شاید عقل کی ٹرین چھوٹ گئی ہے

وہ مرحلہ شروع ہو گیا ہے جہاں اندھی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے کوئی بھی ہتھیار استعمال ہو سکتا ہے

WASHINGTON/MOSCOW:
ریاستی جبر کے ہتھیاروں میں بلڈوزر کے سفاکانہ استعمال کا موجد اسرائیل ہے۔جس نے اس مشین کو فلسطینی املاک مٹانے کے لیے کمال جانفشانی سے استعمال کیا۔مگر اب لگتا ہے بھارت اس معاملے میں اسرائیل کا بھی مرشد ہو گیا ہے۔اس بابت ارودن دھتی رائے کا ایک فکر انگیز مضمون نگاہ سے گذرا۔اب یہ مت پوچھ لیجیِے گا کہ کون ارون دھتی رائے؟

'' پچھلے چند ماہ سے حکمران بی جے پی کی زیرِ اختیار ریاستوں میں اس نئے چلن نے زور پکڑ لیا ہے کہ جن مسلمانوں پر سرکار مخالف مظاہروں میں شرکت کا شبہ ہو ان کے گھروں ، دکانوں اور کاروبار پر بلڈوزر چلا دیا جائے۔ ریاستی وزرائے اعلیٰ ان حرکتوں پر شرمسار ہونے کے بجائے سینہ ٹھونک کے انتخابی اور سیاسی جلسوں میں اسے قابلِ فخر کارنامے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔

یہ رجحان اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ اب وہ مرحلہ شروع ہو گیا ہے جہاں اندھی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے کوئی بھی ہتھیار استعمال ہو سکتا ہے تاکہ ایک لولی لنگڑی جمہوریت کو کھلم کھلا ایک مجرمانہ ذہنیت والی فسطائیت میں بدلنے کی راہ میں ایک بھی رکاوٹ نہ رہے۔اب ہم پر ہندو سادھوؤں کا روپ دھار کے غنڈے راج کریں گے اور بطور ہدف مسلمان تو دشمن نمبر ایک ہیں ہی۔

ماضی میں مسلم طبقات منصوبہ بند قتلِ عام، اجتماعی تشدد کے نتیجے میں موت ، ٹارگٹ کلنگ ، زیرِ حراست ہلاکت ، جعلی پولیس مقابلوں اور جھوٹے مقدمات میں قید و بند کا نشانہ بنائے جاتے رہے۔ اب ان ہتھکنڈوں کی فہرست میں گھروں اور کاروبار کی بلڈوزنگ بھی شامل ہو گئی ہے۔ جس طرح زرایع ابلاغ میں اس نئے ہتھیار کی افادیت پر گفتگو ہو رہی ہے یا لکھا جا رہا ہے۔ اس سے یہ تصویر ابھر رہی ہے کہ بلڈوزر دراصل آسمانی قہر کا نام ہے۔بلڈوزر کے بڑے بڑے فولادی بلیڈوں اور آہنی پنجوں کو دشمنوں کو گھائل کرنے کی ان دیومالائی داستانوں سے جوڑا جا رہا ہے جن میں دیوتا راکھشسوں کو بے دردی سے کچل دیتے ہیں۔ بلڈوزر نئی ابھرتی جوشیلی ہندوتوائی نسل کے لیے روایتی ترشول کا جدید طاقت ور استعارہ بنایا جا رہا ہے۔

چند ہفتے پہلے جب برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن بھارت کے دورے پر آئے تو انھوں نے مودی کی جنم بھومی ریاست گجرات میں برطانوی مدد سے قائم بلڈوزر ساز فیکٹری میں ایک بلڈوزر پر بیٹھ کر خوشی خوشی تصویر کھنچوائی جو خاصی وائرل ہوئی۔میرے لیے یہ سوچنا بھی محال ہے کہ دنیا بھر کے معاملات سے آگاہ بورس جانسن اتنے معصوم ہیں کہ انھیں یہ تک اندازہ نہ ہوا ہو کہ اس وقت بھارت میں بلڈوزر کس پالیسی کا استعارہ ہے اور ان کی یہ تصویر بھارت کے اندر اور باہر کیا پیغام دے گی۔ویسے بھی کوئی سربراہِ مملکت و حکومت اپنے باضابطہ سرکاری دورے میں کیوں خامخواہ کسی بلڈوزر کے ساتھ تصویر کھچنوائے گا جب کہ اس تصویر سے کوئی خاص پیغام یا اشارہ دینا مقصود نہ ہو۔

