پاکستان کو حقیقی فلمیں چاہئیں اور اداکاری میری دوا ہے نصیر الدین شاہ

مستقبل میں بھی پاکستان آکر کام کرناچاہوں گا مگر کام کرنے کی بنیادی شرط اچھا اسکرپٹ ہے، بھارتی لیجنڈ اداکار

کراچی والے بلا کے جملہ شناس ہیں، نصیرالدین شاہ ۔ فوٹو: ایکسپریس

بالی ووڈ کے سینئر اداکارنصیرالدین شاہ نے کہاہے کہ میں نے آج تک جتنے بھی کردار نبھائے ہیں،ان سب میں کہیں نہ کہیں میرے خیالات کے وجود کا حصہ بھی شامل ہے، کیونکہ میں بچپن میں اپنی ذات سے بہت غیر مطمئن تھا ، مجھے اس درد کی دوا اداکاری کے شعبے میں ہی ملی۔

میں جب بھی پاکستان آتاہوں ،مجھے پہلے سے زیادہ لطف آتاہے۔میں مستقبل میں بھی یہاں آکر کام کرناچاہوں گا،مگر کام کرنے کی بنیادی شرط اچھا اسکرپٹ ہے۔پاکستان کو حقیقی فلموں کی بے حد ضرورت ہے،یہی وجہ تھی کہ میں نے فلم''زندہ بھاگ''میں کام کیا۔ہمارے پاس اسٹوریزکاہمیشہ سے بہت فقدان رہا ہے۔ انڈین فلمیں دنیا بھرمیں قائم انڈین ڈھابوں کی وجہ سے دیکھی جارہی ہیں ورنہ بھارتی فلم انڈسٹری نے کوئی قابل ذکرکام نہیں کیا۔ میں سمجھتاہوں کہ دنیا میں سب سے آسان کام عوام کوبے وقوف بنانا ہے اوربھارتی فلم ڈائریکٹرز اس فریضے کواحسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے روزنامہ ایکسپریس کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا، نصیر الدین شاہ نے پہلی بار کسی پاکستانی اخبار کو انٹرویو دیا ہے اور یہ اعزاز ایکسپریس کو حاصل ہوا۔


نصیر الدین شاہ نے نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ (ناپا ) کے تھیٹر فیسٹیول کوپاکستان میں خوش آئندقدم قراردیتے ہوئے کہا کہ جوکام پاکستان میں آج شروع ہواہے اسے بہت پہلے ہوناچاہیے تھا کیونکہ میں نے ممبئی، لکھنو، اور لاہورسمیت دنیاکے کئی مقامات پرتھیٹر پرفارم کیامگرمیں نے کراچی جیسے عوام نہیں دیکھے، یہاں لوگوںنے ہرجملے کوسمجھااورفنکاروں کوداددی، کراچی والے غضب کے جملہ شناس ہیں۔ایک سوال کے جواب میں نصیرالدین شاہ نے کہا کہ نہ جانے کیوں میں نے شروع سے ہی بھارتی فلموں میں اتنی دلچسپی نہیں لی۔بھارتی فلمیں بہت کم دیکھتاتھا حتیٰ کہ وہ فلمیں بھی جن میں میں نے کام کیا ہو۔تھیٹر کے شعبے میں اداکاری کرنے کی بدولت مجھ میں اعتماد پیدا ہوااورمیری حقیقی معنوں میں تربیت ہوئی۔گفتگو کے دوران انھوں نے انتہائی صاف گوئی سے جواب دیتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیاکہ اداکاری کی لگن تو فنکار کو لگی ہوئی ہوتی ہے،اس کے بارے میں وہ کسی کو کچھ بھی نہ بتائے ،لیکن وہ پھر بھی نظر آتی ہے۔میں نے جب ''غالب''ڈرامے میں کام کیا ،تو مجھے مرزا غالب کا ایک شعر بھی ڈھنگ سے یاد نہ تھا،لیکن گلزار بھائی نے مرزا غالب کو مجھ پر منکشف کیا۔

میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتاہوں کہ مجھے ''غالب''جیسے ڈرامے میں کام کرنے کا موقع ملا۔ نصیر الدین شاہ کا کہنا تھا کہ انڈین فنکاروں میں دلیپ کمارنے کچھ فلموں میں معیاری کام کیاہے یاامیتابھ بچن کی کوئی ڈھونڈنے سے ایک دوفلمیں مل جائینگی ورنہ میں سمجھتاہوں کہ بھارتی فلم انڈسٹری کا قابل ذکرکوئی ایساکام نظرنہیں آتاجس پرفخرسے گفتگوکی جائے۔پاکستان میں آیندہ آنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کاجواب دیتے ہوئے نصیر الدین شاہ نے کہا کہ میری خواہش ہے کہجب100 برس بعد کوئی فلمی مورخ آج کے پاکستان کے بارے میں جاننا چاہے گا تو اسے ''اچھا گجر''نامی قسم کی بجائے''زندہ بھاگ''جیسی فلم ملنے چاہیے،جو موجودہ پاکستان کے حالات کی عکاسی کرتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں نصیرالدین شاہ کاکہناتھاکہ آج لوگ ایوارڈزکے ملنے سے فنکاروں کے قدکااندازہ لگاتے ہیں جبکہ ہرمنجن اورپان پراگ بیچنے والے نے ایوارڈکمپنی کھول لی ہے ۔میں اس پریقین نہیں رکھتا اورنہ ہی ایوارڈلینے جاتاہوں۔
Load Next Story