ریسکیو مشن میں آسانی کے لیے روبوٹک جگنو تیار
محققین کے مطابق روبوٹ خارج ہونے والی اس روشنی کو ایمرجنسی صورتحال میں مدد مانگنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں
کراچی:
سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایسے چھوٹے روبوٹک جگنو بنائے ہیں جو بمشکل ایک پیپر کلپ سے زیادہ وزن رکھتے ہیں اور جیسے ہی اڑتے ہیں چمکنے لگتے ہیں۔ ان روبوٹک جگنوؤں کو تلاش اور ریسکیو مشنز میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ایم آئی ٹی کے انجینئروں نے چھوٹے برقی روشنی کے ذرّات ان مصنوعی پٹھوں میں لگانے کا ایک نیا راستہ دریافت کیا ہے جس کے بعد یہ دورانِ پرواز رنگین روشنی نکال سکیں گے۔
محققین کے مطابق روبوٹ یہ روشنی ایک دوسرے سے رابطے کے لیے اور ایمرجنسی صورتحال میں مدد مانگنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر ان روبوٹس کو کسی منہدم عمارت میں ریسکیو مشن پر بھیجا جائے اور کسی روبوٹ کو پھنسے ہوئے لوگ ملیں تو وہ روشنی کو استعمال کرتے ہوئے دیگر کو اشارہ دے کر مدد کے لیے پکار سکتا ہے۔
گزشتہ سال کے آخر میں ایم آئی ٹی کے محققین نے ایلاسٹومیٹر اور کاربن نینو ٹیوب الیکٹروڈ کی متبادل جہتوں کو ترتیب دے کر روبوٹک کیڑوں کے لیے مصنوعی پٹھے بنانے کا راستہ دریافت کیا تھا اور ان سطحوں کو لپیٹ کر نرم سلینڈر میں ڈال دیا گیا تھا۔
سلینڈر پر جب وولٹیج کا اطلاق کیا جاتا ہے تو الیکٹروڈ ایلاسٹومیٹر سے جڑ جاتے ہیں اور مکینکی نظام سے پھر روبوٹ کے پر پھڑپھڑاتے ہیں۔
پروں کو روشن کرنے کے لیے محققین نے اب برقی روشنی کرنے والے زِنک سلفیٹ کے ذرّات روبوٹ کے مصنوعی پٹھوں میں لگائے ہیں۔
زنک کے ذرّات جب بہت طاقتور اور ہائی فریکوئنسی کی برقی فیلڈ میں ہوتے ہیں تو یہ روشنی کے سب ایٹامک ذرّات خارج کرتے ہیں جن کو فوٹون کہا جاتا ہے۔
محققین کو معلوم ہوا کہ وہ ان مصنوعی پٹھوں میں طاقتور برقی فیلڈ بنانے کے لیے زیادہ وولٹیج استعمال اور پھر روبوٹ کو اعلیٰ فریکوئنسی پر چلا سکتے ہیں، جو ذرّات کے زیادہ روشنی کے ساتھ چمکنے کا سبب بن سکتا ہے۔
سائنس دانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایسے چھوٹے روبوٹک جگنو بنائے ہیں جو بمشکل ایک پیپر کلپ سے زیادہ وزن رکھتے ہیں اور جیسے ہی اڑتے ہیں چمکنے لگتے ہیں۔ ان روبوٹک جگنوؤں کو تلاش اور ریسکیو مشنز میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ایم آئی ٹی کے انجینئروں نے چھوٹے برقی روشنی کے ذرّات ان مصنوعی پٹھوں میں لگانے کا ایک نیا راستہ دریافت کیا ہے جس کے بعد یہ دورانِ پرواز رنگین روشنی نکال سکیں گے۔
محققین کے مطابق روبوٹ یہ روشنی ایک دوسرے سے رابطے کے لیے اور ایمرجنسی صورتحال میں مدد مانگنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر ان روبوٹس کو کسی منہدم عمارت میں ریسکیو مشن پر بھیجا جائے اور کسی روبوٹ کو پھنسے ہوئے لوگ ملیں تو وہ روشنی کو استعمال کرتے ہوئے دیگر کو اشارہ دے کر مدد کے لیے پکار سکتا ہے۔
گزشتہ سال کے آخر میں ایم آئی ٹی کے محققین نے ایلاسٹومیٹر اور کاربن نینو ٹیوب الیکٹروڈ کی متبادل جہتوں کو ترتیب دے کر روبوٹک کیڑوں کے لیے مصنوعی پٹھے بنانے کا راستہ دریافت کیا تھا اور ان سطحوں کو لپیٹ کر نرم سلینڈر میں ڈال دیا گیا تھا۔
سلینڈر پر جب وولٹیج کا اطلاق کیا جاتا ہے تو الیکٹروڈ ایلاسٹومیٹر سے جڑ جاتے ہیں اور مکینکی نظام سے پھر روبوٹ کے پر پھڑپھڑاتے ہیں۔
پروں کو روشن کرنے کے لیے محققین نے اب برقی روشنی کرنے والے زِنک سلفیٹ کے ذرّات روبوٹ کے مصنوعی پٹھوں میں لگائے ہیں۔
زنک کے ذرّات جب بہت طاقتور اور ہائی فریکوئنسی کی برقی فیلڈ میں ہوتے ہیں تو یہ روشنی کے سب ایٹامک ذرّات خارج کرتے ہیں جن کو فوٹون کہا جاتا ہے۔
محققین کو معلوم ہوا کہ وہ ان مصنوعی پٹھوں میں طاقتور برقی فیلڈ بنانے کے لیے زیادہ وولٹیج استعمال اور پھر روبوٹ کو اعلیٰ فریکوئنسی پر چلا سکتے ہیں، جو ذرّات کے زیادہ روشنی کے ساتھ چمکنے کا سبب بن سکتا ہے۔