پرانے مسائل اور پرانا نظام
پاکستان میں رکن اسمبلی اس لیے بنتے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سرکاری مراعات حاصل کر سکیں
کراچی:
وزیر اعظم شہباز شریف نے ہفتے کو خاصا مصروف دن گزارا ۔ اس روز وہ پاکستان نیول اکیڈمی کراچی میں117ویں مڈشپ مین اور 25 ویں شارٹ سروس کمیشن کورس کی کمیشننگ پریڈ کی تقریب کے مہمان خصوصی تھے اور اس حیثیت میں انھوں نے وہاں خطاب کیا۔ تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ ملکی دفاع مضبوط بنانے پر قوم کو مسلح افواج پر فخر ہے، پاکستان کو فضا اور سمندر میں دھمکانے والوں کو دندان شکن جواب دیا گیا۔
میری ٹائم مفادات کے تحفظ کے لیے پاک بحریہ کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے، دوست ممالک سے مشترکہ منصوبے اس کی صلاحیت میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت پاک بحریہ کو تمام ضروری وسائل مہیا کرے گی۔اسی روز انھوں نے ایم کیو ایم پاکستان کے وفد سے ملاقات کی، جس میں موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، پھر وزیراعظم نوابشاہ پہنچے جہاں انھوں نے سابق صدر آصف زرداری کی والدہ محترمہ کے انتقال پر تعزیت کی ۔اس بھاگم دوڑ میں انھوں نے ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں ایک بیان جاری کیا۔
میڈیا کے مطابق اپنے بیان میں وزیراعظم میاںشہباز شریف نے ملک کے امیر طبقات پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ملک کو درپیش سیاسی و معاشی مسائل کے حوالے سے اتحادی حکومت کے پاس دو راستے تھے۔ پہلاراستہ یہ تھاکہ جنرل الیکشن کرائیں اورمعیشت کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے لیے چھوڑ دیں ۔
دوسرا راستہ یہ تھاکہ پہلے ملک کو درپیش اقتصادی چیلنجز سے نمٹا جائے۔ ہم نے پاکستان کو معاشی دلدل سے بچانے کا انتخاب کیا اور پاکستان کو پہلے سامنے رکھا۔ یہ پہلابجٹ ہے جس میں معیشت کی بحالی کا منصوبہ ہے، سخت فیصلے ملک کو معاشی بحران پر قابو پانے کے قابل بنائیں گے۔ حکومت نے کم آمدنی والے طبقات اور تنخواہ دار طبقے پرکم سے کم بوجھ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
ملک کا متمول طبقہ بوجھ بانٹ کر قومی فرض پوراکرے۔ براہ راست ٹیکس سے حاصل رقم مالی مشکلات سے متاثر افراد پرخرچ ہوگی۔ میکرو اکنامک استحکام پہلا قدم ہے۔ اتحادی حکومت معاشی خود کفالت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ہماری قومی سلامتی کا معاشی استحکام سے بہت گہرا تعلق ہے۔
وزیراعظم نے ملک کے متمول طبقے کو سامنے رکھ کر جو بات کی ہے، اسے غلط یا ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اور اس کے ٹیکس ادارے کی نظر میں متمول اورخوشحال طبقے وہ ہیں، جواس کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ ملک میں جتنے صنعتی اور کاروباری ادارے اور کمپنیاں کام کررہی ہیں، وہ ایف بی آر کے ٹیکس نیٹ میں پہلے سے موجود ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر کا ریکارڈ ایس ای سی پی کے پاس بھی ہے اور ملک کے تمام چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے پاس موجود ہیں۔اب ان پر ٹیکس کی شرح بڑھائی بھی جاتی ہے تو اس کا بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ مستحکم مالی اداروں کے پاس ٹیکس لائرز کی اچھی ٹیم ہوتی ہے اور وہ ٹیکس لاز میں موجود لوپ ہولز کا پورا فائدہ اٹھا کر اپنے کلائنٹس کے مالی مفادات کا تحفظ کرلیتے ہیں۔
اصل کام متمول طبقے سے پورا ٹیکس وصول کرنا ہے،اس مقصد تک پہنچنے کے لیے ٹیکس وصول کرنے والے سرکاری اداروں کے افسروں اور ملازمین کی پروفیشنل تربیت سب سے زیادہ ضروری ہے۔ترقی یافتہ دنیا میں سرکاری افسر اور ملازم کی تعلیم و تربیت کافوکس سائلین کے مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے نہ کہ انھیں ضابطوں کی آڑ لے کر الجھنا ہوتا ہے۔
