جج کی موت سرکاری گولی سے ہوئی پولیس دہشت گردوں نے مارا وکلا
8 حملہ آور تھے، سامنے آنے پرشناخت بھی کیا جاسکتا ہے، وزیرداخلہ استعفیٰ دیں ، وکلا کا مطالبہ
اسلام آباد پولیس نے ضلع کچہری میں دہشت گردی کے واقعے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں جج رفاقت اعوان کی موت کوایک بارپھر ان کے گن مین کے سرکاری ریوالورسے چلنے والی گولیوں کو قراردیا ہے۔
دوسری طرف ذرائع کے مطابق حکومت کی ناکامی چھپانے کے لیے وزارت داخلہ کااسلام آباد پولیس پردبائو بڑھ گیا ہے، پولیس نے وفاقی وزیرداخلہ کی جانب سے ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کی موت میں مبینہ طور پر ملوث قرار دیے جانے والے گارڈکو ابتدائی تحقیقات مکمل ہونے سے قبل ہی قصور وار ٹھہرا دیاہے۔مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق اسلام آباد بار نے سانحہ کچہری پر پولیس کے خلاف تھانہ مارگلہ میں درخواست جمع کرا دی ہے۔ صدر بار راجا ناصر کی درخواست میں آئی جی،ایس ایس پی اور ایس ایچ او تھانہ مارگلہ کو واقعے کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔درخواست میں کہا گیاکہ واقعے کے بعد پولیس نے میڈیا کو غلط بیانات جاری کیے ہیں، حملہ آوروں کی تعداد 8 تھی، ان کی عمریں 16سے30سال کے درمیان تھیں اور وہ پوٹھوہاری اور پنجابی زبان میں بات چیت کررہے تھے۔ درخواست میں کہا گیا کہ کچہری میں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرار ہوئے، دہشت گردی کے 30 منٹ بعد بھی پولیس نے کارروائی نہ کی۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ ایڈیشنل سیشن جج رفاقت دہشت گردوں کی گولیوں سے شہید ہوئے،ان کے قتل کے عینی شاہد موجود ہیں۔وکلا نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آوروں کو سامنے لانے پر شناخت کیا جا سکتا ہے۔نمائندہ ایکسپریس کے مطابق پولیس کی طرف سے جاری بیان میںکہاگیا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان خان کوان کے گن مین بابرحسین کے سرکاری ریوالور نمبری522228D سے گولیاں لگیں۔مذکورہ کانسٹیبل کو ٹھوس شواہدکی بنا پرگرفتارکرکے انسداددہشت گردی کی عدالت سے 3 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیاگیا ہے۔پولیس بیان میں بتایاگیا کہ دہشت گردوں کے طرف سے کلاشنکوف سے فائر گولیوں کے نشانات کورٹ روم ،چیمبرکے دروازوں، دیوار، چیمبرکے اندر یاکسی بھی اورجگہ سے نہیں ملے،شہید جج کے کپڑوںکے اوپر 2گولیوںکے نشانات ہیں اور ان کی بنیان پر بنے سوراخ پرواضح کالا نشان ثابت کرتا ہے کہ یہ سوراخ بالکل نزدیک سے اورچھوٹے اسلحے کے فائرسے ہوا ۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شہیدجج کے جسم پرگولی کے زخم کے 2نشانات ہیں،ایک نشان ان کی کہنی اورکلائی کے درمیان والے حصے پر ہے،گولی کا دوسرازخم چھاتی کے بائیں طرف ہے، یہاں لگنے والی گولی ان کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔یہ پوسٹ مارٹم رپورٹ ڈاکٹروں کے 3 رکنی بورڈ نے تیارکی ہے۔گن مین کا سرکاری ریوالور فرانزک معائنے کے لیے لیبارٹری بھجوا دیا گیا ہے ۔آن لائن کے مطابق کچہری واقعے پر حکومت کی ناکامی چھپانے کے لیے وزارت داخلہ کے دبائو پر جاری پولیس بیان میں شہیدو زخمی افرادکی میڈیکل رپورٹ کے اصل حقائق کو بھی نظر اندازکیا گیا ہے ،اس ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ زیادہ تر افرادکو8 سے 10فٹ کے فاصلے سے جبکہ کچھ کوکافی قریب 2فٹ سے نشانہ بنایا گیا ۔ذرائع کے مطابق پولیس کی پھرتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 3 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے سے قبل ہی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جاری کردی گئی۔نمائندہ ایکسپریسکے مطابق پاکستان بارکونسل کی ایگزیکٹوکمیٹی نے ایک قراردادکے ذریعے کچہری واقعے پر وزیر داخلہ چوہدری کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔
