لوگ اپنی اچھائی دِکھانے کے لیے دوسروں کو تکلیف دے سکتے ہیں تحقیق
امریکا میں ہونے والی یہ تحقیق بتاتی ہے کہ برے رویے کی سزا کے لیے عائد کیا جانے والا جرمانہ یا قید شاید مؤثر حربہ نہ ہو
LONDON:
ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ لوگ اپنی اخلاقی درستی کو ثابت کرنے کے لیے اکثر دوسرے افراد کو تکلیف دیتے ہیں ۔
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان ڈیاگو میں قائم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں کی جانے والی اس تحقیق میں عدالتی نظام کے حوالے سے مضمرات موجود ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ برے رویے کی سزا کے لیے جرمانہ یا قید شاید مؤثر حربہ نہ ہو جیسا کہ قانون ساز سمجھتے ہیں۔
تحقیق کے مصنف اور ریڈی اسکول میں اسسٹنٹ پروفیسر نفسیات دان تیج رائے کا کہنا تھا کہ اکثریتی مجرموں کے لیے نقصان کا سبب بننے کی صورت میں مشکلات کا سامنا کرنے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر جنوری 6 کو کیپٹل ہل پر ہونے والے حملے میں ملوث متعدد افراد کا ماننا ہے کہ ان سے انتخابات چُرائے گئے ہیں اور کانگریس کے لوگوں کو سزا دینے کے لیے ان کے پاس اخلاقی جواز موجود ہے۔
رائے کا کہنا تھا کہ کئی لوگوں کو ان کے جرائم کے لیے جسمانی طور پر سزا دی جائے گی۔ جو چیز مبہم ہے وہ یہ کہ آیا ایسا کرنا انہیں دوبارہ ایسی حرکت کرنے سے روکے گا یا نہیں۔
سائکولوجیکل سائنس میں شائع ہونے والی تحقیق میں 1500 شرکاء پر متعدد تجربے کیے گئے۔
تجربے میں شرکاء کو دوسروں کو سزا دینے کی مد میں مالی بونس ادا کیے گئے۔ لہٰذا جب انہیں ایسا کرنے کے لیے پیسے دیے گئے تو اس سے وہ سزا دینے کی جانب کم مائل ہوئے۔
رائے نے کہا مالی حصول شاید ان کے تصور کردہ اخلاقیات سے متصادم تھے۔ لوگ دوسروں کو سزا اس لیے دیتے ہیں تاکہ اپنی اچھائی دِکھا سکیں اور اس معاملے میں مالی ازالہ ممکنہ طور پر انہیں یہ سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے کہ ان کا ایسا کرنا انصاف کے بجائے لالچ پر مبنی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجرمانہ اعمال کو روکنے کے لیے قانون سازوں کو سماجی دباؤ کو بھی قابو کرنا چاہیے۔