ریاست بمقابلہ سیاست

جب تک ہم محض مصنوعی انداز سے مرض کا علاج کرتے رہیں گے کچھ حاصل نہیں ہوگا

salmanabidpk@gmail.com

قومی سیاست جب بھی کسی بڑے بحران یا بندگلی میں داخل ہوتی ہے تو ایک سیاسی طبقہ یا اہل دانش کا گروہ اس نقطہ پر زور دیتا ہے کہ ہمیں سیاست کے مقابلے میں ریاست کو بچانا ہوگا۔

ان کے بقول ہمارا بڑا سنگین مسئلہ سیاست نہیں بلکہ ریاست کا بحران ہے جو ہمیں بڑی مشکل میں ڈال رہا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی حالیہ بحران پر اسی نقطہ پر زور دیا ہے کہ ہمیں سیاست کے مقابلے میں ریاست کو بچانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔

یہ بات درست ہے کہ ریاست کے مجموعی ڈھانچے یا ریاستی فریم ورک میں رہ کر ہی ہم سیاست کے خدوخال کو وضع کرتے ہیں ۔سیاست کا مقصد ہی ریاستی اداروں کا تحفظ ، ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدے کی تکمیل اور آئین و قانون میں دیے گئے انسانی بنیادی حقوق کی ضمانت کو یقینی بنانا ہے ۔کیونکہ یہ ہی عمل ریاستی سطح پر شہریوں اور ریاست کے درمیان باہمی تعلق کو مضبوط بھی بناتا ہے اور ریاستی ساکھ کو قائم کرتا ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ پہلے ریاست کو بچایا جائے یا سیاست کو مگر اس سے بڑھ کو مقدمہ زیر غور آنا چاہیے کہ ہم کیسے اپنے ریاستی نظام کو بچا کر سیاست کے طور طریقوں کو جمہوری اور آئینی تقاضوں کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ یقیناً اس کے لیے بنیادی شرط ریاست یا سیاست سے جڑے تمام فریقین کے سامنے آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے سے جڑی ہوتی ہے ۔ کیونکہ آئین اور قانون پر مکمل عملدرآمد سے ہی ہم ایک مہذب اور ذمے دار ریاست اور ایک اچھی حکمرانی پر مبنی حکومت کے تصور کو قائم کرسکتے ہیں ۔

جب یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہمیں سیاست کے مقابلے میں ریاست کو بچانا ہے تو مسئلہ زیادہ سنجیدگی کا مظہر نظر آتا ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے اہل سیاست سمیت دیگر طبقات کا مجموعی رویہ ریاست یا سیاست کو مضبوط کرنے کے بجائے اپنے ذاتی یا جماعتی مفادات کو ترجیح تو نہیں دے رہا ۔ ذاتیات پر مبنی مفادات میں ریاست اور حکمرانی کے مفادات پر سودا کرنا ریاستی نظام کو مضبوط نہیں بنا سکتا ہے ۔

جو یہاں سیاست اور جمہوریت کے نام پر کھیل کھیلا جارہا ہے وہ قانونی، آئینی ، سیاسی ، جمہوری اور اخلاقی تقاضوں کو پورا کرتا ہے تو جواب نفی میں ملتا ہے ۔ اگر واقعی ہم نے ریاست کو بچانا ہے تو اسے دنیا کے لیے ایک ذمے دار ریاست کے طور پر پیش کرنا ہے اور ہمیں اپنے موجودہ رویو ں کا تجزیہ بھی کرنا ہوگا اور جوابدہی یا خود احتسابی کو یقینی بنا کر نظرثانی کے عمل سے بھی گزرنا ہوگا ۔


یہاں جمہوری پاسداری کا درس تو دیا جاتا ہے لیکن کوئی بھی خود کو اس عمل میں شامل کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ سب فریقین یا ادارے اپنے اپنے مجوزہ دائرہ کار میں کام کرنے کے بجائے دوسروں کے دائرہ کار میں نہ صرف ٹانگ اڑاتے ہیں بلکہ نظام کو اور زیادہ خراب کرنے کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔اگر واقعی ہمیں ریاست کو بچانا ہے تو اس کے لیے ہمیں آئین اور قانون کو تقدس دینے سمیت جوابدہی ، نگرانی اور شفافیت کے عمل کی پذیرائی ، عام آدمی کے مفادات کا تحفظ، افراد کے مقابلے میں اداروں کی بالادستی ، وسائل کی منصفانہ تقسیم اور انصاف کی فراہمی سمیت سیاست کو حقیقی جمہوری خطوط پر استوار کرنا ہے ۔لیکن ہماری سیاست کا بڑا المیہ یہ ہے کہ اس میں سب کچھ ہے مگر جمہوریت اور قانون کی پاسداری سمیت عام آدمی کے لیے کچھ نہیں ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستانی سیاست اور عام آدمی کے مفادات میں ایک واضح خلیج ہے ۔

