ٹھگی اور آج کی دہشت گردی
آج تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جاری حکومتوں کو اپنے سامنے سر جھکانے پر مجبور کردیتے ہیں
زمانہ گزرا جب خاکستری رنگ کی ایک کتاب ابا جان نے لا کر دی اور میں نہالوں نہال ہوگئی۔ شاید اسے فیروز سنز نے شایع کیا تھا۔ یہ ٹھگوں کی کہانی تھی، میں نے بنارسی ٹھگوں کے بارے میں بہت سنا اور پڑھا تھا لیکن ٹھگوں کا پورا قصہ میری نظر سے نہیں گزرا تھا۔
میں کتاب کا کیڑا، دوسرے دن تک پوری کتاب چاٹ گئی اور پھر امی کے سپرد کردی۔ انھوں نے بھی دو دن میں اسے پڑھ ڈالا۔ ہم دونوں ٹھگوں کے نعرے ''جے بھوانی کی'' کا ذکر کرتے رہے اور لطف لیتے رہے۔ امی مجھے ان کے بارے میں بتاتی رہیں۔ بات آئی گئی ہوگئی لیکن جب بھی ٹھگوں کا ذکر آتا، وہ کتاب ذہن میں آ جاتی۔
چند دنوں پہلے کسی نے ڈاکٹر ایوسمن چکرورتی کا ایک طویل مضمون بھیجا ہے جس میں انھوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ''پندو رنگ ہری'' جو ولیم براؤن ہوکلے کا 1826 میں لکھا ہوا ایک ناول ہے، کیا وہ ہندوستانی ڈاکوؤں کا قصہ ہے یا مذہبی لٹیروں کے واقعات۔ان دنوں چونکہ دنیا بھر میں بہ طور خاص مغرب میں مذہبی دہشت گردی کے واقعات پر بہت تحقیق و تفتیش ہو رہی ہے اسی لیے 1826 میں لکھا جانے والا یہ انگریزی ناول جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ کسی انگریز کا تحریر کردہ پہلا ناول ہے جو خاص طور سے زیر بحث آیا ہے۔
دہشت گردی نصف بیسویں صدی سے بہ طور خاص ہماری توجہ کا مرکز بنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انیسویں صدی کی بعض تحریریں نئے سرے سے ہمارے زیر نظر آئی ہیں۔ ان میں سے ایک 1833 کی ہے جس کے لکھنے والے کا نام کسی کو معلوم نہیں۔ ہوکلے نے لکھا ہے کہ ان ٹھگوں کا طریقہ کار یہ تھا کہ آدھی رات کے بعد کسی ایسے مقام پر پہنچتے جہاں سفر سے تھکے ہارے لوگ سو رہے ہوتے۔ یہ لوگ گھنے پیڑوں کی چھاؤں میں سوتے تھے۔ ان گھنیرے پیڑوں پر دن بھر کے پرندوں کا بسیرا ہوتا۔ یہ پرندے سمجھتے کہ پَو پھٹ رہی ہے چنانچہ وہ ہڑبڑا کر جاگ جاتے اور ان کی چہکار سے لوگ یہ سمجھتے کہ شاید پَو پھٹ رہی ہے، وہ بھی جاگ جاتے۔ ان کے اٹھنے سے ٹھگ ان کے گلے میں پھندا ڈال کر ان کے گلے گھونٹ دیتے اور پھر ان کا مال اسباب لوٹ لیتے۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ وہ کسی بھی زندہ انسان کو نہیں لوٹتے تھے۔ وہ جاگنے والے لوگوں سے کہتے کہ وہ ''جے بھوانی کی'' کا نعرہ لگائیں۔ اس نعرے کی وجہ سے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ٹھگ مذہبی دہشت گرد ہیں۔
''پندو رنگہری'' کا ہیرو احمد نگر سے خاندیش کا سفر کر رہا ہے، اس کی محبوبہ اور اس کی خالہ اس کے ساتھ ہیں۔ وہ رات میں آرام کی غرض سے کسی دیہات میں رکتے ہیں۔ وہاں وہ سو رہے ہیں کہ اچانک پرندوں کی چہکار سن کر جاگ جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ صبح ہونے والی ہے۔ وہ سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ راستے میں ٹھگ انھیں لوٹ لیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنی جان بچا کر واپس پلٹتے ہیں تو چوکیدار انھیں بتاتا ہے کہ وہ اپنی جان بچ جانے پر شکر ادا کریں کیونکہ وہ ٹھگوں کا نشانہ بننے سے بچ گئے تھے۔