ابرار حسن ایڈووکیٹ کی زیر صدارت اجلاس میں متاثرہ خاندانوںکے ساتھ تعزیت کا اظہارکیاگیا ہے۔اجلاس میں ایڈیشنل سیشن جج رفاقت حسین اعوان کی شہادت سے متعلق چوہدری نثارکے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے ان سے استعفیٰ لینے کا مطالبہ کیا گیا ۔قرارداد میںکہا گیا کہ حکومت شہریوںکے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے، دہشتگرد46 منٹ تک فائرنگ کرتے رہے لیکن وہاں پر پولیس نظر نہیں آئی،حکومت نے ججز اور وکلا کو مناسب سیکیورٹی نہیں دی۔ پاکستان بار نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جاں بحق ہونے والے وکلا کے لیے ایک کروڑ اور زخمیوں کے لیے 10 لاکھ روپے امدادکا اعلان کرے۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی ہدایت پر رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے پمز میں زیر علاج سانحہ ایف8 کچہری کے زخمیوںکی عیادت کی اور75 ہزار روپے فی کس چیک تقسیم کیے۔28 زخمیوں میں سے 14 اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ طارق فضل نے کہا14 زیرعلاج زخمیوں میں چیک تقسیم کر دیے ہیں، ڈسچارج ہونے والوںکے چیک گھروں میں پہنچائے جائیں گے۔انھوں نے کہا کہ سرکاری ڈیوٹی کے دوران شہید ہونے والوںاور سینئر وکلا کے ورثاکو30 لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک امداد فراہم کی جائے گی جبکہ مرنے والے دیگرافرادکے لواحقین کو5 لاکھ روپے فی کس دیے جائیںگے۔
دوسری طرف ذرائع کے مطابق حکومت کی ناکامی چھپانے کے لیے وزارت داخلہ کااسلام آباد پولیس پردبائو بڑھ گیا ہے، پولیس نے وفاقی وزیرداخلہ کی جانب سے ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان کی موت میں مبینہ طور پر ملوث قرار دیے جانے والے گارڈکو ابتدائی تحقیقات مکمل ہونے سے قبل ہی قصور وار ٹھہرا دیاہے۔مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق اسلام آباد بار نے سانحہ کچہری پر پولیس کے خلاف تھانہ مارگلہ میں درخواست جمع کرا دی ہے۔ صدر بار راجا ناصر کی درخواست میں آئی جی،ایس ایس پی اور ایس ایچ او تھانہ مارگلہ کو واقعے کا ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔درخواست میں کہا گیاکہ واقعے کے بعد پولیس نے میڈیا کو غلط بیانات جاری کیے ہیں، حملہ آوروں کی تعداد 8 تھی، ان کی عمریں 16سے30سال کے درمیان تھیں اور وہ پوٹھوہاری اور پنجابی زبان میں بات چیت کررہے تھے۔ درخواست میں کہا گیا کہ کچہری میں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار بزدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرار ہوئے، دہشت گردی کے 30 منٹ بعد بھی پولیس نے کارروائی نہ کی۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ ایڈیشنل سیشن جج رفاقت دہشت گردوں کی گولیوں سے شہید ہوئے،ان کے قتل کے عینی شاہد موجود ہیں۔وکلا نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آوروں کو سامنے لانے پر شناخت کیا جا سکتا ہے۔