پاکستان میں سرکاری افسر سے لے کر کلرک،حتیٰ کے چپڑاسی تک کی تعلیم و تربیت ان خطوط پر چل رہی ہے کہ سائل کو زیادہ سے زیادہ الجھاؤ،چکر پر چکر لگواؤ تاکہ وہ مجبور ہوکر مک مکا پر تیار ہوجائے۔یہ رویہ جائز کام کرانے والے سائلین کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے، ناجائز کام کرانے والے تو بلاحیل وحجت مک مکا کرتے ہیں۔پاکستان کی ترقی کے لیے ریاست کے نام پر اختیارات حاصل کرنے والے سرکاری افسرشاہی اور کلرک شاہی کی سلیکشن اور تربیت جوابدہی اور فرائض کی ادائیگی کی بنیاد پر کرنی ہوگی۔
پاکستان میں سرکار کے اعلٰی عہدیدار نوآبادیات کی باقیات ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت اپنے سے طاقتور اور بااختیار عہدیدار کی اطاعت اور خوشامد کرنا اور ماتحت اور سائلین کو کمتر سمجھنا اور اسے ذلیل کرنے کے اصول پر ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ریاست کے اعلیٰ عہدیدار سرکاری مال کو مراعات کے نام پر حاصل کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے قوانین بنا کر ہر غلط کام کو قانونی ہونے کا لبادہ بھی پہنا دیتے ہیں۔
لہٰذا پاکستان کو ٹھیک کرنے کے لیے جہاں اور بہت سے کاموں اور منصوبوں کی ضرورت ہے ، وہاں سرکاری افسروں اور ملازمین کو عملاً پبلک سرونٹ بنانے کے لیے ان کو جہاں اختیارات دیے جاتے ہیں، وہاں اختیارات کے غلط استعمال پر ان کی جوابدہی اور سزا کے قوانین متعارف کرانا بھی انتہائی ضروری ہیں۔ ادھر وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ رئیل اسٹیٹ بروکرز، بلڈرز، کار ڈیلرز، ریسٹورنٹس اور سیلونز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ مختلف ٹویٹس میں وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ٹیکس کی بنیاد اور دائرہ کار میں توسیع زور زبردستی نہیں بلکہ مشاورت سے کی جائے گی۔
نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں لاکھوں دکانوں کوٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے۔ جیولرز کو بھی ٹیکس کے دائرہ کارمیں لایا جا رہا ہے، کسی کوشک نہیں ہونا چاہیے کہ آنے والے مہینوں میں ڈاکٹرز، ڈیزائنرز ،وکلا سمیت تمام پروفیشنلز کو ٹیکس نیٹ میں لایاجائے گا۔ چھوٹے دکانداروں اورجیولرز کوٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کے لیے ان کی ایسوسی ایشنز سے بات چیت کی ہے اور ان کی مرضی سے انھیں ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا گیا ہے۔
ادھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے ترمیم شدہ فنانس بل 2022 کے تحت گاڑیوں پر کیپیٹل ویلیو ٹیکس(سی وی ٹی)کو 2 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کردیا ہے جس سے گاڑیاں سستی ہونیکی توقع ہے۔ذرایع کے مطابق فنانس بل 2022کے تحت ایف بی آر نے بعض اثاثوں کی کیپیٹل ویلیو پر ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے، جسے کیپیٹل ویلیو ٹیکس 2022کہا جائے گا۔ کیپیٹل ویلیو ٹیکس پچاس لاکھ روپے سے زائد مالیت کی گاڑیوں پر وصول کیا جائے گا۔ ایف بی آر نے گاڑیوں کی قیمت کے تعین کا طریقہ کار بھی فراہم کر دیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جو بھی گاڑی پاکستان میں درآمد کی جاتی ہے، کسٹم حکام کے ذریعہ کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ کے طور پر درآمدی قیمت کا تخمینہ لگایا جائے گا۔