ریاستی حکومتیں اس بلڈوزر پالیسی کے دفاع میں یہ کہتی ہیں کہ یہ کام وہ نہیں کر رہے بلکہ مقامی بلدیات تجاوزات ڈھانے کے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے بلڈوزر استعمال کر رہی ہیں اور اس کام میں ہندو مسلم کا فرق نہیں کیا جاتا۔قانون سب کے لیے برابر ہے۔یہ دلیل دینے کا مقصد معذرت خواہی یا قانون کی مساوی بالادستی کا تصور اجاگر کرنا نہیں بلکہ متاثرہ طبقات کو یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ اس بارے میں کسی خوش فہمی میں نہ رہیں کہ بلڈوزنگ کا عمل کسی نہ کسی مرحلے پر روک دیا جائے گا۔بھلا سرکاری بابوؤں سے بہتر کون جانتا ہے کہ بیشتر ملک میں زیادہ تر تعمیرات یا غیر قانونی ہیں یا نیم قانونی یا پھر مشکوک۔

ضابطہ کہتا ہے کہ غیرقانونی تعمیر ختم کرنے سے پہلے مکین یا مالک کو قانونی نوٹس دیا جاتا ہے ، اسے اپیل کا حق دیا جاتا ہے اور تمام ضروری قانونی راستے بند ہونے کے بعد ہی انہدام کا مرحلہ آتا ہے۔مگر عملاً یہ ہو رہا ہے کہ جن جن مسلمانوں کی کاروباری و رہائشی املاک کو گرایا گیا ہے۔انھیں اس انتہائی قدم سے پہلے قانونی نوٹس تو کجا زبانی انتباہ بھی نہیں کیا گیا اور بلڈوزروں نے اچانک کسی تحریری عدالتی اجازت نامے ، وارنٹ یا ضروری قانونی شنوائی اور اپیل مسترد ہونے کا انتظار کیے بغیر ہی کچھ دیر میں ان عمارتوں کو تالیاں بجاتے ، نعرے لگاتے، ناچتے ہجوم کے سامنے ملبے کے ڈھیر میں بدل ڈالا۔

دورِ بلڈوزری سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر ہجوم مسلمان آبادیوں کو نشانہ بنا رہا ہے تو پولیس نے دوسری طرف منہ پھیر لیا۔مگر بلڈوزنگ کے عمل میں بلدیاتی عملہ یہ کارروائی پولیس کے پہرے میں مکمل کرتا ہے اور میڈیا کے کیمرے اس جگہ پہلے سے موجود ہوتے ہیں اور جوش و خروش کے ساتھ اس کارنامے کی براہ راست رپورٹنگ کرتے ہیں۔ مذمت اور تنقید شام کو کسی اکادکا چینل کے کسی پروگرام میں ہوتی ہے اور وہ بھی خانہ پری کے لیے۔


متاثرہ فریق اگر عدالت سے رجوع کرے تو اسے سماعت کی لمبی تاریخ دے دی جاتی ہے۔یعنی مسلمان برادری کو واضح پیغام دیا جا رہا ہے کہ آپ اب ہر طرف سے تنہا ہو ، کوئی مدد نہیں آئے گی ، کوئی شنوائی نہیں ہو گی۔دورِ جمہوریت میں جو ادارے زیادتیوں کا قانونی نوٹس لے کر ازالے یا اشک شوئی کی کوشش کرتے تھے وہ سب ادارے اب ریاست کے ہاتھوں مذاق بن چکے ہیں۔