اگر واقعی ہم نے ریاست اور سیاست دونوں کو بچانا ہے تو ہمیں فیصلہ سازوں کی سطح پر ایک ایسے فریم ورک پر متفق ہونا ہوگا جو دونوں سیاست اور ریاست کو اپنے اپنے دائرہ کار میں لانے میں معاون ثابت ہو۔ اسی طرح جو موجودہ ریاستی یا حکمران طبقات کا نظام ہے اس میں غیر معمولی تبدیلیاں لانا ہوگی اور ان تبدیلیوں میں ریاستی و حکومتی یا حکمرانی کے نظام کو روایتی طور طریقوں کے مقابلے میں ایسی کڑوی گولیاں کھانی ہوں گی جو درست علاج میں معاون ثابت ہو۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہمیں ریاستی و سیاسی محاذ پر موجود مرض کی درست تشخیص کرنی ہوگی ۔

جب تک ہم محض مصنوعی انداز سے مرض کا علاج کرتے رہیں گے کچھ حاصل نہیں ہوگا اس کے لیے پالیسی سازی ، قانون سازی ، عملدرآمد کے موثر نظام سمیت ایک بڑے متفقہ ریاستی ایجنڈے پر متفق ہونا ہوگا۔ اس وقت جو ملک میں ٹکراؤ اور ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کی سیاست چل رہی ہے اس میں کوئی کسی کا بھلا نہیں کرسکتا۔

ہم ریاست اور سیاست کے درمیان فریقین پر الزامات کی سیاست میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ ایک الزام اسٹیبلیشمنٹ پر بھی ہے اس نے سیاست پر کنٹرول کیا ہوا ہے ۔ یہ الزام اپنے اندر وزن بھی رکھتا ہے اور اس میں یقینا بڑا کام کرنا ہوگا اور بغیر کسی سیاسی عمل یا جدوجہد کے سیاست کو آزاد نہیں کیا جاسکے گا۔

جب اہل سیاست کو موقع ملتا ہے اور بہت سے امور پر اختیارات و وسائل بھی ہوتے ہیں تو ان کا اپنا طرز عمل سیاست یا ریاست کو بچانے کے بجائے تمام معاملات کو اپنے تابع کرنا ہوتا ہے ۔ عدم اصلاحات پر مبنی پالیسی نے ہی ملک کو بڑے حکمرانی کے بحران سے دوچار کیا ہوا ہے۔ یہ بنیادی تلخ حقیقت ماننا ہوگی کہ عام آدمی اور ریاست میں ایک بڑی خلیج حقوق کے تناظر میں پیدا ہو رہی ہے اور اس کے خاتمہ میں ریاست اور حکومت کے باہمی تعلق سے غیر معمولی اقدامات ہر سطح پر ناگزیر ہوگئے ہیں ۔

بنیادی طور پر اگر ہم نے ریاست کو مضبوط بنانا ہے تو یہ کام کسی سیاسی چٹکی سے نہیں ہونا اور نہ ہی کسی پٹاری میں کوئی سانپ نکال کر ہم جن کو بوتل میں بند کرسکتے ہیں۔ اس کے لیے سیاست ، جمہوریت ، انتظامی و قانونی امور اور معیشت سمیت انصاف کے نظام کو ہی درست انداز میں بدلنا اور چلانا ہوگا۔ جب یہ تمام امور درست انداز میںچل رہے ہونگے تو اس کا عملی نتیجہ ریاست کی مضبوطی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

ہمیں بلاوجہ کی سیاسی مہم جوئی یا سیاسی ایڈونچرز کرنے کے بجائے سیاسی، معاشی، انتظامی اور قانونی نظام کو درست سمت دینی ہوگی اور ایک ایسی لانگ ٹرم ، مڈٹرم اور شارٹ ٹرم منصوبہ بندی یا روڈ میپ کو سامنے لاکر قومی اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا۔ بالخصوص معیشت، سیکیورٹی اور عام آدمی کے مفادات پر سیاست کرنے یا سیاسی سمجھوتے کرنے کی پالیسی کو ترک کرکے ہی ہم کچھ بنیادی اصولوں پر متفق ہوسکتے ہیں کہ ریاست و سیاست کا دائرہ کار کیسے چلے گا ۔یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں۔ یہ کام ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ و سیاسی مضبوط قیادت کی موجودگی اور اس میں تبدیلی کے فریقین کی شمولیت ہی مسائل کے حل میں معاون ثابت ہوسکتی ہے ۔
Load Next Story