تاہم پاکستان میں مقامی طور پر تیار یا اسمبل کی جانے والی گاڑیوں، وہ قیمت ہوگی جس پر موٹر گاڑی مقامی مینوفیکچرر یا اسمبلر کے ذریعے فروخت کی جاتی ہے جہاں گاڑی نیلام کی جاتی ہے،وہاں نیلامی کی قیمت کو کسٹمز ڈیوٹی،ٹیکس اور سی وی ٹی کے لیے تصور کیا جائے گا،مذکورہ گاڑی کی قیمت مالی سال کے اختتام سے جس میں گاڑی حاصل کی گئی ہے ہر سال کے لیے دس فیصد کی کمی کی جائے گی۔کلکٹرکسٹمز گاڑی کی درآمد کے وقت درآمدی قیمت پر مروجہ شرح کے مطابق کسٹمز ڈیوٹی و ٹیکس وصول کرے گا ۔
قیام پاکستان کے بعد سے جس نظام کے تحت ملک کو چلایا گیا ہے اور جس نظام کے تحت آج بھی چلایا جا رہا ہے اس میں غیر معمولی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اگر موجودہ اتحادی حکومت میں شامل سیاسی پارٹیوں کے قائدین اور پارلیمنٹیرینز جمہوریت کے فلسفے کو سمجھیں ' آئین اور قوانین کی لاجک پر غور کریں ' اور پھر بطور عوام کے منتخب نمایندہ ہونے کے اپنے فرائض کا ادراک کریں تو مسائل کا حل زیادہ مشکل نہیں ہے۔
پارلیمنٹیرینز کا کام ہی قوانین کو مرتب کرنا اور انھیں منظوری دینا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں رکن اسمبلی اس لیے بنتے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سرکاری مراعات حاصل کر سکیں'ترقیاتی فنڈز کا کوٹہ ان کی مرضی سے استعمال کیا جائے' انھیں سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ بھی دیا جائے اور ان کے حلقے میں انتظامیہ بھی ان کے کہنے کے مطابق تعینات کی جائے۔پاکستان کے مسائل کی وجہ بھی یہی سوچ اور اپروچ ہے۔
اسی طرح جو نوجوان سی ایس ایس یا پی سی ایس یا کوئی اور مقابلہ کا امتحان پاس کر کے بھرتی ہوتا ہے تو اس کا بھی پہلا مقصد زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنا 'رعب دبدبہ قائم کرنا اور اپنے عزیزوں رشتے داروں کے مفادات کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کا آئینی اور قانونی ڈھانچہ بھی انھیں سہولت مہیا کرتا ہے' جب تک یہ تبدیلی نہیں آئے گی پاکستان ایسے ہی چلے گا جیسے 70برس سے چلا آ رہا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے ہفتے کو خاصا مصروف دن گزارا ۔ اس روز وہ پاکستان نیول اکیڈمی کراچی میں117ویں مڈشپ مین اور 25 ویں شارٹ سروس کمیشن کورس کی کمیشننگ پریڈ کی تقریب کے مہمان خصوصی تھے اور اس حیثیت میں انھوں نے وہاں خطاب کیا۔ تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ ملکی دفاع مضبوط بنانے پر قوم کو مسلح افواج پر فخر ہے، پاکستان کو فضا اور سمندر میں دھمکانے والوں کو دندان شکن جواب دیا گیا۔
میری ٹائم مفادات کے تحفظ کے لیے پاک بحریہ کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنا ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے، دوست ممالک سے مشترکہ منصوبے اس کی صلاحیت میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت پاک بحریہ کو تمام ضروری وسائل مہیا کرے گی۔اسی روز انھوں نے ایم کیو ایم پاکستان کے وفد سے ملاقات کی، جس میں موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا، پھر وزیراعظم نوابشاہ پہنچے جہاں انھوں نے سابق صدر آصف زرداری کی والدہ محترمہ کے انتقال پر تعزیت کی ۔اس بھاگم دوڑ میں انھوں نے ملک کی معاشی صورتحال کے بارے میں ایک بیان جاری کیا۔
میڈیا کے مطابق اپنے بیان میں وزیراعظم میاںشہباز شریف نے ملک کے امیر طبقات پر 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ملک کو درپیش سیاسی و معاشی مسائل کے حوالے سے اتحادی حکومت کے پاس دو راستے تھے۔ پہلاراستہ یہ تھاکہ جنرل الیکشن کرائیں اورمعیشت کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کے لیے چھوڑ دیں ۔
