عرب امارات نے پاکستانی سرکاری کمپنیوں کے حصص خریدنے کی پیشکش کردی
دونوں فریق آزادانہ مالیاتی مشیروں کے ذریعے قیمتوں کا حتمی تعین کریں گے، ذرائع
ISLAMABAD:
متحدہ عرب امارات نے عوامی سطح پر درج سرکاری کمپنیوں میں اقلیتی حصص مذاکراتی قیمت پر خریدنے اور ان میں سے ہر ایک فرم کے بورڈ میں ایک نشست کی پیشکش کی ہے۔
پاکستان کی طرف سے اربوں ڈالر کے تازہ قرضوں کی درخواست کے جواب میں متحدہ عرب امارات نے عوامی سطح پر درج سرکاری کمپنیوں میں اقلیتی حصص مذاکراتی قیمت پر خریدنے اور ان میں سے ہر ایک فرم کے بورڈ میں ایک نشست کی پیشکش کی ہے، یہ قبول ہونے پر کیش کی کمی سے دوچار حکومت کو بڑا فروغ مل سکتا ہے اور اسلام آباد اور ابوظبی کے درمیان روایتی قرض دہندہ تعلقات سے علیحدگی کا نشان بنے گا جو متحدہ عرب امارات کا دارالحکومت اور اس کی دولت کا ذریعہ ہے۔
یہ پیش رفت چین کی طرف سے پاکستان کیلیے 2 ارب ڈالر قرض کے تسلسل کا فیصلہ ہے جو 27جون سے 23جولائی تک پختہ ہو کر گزشتہ ہفتے 2.3 ارب ڈالر کی منتقلی کے بعد سکھ کاسانس ہوگا۔
اعلیٰ ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا متحدہ عرب امارات کی حکومت نے سرکاری ملکیتی کمپنیوں میں 10% سے 12% حصص حاصل کرنے کی پیشکش کی ہے جواسٹاک مارکیٹ میں اس کے خودمختار دولت کے فنڈز کے ذریعے درج ہیں۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ایک دوست ملک کی طرف سے پاکستانی کمپنیوں کے جوابی حصص خریدنے کی تجویز سامنے آئی ہے ، جس کا مطلب محفوظ قرض پر مبنی سیکیورٹیز خریدنا ہے۔
ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات نے حصص کے حصول کیلیے صاف پیشکش کی لیکن حکومت ایسے کسی بھی معاہدے میں ایک شق شامل کرنا چاہتی ہے جہاں اسے خاص مدت کے بعد ان حصص کو واپس خریدنے کا حق حاصل ہو گا۔متحدہ عرب امارات نے اس سال اپریل میں مصری حکومت کی مالی امداد کی طرز پر پیشکش کی تھی جب اس نے سرکاری کمپنیوں میں 2ارب ڈالرکے حصص خریدے تھے۔
متحدہ عرب امارات نے دبئی میں قائم خودمختار ویلتھ فنڈ ابوظہبی ڈویلپمنٹ ہولڈنگ کے ذریعے مصری کمپنیوں میں حصص حاصل کئے تھے۔ یہ پیشکش وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے اپریل میں یو اے ای کے دورے کے دوران کئی ارب ڈالر کی مالی امداد کی درخواست کے جواب میں سامنے آئی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے وزیر اعظم کی درخواست کے جواب میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان وفد بھیجا تھا جس نے مئی کے پہلے ہفتے میں لاہور میں شہباز شریف سے ملاقات کی تھی تاہم ،مصر کے برعکس جہاں متحدہ عرب امارات کا خودمختار ویلتھ فنڈ ایک ماہ سے کم عرصے میں 2 ارب ڈالرکا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوا تھا،پاکستانی حکام اس طرح کے مذاکراتی لین دین کی قانونی حیثیت کے متعلق ابہام کی وجہ سے ٹھوس جواب نہیں دے سکے۔
پاکستان کی طرح مصر کی معیشت بھی طویل عرصے سے مشکلات کا شکار ہے اور وقتاً فوقتاً عالمی مالیاتی فنڈ اور دوست پڑوسی ممالک کی مالی امداد میں توسیع کی بدولت زندہ ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے اور فنڈ کے ساتھ عملے کی سطح کے معاہدے تک پہنچنے سے پہلے اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کیلئے مسودہ یادداشت (MEFP) دستاویز کے موصول ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
آئی ایم ایف اور بہت سے دوست ممالک کی امداد کے باوجودپاکستان اور مصر اپنی معیشت مکمل طور پر موڑ نہیں سکے اور بیرونی شدید جھٹکوں کا شکار رہے۔ذرائع نے بتایا فروری 2019ء میں پاکستان کی جانب سے 2 ارب ڈالر کا قرضہ واپس نہ کرنے کے بعد متحدہ عرب امارات اس بار اسلام آباد کو 2 ارب ڈالر کا ایک اور چیک دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔
متحدہ عرب امارات کے خودمختار فنڈز - ابوظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی (ADIA) اور مبادلہ انویسٹمنٹ کمپنی یا ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی (ADNOC) پاکستان میں جگہ بنا سکتے ہیں۔پاکستان میں ان کی دلچسپی سے قریباً 20 سرکاری کمپنیوں کے حصص چڑھ سکتے ہیں ،جن میں فوج کی تجارتی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق فوجی فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر نے بھی حال ہی میں ان اجلاسوں میں شرکت کی تھی۔ متحدہ عرب امارات کے سرفہرست پانچ سعودی خودمختار فنڈز ابوظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی (ADIA)، انویسٹمنٹ کارپوریشن آف دبئی (ICD)، مبادلہ انویسٹمنٹ کمپنی، ابوظہبی ڈویلپمنٹ ہولڈنگ کمپنی اور ایمریٹس انویسٹمنٹ اتھارٹی (EIA) سرفہرست 100 میں سے سرفہرست 20 میں شامل ہیں۔
