصر کا کمال ہے کہ انھوں نے نہ صرف خاندان کو جوڑے رکھا بلکہ بچوں کی بھی انتہائی شاندار تربیت کی جس کا ایک زندہ ثبوت ''رنگِ ادب'' کا یہ ضخیم اور بہت عمدہ ''قاصر نمبر'' بھی ہے۔
720بڑے سائز کے صفحات پر جس محنت اور محبت سے یہ نمبر ترتیب دیا گیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں غلام محمد قاصر کی تحریروں کے ساتھ ساتھ اُن کی شخصیت اور فن پر اُن کی زندگی میں لکھے گئے مضامین سمیت اُن تمام مضامین ، آرا اور تعزیتی کالموں کو بھی جمع کر دیا گیا ہے جو اس دوران میں شایع ہوئے ہیں۔ قاصرؔ عمومی طور پر ایک کم گو اور قدرے شرمیلے انسان تھے اور اگرچہ ان کے شعری مجموعوں ''تسلسل'' ، ''آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے'' اور ''دریائے گماں''کو فوری اور بہت شہرت ملی مگر وہ کبھی اور کہیں بھی خود کو نمایاں کرنے کی شعوری کوشش نہیں کرتے تھے۔ یہ تو میرے علم میں تھا کہ ان کے بچے ان کی اور ان سے متعلق تحریروں کو جمع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر سچی بات یہ کہ مجھے بھی ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا کہ اس بظاہر خاموش طبع اور غیر مجلسی انسان کے بارے میں اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے۔
''رنگِ ادب '' کے مدیر اعزازی شاعر علی شاعر بھی تعریف اور مبارک کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس نمبر کو قاصر کے بارے میں ایک مکمل اور باقاعدہ دستاویزی شکل دے دی ہے۔ ترتیب کا انداز کچھ یوں ہے کہ پہلے حصے کو ''نثرِ قاصر'' کا عنوان دیا گیا ہے جس میں مختلف ادبی موضوعات شخصیات اور کتابوں پر لکھے گئے 23مضمون شامل ہیں۔
دوسرے حصے میں ان کے چارڈرامے اور تیسرے حصے میں چار اُردو اور ایک انگریزی انٹرویو رکھا گیا ہے، اس نمبر کا چوتھا حصہ ''قاصرؔ، اہلِ قلم کی نظر میں'' سب سے بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد وقیع اور جامع بھی ہے کہ اس میں شامل شدہ 48تحریروں کے بعد اگلے حصے میں مختصر آرا کے عنوان سے 23احباب کے تاثرات بھی محفوظ کر دیے گئے ہیں،اس کے بعد 14تعارفی کالم ہیں جن میں قاصر کی شخصیت کے مختلف گوشے مزید اُجاگرہوتے ہیں اس کے بعد ''تقاریب پذیرائی اور رپورٹس'' کا سیکشن ہے جس میں 19مضامین شامل ہیں قاصر کے نام خطوط والے حصے میں 37خطوط شامل کیے گئے ہیں جن میں ان کے عہد کے تقریباًسب بڑے نام شامل ہیں۔
''بیاد، قاصر' کے حصے میںتعزیتی خبروں ، رپورٹس اور اجلاس کے ساتھ تعزیتی خطوط کو جگہ دی گئی ہے جس کا اگلا حصہ تعزیتی کالموں کا ہے جس میں 17باقاعدہ کالم اور 73احباب کے تعزیتی تاثرات شامل ہیں اس طرح منظوم خراجِ عقیدت پیش کرنے والوں کی تعداد بھی 20سے زیادہ ہے آخری دو حصے منتخب کلام اور تصاویر سے مزین ہیں کلام تو قاصر کا اچھا تھا ہی مگر یہ انتخاب بھی داد کے قابل ہے کالم کی تنگ دامانی کی وجہ سے اشعار نقل کرنا شاید ممکن نہ ہو کہ ہر شعر دل کو چُھوتا اور دامن پکڑتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل میں نے احباب کے وہ خطوط جو مختلف وقتوں میں میرے نام لکھے گئے تھے ایک کتاب ''قاصد کے آتے آتے'' میں جمع کردیے ہیں، اس میں غلام محمد قاصرؔ کا 29مارچ1996ٗ کا لکھا ہوا ایک خط بھی شامل ہے جس میں اُن کی خوب صورت ، انسان دوست اور انتہائی با اخلاق شخصیت ایک ایک لفظ سے ٹپک رہی ہے تو آخرمیں اُن کو یاد کرنے اور بچوں کو اس شاندار دستاویز کی اشاعت پر داد دیتے ہوئے بغیر کسی تبصرے کے وہ خط درج کر رہا ہوں۔
برادرِ مکرم!
سلام مسنون! کل مجھے اپنی نئی کتاب ''دریائے گماں'' ملی ہے، ڈیڑھ سال تاخیر بھی ہوئی اورکتاب گیٹ اپ کے لحاظ سے بھی بس واجبی سی ہے، سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہوا کہ اس میں وہ چیزیں شامل نہیں کیں جو میں نے بعد میں بھجوائی تھیں، چار نظمیں اور چار غزلیں کورئیر سے بھجوائیں۔ صفدر حسین نے فون پر اُن کے ملنے کی اطلاع اور چھپنے کا وعدہ کیا لیکن اب وہ اس میں نہیں ہیں۔
مجھے آپ سے اور ندیم صاحب سے انتہائی شرمندگی ہو رہی ہے کہ آپ کو بتا دیا ورنہ اتنی اذّیت نہ ہوتی نئی چیزوں کے شامل کرنے سے موضوعات کے اعتماد سے ایک تو ازن سا پیدا ہوجاتا، میں نے صفدر حسین سے کہا ہے کہ وہ آپ سے صحیح صورتِ حال کا اظہار کرے تاکہ میرے ضمیر کا بوجھ کسی حد تک کم ہو ۔کتاب بھی آپ تک پہنچانے کے لیے میں نے کہا ہے، بدگمانی اچھی چیز نہیں ہے تاہم سوچتا ہوں کہ ان دو نظموںکے کتاب میں شامل نہ ہونے کو محض اتفاق کہہ کر ٹالا نہیں جاسکتا، اب تو خاموشی اختیارکرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ اُمید ہے آپ خیریت سے ہوں گے ۔
مخلص
غلام محمد قاصر