دوسرا راستہ یہ تھاکہ پہلے ملک کو درپیش اقتصادی چیلنجز سے نمٹا جائے۔ ہم نے پاکستان کو معاشی دلدل سے بچانے کا انتخاب کیا اور پاکستان کو پہلے سامنے رکھا۔ یہ پہلابجٹ ہے جس میں معیشت کی بحالی کا منصوبہ ہے، سخت فیصلے ملک کو معاشی بحران پر قابو پانے کے قابل بنائیں گے۔ حکومت نے کم آمدنی والے طبقات اور تنخواہ دار طبقے پرکم سے کم بوجھ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
ملک کا متمول طبقہ بوجھ بانٹ کر قومی فرض پوراکرے۔ براہ راست ٹیکس سے حاصل رقم مالی مشکلات سے متاثر افراد پرخرچ ہوگی۔ میکرو اکنامک استحکام پہلا قدم ہے۔ اتحادی حکومت معاشی خود کفالت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ہماری قومی سلامتی کا معاشی استحکام سے بہت گہرا تعلق ہے۔
وزیراعظم نے ملک کے متمول طبقے کو سامنے رکھ کر جو بات کی ہے، اسے غلط یا ناجائز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔اب مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اور اس کے ٹیکس ادارے کی نظر میں متمول اورخوشحال طبقے وہ ہیں، جواس کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ ملک میں جتنے صنعتی اور کاروباری ادارے اور کمپنیاں کام کررہی ہیں، وہ ایف بی آر کے ٹیکس نیٹ میں پہلے سے موجود ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر کا ریکارڈ ایس ای سی پی کے پاس بھی ہے اور ملک کے تمام چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے پاس موجود ہیں۔اب ان پر ٹیکس کی شرح بڑھائی بھی جاتی ہے تو اس کا بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ مستحکم مالی اداروں کے پاس ٹیکس لائرز کی اچھی ٹیم ہوتی ہے اور وہ ٹیکس لاز میں موجود لوپ ہولز کا پورا فائدہ اٹھا کر اپنے کلائنٹس کے مالی مفادات کا تحفظ کرلیتے ہیں۔
اصل کام متمول طبقے سے پورا ٹیکس وصول کرنا ہے،اس مقصد تک پہنچنے کے لیے ٹیکس وصول کرنے والے سرکاری اداروں کے افسروں اور ملازمین کی پروفیشنل تربیت سب سے زیادہ ضروری ہے۔ترقی یافتہ دنیا میں سرکاری افسر اور ملازم کی تعلیم و تربیت کافوکس سائلین کے مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے نہ کہ انھیں ضابطوں کی آڑ لے کر الجھنا ہوتا ہے۔
پاکستان میں سرکاری افسر سے لے کر کلرک،حتیٰ کے چپڑاسی تک کی تعلیم و تربیت ان خطوط پر چل رہی ہے کہ سائل کو زیادہ سے زیادہ الجھاؤ،چکر پر چکر لگواؤ تاکہ وہ مجبور ہوکر مک مکا پر تیار ہوجائے۔یہ رویہ جائز کام کرانے والے سائلین کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے، ناجائز کام کرانے والے تو بلاحیل وحجت مک مکا کرتے ہیں۔پاکستان کی ترقی کے لیے ریاست کے نام پر اختیارات حاصل کرنے والے سرکاری افسرشاہی اور کلرک شاہی کی سلیکشن اور تربیت جوابدہی اور فرائض کی ادائیگی کی بنیاد پر کرنی ہوگی۔
پاکستان میں سرکار کے اعلٰی عہدیدار نوآبادیات کی باقیات ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت اپنے سے طاقتور اور بااختیار عہدیدار کی اطاعت اور خوشامد کرنا اور ماتحت اور سائلین کو کمتر سمجھنا اور اسے ذلیل کرنے کے اصول پر ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ریاست کے اعلیٰ عہدیدار سرکاری مال کو مراعات کے نام پر حاصل کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں اور اس حوالے سے قوانین بنا کر ہر غلط کام کو قانونی ہونے کا لبادہ بھی پہنا دیتے ہیں۔
لہٰذا پاکستان کو ٹھیک کرنے کے لیے جہاں اور بہت سے کاموں اور منصوبوں کی ضرورت ہے ، وہاں سرکاری افسروں اور ملازمین کو عملاً پبلک سرونٹ بنانے کے لیے ان کو جہاں اختیارات دیے جاتے ہیں، وہاں اختیارات کے غلط استعمال پر ان کی جوابدہی اور سزا کے قوانین متعارف کرانا بھی انتہائی ضروری ہیں۔ ادھر وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ رئیل اسٹیٹ بروکرز، بلڈرز، کار ڈیلرز، ریسٹورنٹس اور سیلونز کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ مختلف ٹویٹس میں وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ ٹیکس کی بنیاد اور دائرہ کار میں توسیع زور زبردستی نہیں بلکہ مشاورت سے کی جائے گی۔
نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ میں لاکھوں دکانوں کوٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے۔ جیولرز کو بھی ٹیکس کے دائرہ کارمیں لایا جا رہا ہے، کسی کوشک نہیں ہونا چاہیے کہ آنے والے مہینوں میں ڈاکٹرز، ڈیزائنرز ،وکلا سمیت تمام پروفیشنلز کو ٹیکس نیٹ میں لایاجائے گا۔ چھوٹے دکانداروں اورجیولرز کوٹیکس کے دائرہ کار میں لانے کے لیے ان کی ایسوسی ایشنز سے بات چیت کی ہے اور ان کی مرضی سے انھیں ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا گیا ہے۔
ادھر فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے ترمیم شدہ فنانس بل 2022 کے تحت گاڑیوں پر کیپیٹل ویلیو ٹیکس(سی وی ٹی)کو 2 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد کردیا ہے جس سے گاڑیاں سستی ہونیکی توقع ہے۔ذرایع کے مطابق فنانس بل 2022کے تحت ایف بی آر نے بعض اثاثوں کی کیپیٹل ویلیو پر ٹیکس لگانے کی تجویز دی ہے، جسے کیپیٹل ویلیو ٹیکس 2022کہا جائے گا۔ کیپیٹل ویلیو ٹیکس پچاس لاکھ روپے سے زائد مالیت کی گاڑیوں پر وصول کیا جائے گا۔ ایف بی آر نے گاڑیوں کی قیمت کے تعین کا طریقہ کار بھی فراہم کر دیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جو بھی گاڑی پاکستان میں درآمد کی جاتی ہے، کسٹم حکام کے ذریعہ کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ کے طور پر درآمدی قیمت کا تخمینہ لگایا جائے گا۔
تاہم پاکستان میں مقامی طور پر تیار یا اسمبل کی جانے والی گاڑیوں، وہ قیمت ہوگی جس پر موٹر گاڑی مقامی مینوفیکچرر یا اسمبلر کے ذریعے فروخت کی جاتی ہے جہاں گاڑی نیلام کی جاتی ہے،وہاں نیلامی کی قیمت کو کسٹمز ڈیوٹی،ٹیکس اور سی وی ٹی کے لیے تصور کیا جائے گا،مذکورہ گاڑی کی قیمت مالی سال کے اختتام سے جس میں گاڑی حاصل کی گئی ہے ہر سال کے لیے دس فیصد کی کمی کی جائے گی۔کلکٹرکسٹمز گاڑی کی درآمد کے وقت درآمدی قیمت پر مروجہ شرح کے مطابق کسٹمز ڈیوٹی و ٹیکس وصول کرے گا ۔
قیام پاکستان کے بعد سے جس نظام کے تحت ملک کو چلایا گیا ہے اور جس نظام کے تحت آج بھی چلایا جا رہا ہے اس میں غیر معمولی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اگر موجودہ اتحادی حکومت میں شامل سیاسی پارٹیوں کے قائدین اور پارلیمنٹیرینز جمہوریت کے فلسفے کو سمجھیں ' آئین اور قوانین کی لاجک پر غور کریں ' اور پھر بطور عوام کے منتخب نمایندہ ہونے کے اپنے فرائض کا ادراک کریں تو مسائل کا حل زیادہ مشکل نہیں ہے۔
پارلیمنٹیرینز کا کام ہی قوانین کو مرتب کرنا اور انھیں منظوری دینا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں رکن اسمبلی اس لیے بنتے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سرکاری مراعات حاصل کر سکیں'ترقیاتی فنڈز کا کوٹہ ان کی مرضی سے استعمال کیا جائے' انھیں سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ بھی دیا جائے اور ان کے حلقے میں انتظامیہ بھی ان کے کہنے کے مطابق تعینات کی جائے۔پاکستان کے مسائل کی وجہ بھی یہی سوچ اور اپروچ ہے۔
اسی طرح جو نوجوان سی ایس ایس یا پی سی ایس یا کوئی اور مقابلہ کا امتحان پاس کر کے بھرتی ہوتا ہے تو اس کا بھی پہلا مقصد زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنا 'رعب دبدبہ قائم کرنا اور اپنے عزیزوں رشتے داروں کے مفادات کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کا آئینی اور قانونی ڈھانچہ بھی انھیں سہولت مہیا کرتا ہے' جب تک یہ تبدیلی نہیں آئے گی پاکستان ایسے ہی چلے گا جیسے 70برس سے چلا آ رہا ہے۔