سولہ جون کو فوج میں بھرتی کی نئی سرکاری پالیسی کے خلاف پورے شمالی بھارت میں ہزاروں نوجوانوں نے بھرپور پرتشدد احتجاج کرتے ہوئے سرکاری املاک کو اچھا خاصا نقصان پہنچایا۔ریل کے ڈبے جلے ، شاہراہیں بند کر دی گئیں اور ایک جگہ تو بے جے پی کا مقامی دفتر بھی جلا دیا گیا۔ چونکہ ہنگامہ کرنے والوں کی اکثریت غیر مسلم تھی لہٰذا ان کے گھر ، کاروبار اور خاندان کسی بھی تادیبی کاروائی یا بلڈوزنگ سے محفوظ ہیں۔

دو ہزار چودہ اور دو ہزار انیس کے اتنخابات میں بی جے پی نے اپنی کامیابی سے عملاً ثابت کر دیا کہ اسے بیس کروڑ مسلمانوں میں سے کسی ایک کے بھی ووٹ کی ضرورت نہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ جب کسی کمیونٹی کا ووٹ ہی بے وقعت ہو جائے تو پھر اسے آسانی سے ہر طرح کی زیادتی کی سان پر چڑھایا جا سکتا ہے۔ ان کے حق میں بولنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔کیونکہ ان کی سیاسی طاقت کی کسی کو ضرورت ہی نہیں رہتی۔

حال ہی میں توہینِ مذہب کے پس منظر میں مسلمانوں نے جو احتجاجی مظاہرے کیے۔ان میں اسد الدین اویسی کی جماعت آل انڈیا مجلسِ اتحاد المسلمین کے کچھ جوشیلے رہنماؤں نے گستاخی کے مرتکب بی جے پی کے رہنماؤں کو سرِ عام پھانسی دینے اور سر تن سے جدا کرنے کی بات کی۔اس طرح کے مطالبات اور دھمکیوں سے ہندوتوا تنظیموں کی چاندی ہو گئی۔میڈیا نے بار بار وہ تقریری ٹکڑے دکھائے اور پھر اس بیانیے کو ایک نئی زندگی مل گئی کہ یہ ہے مسلمانوں کا اصلی اور بھیانک چہرہ۔وہ سر اور گردن الگ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔اس کے بعد مسلمانوں کو بھیانک انجام تک پہنچانے کی دھمکیوں کا جوابی سلسلہ عروج پر پہنچ گیا۔

بی جے پی کے جن دو رہنماؤں کو مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی پاداش میں پارٹی سے معطل کر دیا گیا تھا انھیں والہانہ مجمع نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور اب ان کا سیاسی مستقبل پہلے سے زیادہ روشن ہے۔

آج کے بھارت میں وہ تمام انتظامی و سیاسی ادارے جو برسوں کی محنت کے بعد کھڑے کیے گئے تھے ان پر گیروا رنگ پھر گیا ہے۔چار سو سے زائد نیوز چینلوں ، بے شمار ویب سائٹس اور بیسیوں سوشل میڈیا بریگیڈّ ز کی مدد سے وہ نسل لگ بھگ تیار ہو چکی ہے جسے اس ملک کے ماضی ، حال اور مل جل کے رہنے اور درگزر کی روایات سے باکل الگ تھلگ کر کے ایک انسانی ہتھیار میں بدلا جا رہا ہے۔

اب ایسے شدت پسند گروہ تیزی سے ابھر رہے ہیں جن کے سامنے بے جی پی بھی ایک معقول اور اعتدال پسند جماعت محسوس ہوتی ہے۔ جو مٹھی بھر لوگ اس انتہا پسندی کے حلاف اب تک سینہ سپر ہیں انھیں غداروں اور دہشت گردوں کے کھاتے میں لکھ دیا گیا ہے۔شاید وقت نکل چکا ہے۔شاید عقل کی ٹرین بھارت سے چھوٹ گئی ہے ۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)
Load Next Story