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی ان دنوں اپنا اقتدار جمانے کی کوششوں میں مصروف تھی اسی لیے وہ ٹھگوں کی سرکوبی پر بھی کمربستہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ٹھگوں کے بارے میں ہمیں کئی اہم برطانوی فوجی اور عدلیہ سے تعلق رکھنے والے افسران کے بیان، ان کی کتابیں اور ان کے عدالتی فیصلے بھی ملتے ہیں۔ ان دنوں چونکہ دہشت گردی اور بہ طور خاص مذہبی دہشت گردی نے ہمارے علاقے میں بہ طور خاص سر اٹھایا ہے اس لیے ان معاملات پر نئے سرے سے چھان بین بھی شروع ہوگئی ہے۔
ایوسمان چکرورتی کی تازہ تحقیق اس ضمن میں آتی ہے۔ مذہبی دہشت گردی کے حوالے سے ان دنوں پاکستان، ہندوستان اور مغرب میں بھی بہت سی کتابیں شایع ہوئی ہیں جن میں سے ایک سلیم شہزاد کی بھی ہے جو اپنی جان سے گیا اور جس کے قتل کا پرچہ بھی جانے کن نامعلوم افراد کے نام کٹا۔ مذہبی دہشت گردی آج ایک عفریت کی حیثیت اختیار کر گئی ہے اور اس کا دائرہ اثر لگ بھگ ساری دنیا کو اپنے حصار میں لے چکا ہے۔ پنڈاریوں یا ٹھگوں کی قتل اور لوٹ مار کو ایک طرف رکھیے اور یہ دیکھیے کہ آج چار صدیوں بعد وہ کہاں تک پھل پھول چکی ہے اور یہ بھی کہ ہم کتنے واقعات کو بھول چکے ہیں۔ انسانی یادداشت بھی کیسا دھوکا دیتی ہے۔
نائن الیون جس کو ہم نے ابھی اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، دو جہاز دو بلند و بالا عمارتوں میں گھس رہے تھے، انھوں نے اس وقت ہمیں ششدر کر دیا تھا، اس سانحے نے ہماری زندگی تلپٹ کردی اور ہماری ہی کیا کروڑوں انسانوں کو در بدر کردیا۔ ہم نہیں جانتے کہ اب سے سو پچاس برس بعد ہماری ان زندگیوں کو کس طور دیکھا جائے گا اور کیا رائے قائم کی جائے گی۔
یوں بھی آج کی لوٹ مار کے وہ انداز نہیں ہیں۔ اب کسی عورت کی بانہوں سے سونے کی چوڑیاں اتار کر انھیں سنار کے سپرد نہیں کیا جاتا، آج تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جاری حکومتوں کو اپنے سامنے سر جھکانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ یہ وہ نازک معاملات ہیں جن پر ہم سرسری گفتگو کریں۔ اس لیے آیندہ کی کسی محفل میں۔
میں کتاب کا کیڑا، دوسرے دن تک پوری کتاب چاٹ گئی اور پھر امی کے سپرد کردی۔ انھوں نے بھی دو دن میں اسے پڑھ ڈالا۔ ہم دونوں ٹھگوں کے نعرے ''جے بھوانی کی'' کا ذکر کرتے رہے اور لطف لیتے رہے۔ امی مجھے ان کے بارے میں بتاتی رہیں۔ بات آئی گئی ہوگئی لیکن جب بھی ٹھگوں کا ذکر آتا، وہ کتاب ذہن میں آ جاتی۔
چند دنوں پہلے کسی نے ڈاکٹر ایوسمن چکرورتی کا ایک طویل مضمون بھیجا ہے جس میں انھوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ''پندو رنگ ہری'' جو ولیم براؤن ہوکلے کا 1826 میں لکھا ہوا ایک ناول ہے، کیا وہ ہندوستانی ڈاکوؤں کا قصہ ہے یا مذہبی لٹیروں کے واقعات۔ان دنوں چونکہ دنیا بھر میں بہ طور خاص مغرب میں مذہبی دہشت گردی کے واقعات پر بہت تحقیق و تفتیش ہو رہی ہے اسی لیے 1826 میں لکھا جانے والا یہ انگریزی ناول جس کے بارے میں خیال ہے کہ یہ کسی انگریز کا تحریر کردہ پہلا ناول ہے جو خاص طور سے زیر بحث آیا ہے۔