نمائندہ ایکسپریس کے مطابق پولیس کی طرف سے جاری بیان میںکہاگیا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج رفاقت اعوان خان کوان کے گن مین بابرحسین کے سرکاری ریوالور نمبری522228D سے گولیاں لگیں۔مذکورہ کانسٹیبل کو ٹھوس شواہدکی بنا پرگرفتارکرکے انسداددہشت گردی کی عدالت سے 3 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیاگیا ہے۔پولیس بیان میں بتایاگیا کہ دہشت گردوں کے طرف سے کلاشنکوف سے فائر گولیوں کے نشانات کورٹ روم ،چیمبرکے دروازوں، دیوار، چیمبرکے اندر یاکسی بھی اورجگہ سے نہیں ملے،شہید جج کے کپڑوںکے اوپر 2گولیوںکے نشانات ہیں اور ان کی بنیان پر بنے سوراخ پرواضح کالا نشان ثابت کرتا ہے کہ یہ سوراخ بالکل نزدیک سے اورچھوٹے اسلحے کے فائرسے ہوا ۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ شہیدجج کے جسم پرگولی کے زخم کے 2نشانات ہیں،ایک نشان ان کی کہنی اورکلائی کے درمیان والے حصے پر ہے،گولی کا دوسرازخم چھاتی کے بائیں طرف ہے، یہاں لگنے والی گولی ان کے لیے مہلک ثابت ہوئی۔یہ پوسٹ مارٹم رپورٹ ڈاکٹروں کے 3 رکنی بورڈ نے تیارکی ہے۔گن مین کا سرکاری ریوالور فرانزک معائنے کے لیے لیبارٹری بھجوا دیا گیا ہے ۔آن لائن کے مطابق کچہری واقعے پر حکومت کی ناکامی چھپانے کے لیے وزارت داخلہ کے دبائو پر جاری پولیس بیان میں شہیدو زخمی افرادکی میڈیکل رپورٹ کے اصل حقائق کو بھی نظر اندازکیا گیا ہے ،اس ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ زیادہ تر افرادکو8 سے 10فٹ کے فاصلے سے جبکہ کچھ کوکافی قریب 2فٹ سے نشانہ بنایا گیا ۔ذرائع کے مطابق پولیس کی پھرتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 3 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے سے قبل ہی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جاری کردی گئی۔نمائندہ ایکسپریسکے مطابق پاکستان بارکونسل کی ایگزیکٹوکمیٹی نے ایک قراردادکے ذریعے کچہری واقعے پر وزیر داخلہ چوہدری کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔
ابرار حسن ایڈووکیٹ کی زیر صدارت اجلاس میں متاثرہ خاندانوںکے ساتھ تعزیت کا اظہارکیاگیا ہے۔اجلاس میں ایڈیشنل سیشن جج رفاقت حسین اعوان کی شہادت سے متعلق چوہدری نثارکے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت سے ان سے استعفیٰ لینے کا مطالبہ کیا گیا ۔قرارداد میںکہا گیا کہ حکومت شہریوںکے جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہو چکی ہے، دہشتگرد46 منٹ تک فائرنگ کرتے رہے لیکن وہاں پر پولیس نظر نہیں آئی،حکومت نے ججز اور وکلا کو مناسب سیکیورٹی نہیں دی۔ پاکستان بار نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جاں بحق ہونے والے وکلا کے لیے ایک کروڑ اور زخمیوں کے لیے 10 لاکھ روپے امدادکا اعلان کرے۔ نمائندہ ایکسپریس کے مطابق وزیراعظم اور وزیر داخلہ کی ہدایت پر رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے پمز میں زیر علاج سانحہ ایف8 کچہری کے زخمیوںکی عیادت کی اور75 ہزار روپے فی کس چیک تقسیم کیے۔28 زخمیوں میں سے 14 اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ طارق فضل نے کہا14 زیرعلاج زخمیوں میں چیک تقسیم کر دیے ہیں، ڈسچارج ہونے والوںکے چیک گھروں میں پہنچائے جائیں گے۔انھوں نے کہا کہ سرکاری ڈیوٹی کے دوران شہید ہونے والوںاور سینئر وکلا کے ورثاکو30 لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک امداد فراہم کی جائے گی جبکہ مرنے والے دیگرافرادکے لواحقین کو5 لاکھ روپے فی کس دیے جائیںگے۔