دہشت گردی نصف بیسویں صدی سے بہ طور خاص ہماری توجہ کا مرکز بنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انیسویں صدی کی بعض تحریریں نئے سرے سے ہمارے زیر نظر آئی ہیں۔ ان میں سے ایک 1833 کی ہے جس کے لکھنے والے کا نام کسی کو معلوم نہیں۔ ہوکلے نے لکھا ہے کہ ان ٹھگوں کا طریقہ کار یہ تھا کہ آدھی رات کے بعد کسی ایسے مقام پر پہنچتے جہاں سفر سے تھکے ہارے لوگ سو رہے ہوتے۔ یہ لوگ گھنے پیڑوں کی چھاؤں میں سوتے تھے۔ ان گھنیرے پیڑوں پر دن بھر کے پرندوں کا بسیرا ہوتا۔ یہ پرندے سمجھتے کہ پَو پھٹ رہی ہے چنانچہ وہ ہڑبڑا کر جاگ جاتے اور ان کی چہکار سے لوگ یہ سمجھتے کہ شاید پَو پھٹ رہی ہے، وہ بھی جاگ جاتے۔ ان کے اٹھنے سے ٹھگ ان کے گلے میں پھندا ڈال کر ان کے گلے گھونٹ دیتے اور پھر ان کا مال اسباب لوٹ لیتے۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ وہ کسی بھی زندہ انسان کو نہیں لوٹتے تھے۔ وہ جاگنے والے لوگوں سے کہتے کہ وہ ''جے بھوانی کی'' کا نعرہ لگائیں۔ اس نعرے کی وجہ سے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ ٹھگ مذہبی دہشت گرد ہیں۔
''پندو رنگہری'' کا ہیرو احمد نگر سے خاندیش کا سفر کر رہا ہے، اس کی محبوبہ اور اس کی خالہ اس کے ساتھ ہیں۔ وہ رات میں آرام کی غرض سے کسی دیہات میں رکتے ہیں۔ وہاں وہ سو رہے ہیں کہ اچانک پرندوں کی چہکار سن کر جاگ جاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ صبح ہونے والی ہے۔ وہ سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ راستے میں ٹھگ انھیں لوٹ لیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اپنی جان بچا کر واپس پلٹتے ہیں تو چوکیدار انھیں بتاتا ہے کہ وہ اپنی جان بچ جانے پر شکر ادا کریں کیونکہ وہ ٹھگوں کا نشانہ بننے سے بچ گئے تھے۔
برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی ان دنوں اپنا اقتدار جمانے کی کوششوں میں مصروف تھی اسی لیے وہ ٹھگوں کی سرکوبی پر بھی کمربستہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ٹھگوں کے بارے میں ہمیں کئی اہم برطانوی فوجی اور عدلیہ سے تعلق رکھنے والے افسران کے بیان، ان کی کتابیں اور ان کے عدالتی فیصلے بھی ملتے ہیں۔ ان دنوں چونکہ دہشت گردی اور بہ طور خاص مذہبی دہشت گردی نے ہمارے علاقے میں بہ طور خاص سر اٹھایا ہے اس لیے ان معاملات پر نئے سرے سے چھان بین بھی شروع ہوگئی ہے۔
ایوسمان چکرورتی کی تازہ تحقیق اس ضمن میں آتی ہے۔ مذہبی دہشت گردی کے حوالے سے ان دنوں پاکستان، ہندوستان اور مغرب میں بھی بہت سی کتابیں شایع ہوئی ہیں جن میں سے ایک سلیم شہزاد کی بھی ہے جو اپنی جان سے گیا اور جس کے قتل کا پرچہ بھی جانے کن نامعلوم افراد کے نام کٹا۔ مذہبی دہشت گردی آج ایک عفریت کی حیثیت اختیار کر گئی ہے اور اس کا دائرہ اثر لگ بھگ ساری دنیا کو اپنے حصار میں لے چکا ہے۔ پنڈاریوں یا ٹھگوں کی قتل اور لوٹ مار کو ایک طرف رکھیے اور یہ دیکھیے کہ آج چار صدیوں بعد وہ کہاں تک پھل پھول چکی ہے اور یہ بھی کہ ہم کتنے واقعات کو بھول چکے ہیں۔ انسانی یادداشت بھی کیسا دھوکا دیتی ہے۔
نائن الیون جس کو ہم نے ابھی اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، دو جہاز دو بلند و بالا عمارتوں میں گھس رہے تھے، انھوں نے اس وقت ہمیں ششدر کر دیا تھا، اس سانحے نے ہماری زندگی تلپٹ کردی اور ہماری ہی کیا کروڑوں انسانوں کو در بدر کردیا۔ ہم نہیں جانتے کہ اب سے سو پچاس برس بعد ہماری ان زندگیوں کو کس طور دیکھا جائے گا اور کیا رائے قائم کی جائے گی۔
یوں بھی آج کی لوٹ مار کے وہ انداز نہیں ہیں۔ اب کسی عورت کی بانہوں سے سونے کی چوڑیاں اتار کر انھیں سنار کے سپرد نہیں کیا جاتا، آج تو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جاری حکومتوں کو اپنے سامنے سر جھکانے پر مجبور کردیتے ہیں۔ یہ وہ نازک معاملات ہیں جن پر ہم سرسری گفتگو کریں۔ اس لیے آیندہ کی کسی محفل میں۔