ڈیڑھ درجن سرکاری کمپنیاںسٹاک ایکسچینج میں درج ہیں ۔ان میں سب سے بڑی آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ ہے جس میں حکومت کے 67 فیصد حصص ہیں۔ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (68% جی اوپی حصص)، سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (53%)، پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی لمیٹڈ (22%)، سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ 32% اور ماری پیٹرولیم لمیٹڈ جبکہ فوجی فرٹیلائزر کمپنی لمیٹڈ، فوجی سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ اور فوج کی ملکیت والی دیگر کمپنیاں۔
دیگر کمپنیوں میں پاکستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کارپوریشن، نیشنل بینک آف پاکستان اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا پاکستان ان منافع بخش کمپنیوں کے 10 فیصد حصص فروخت کرکے 1 ارب سے 1.3 ارب ڈالر کی فوری سرمایہ کاری حاصل کر سکتاہے لیکن بیوروکریسی یہ لین دین آگے بڑھانے میں ہچکچارہی ہے جس سے سارے عمل میں تاخیر کے باعث اور متحدہ عرب امارات کی حکومت مشتعل ہورہی ہے۔
نجکاری کمیشن دستاویزات کے مطابق کے نجکاری کمیشن آرڈیننس 2000میں بات چیت اور غیر مسابقتی فروخت کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ دستاویزات میں مزید کہا گیا ہے پی سی کے قواعد و ضوابط نجکاری کا شفاف اور مسابقتی عمل شروع کرنے کیلئے مزید تحفظات فراہم کرتے ہیں۔
آرڈیننس اور ریگولیٹری فریم ورک نجکاری کمیشن کے دائرہ کار سے بات چیت کے ذریعے فروخت کرتا ہے جو مسابقتی اور شفافیت کے عمل کا نتیجہ نہیں ہے۔ کمیشن نے نئی قانون سازی کے بغیرفہرست میں شامل ادارہ جاتی سرمایہ کاروں اورسرکاری کمپنیوں کے حصص کی بلاک تجارت کیلئے مسابقتی لین دین کی سفارش کی تھی۔
ذرائع کے مطابق یو اے ای بولی میں حصہ لینے میں دلچسپی نہیں رکھتا ، اس نے پاکستان کو پیشکش کی ہے کہ دونوں فریقین آزادانہ طور پر مالیاتی مشیر مقرر کریں جو اپنی قیمتوں کا تعین کریں اور ان کی رائے کی بنیاد پر حتمی قیمت کا فیصلہ کیا جائے۔معاملے کا حل تلاش کرنے کیلئے وفاقی کابینہ میں یہ جلد زیربحث آسکتا ہے کیونکہ پاکستان کے پاس فیصلے کیلئے وقت تھوڑا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے عوامی سطح پر درج سرکاری کمپنیوں میں اقلیتی حصص مذاکراتی قیمت پر خریدنے اور ان میں سے ہر ایک فرم کے بورڈ میں ایک نشست کی پیشکش کی ہے۔
پاکستان کی طرف سے اربوں ڈالر کے تازہ قرضوں کی درخواست کے جواب میں متحدہ عرب امارات نے عوامی سطح پر درج سرکاری کمپنیوں میں اقلیتی حصص مذاکراتی قیمت پر خریدنے اور ان میں سے ہر ایک فرم کے بورڈ میں ایک نشست کی پیشکش کی ہے، یہ قبول ہونے پر کیش کی کمی سے دوچار حکومت کو بڑا فروغ مل سکتا ہے اور اسلام آباد اور ابوظبی کے درمیان روایتی قرض دہندہ تعلقات سے علیحدگی کا نشان بنے گا جو متحدہ عرب امارات کا دارالحکومت اور اس کی دولت کا ذریعہ ہے۔
یہ پیش رفت چین کی طرف سے پاکستان کیلیے 2 ارب ڈالر قرض کے تسلسل کا فیصلہ ہے جو 27جون سے 23جولائی تک پختہ ہو کر گزشتہ ہفتے 2.3 ارب ڈالر کی منتقلی کے بعد سکھ کاسانس ہوگا۔
اعلیٰ ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا متحدہ عرب امارات کی حکومت نے سرکاری ملکیتی کمپنیوں میں 10% سے 12% حصص حاصل کرنے کی پیشکش کی ہے جواسٹاک مارکیٹ میں اس کے خودمختار دولت کے فنڈز کے ذریعے درج ہیں۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ ایک دوست ملک کی طرف سے پاکستانی کمپنیوں کے جوابی حصص خریدنے کی تجویز سامنے آئی ہے ، جس کا مطلب محفوظ قرض پر مبنی سیکیورٹیز خریدنا ہے۔
ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات نے حصص کے حصول کیلیے صاف پیشکش کی لیکن حکومت ایسے کسی بھی معاہدے میں ایک شق شامل کرنا چاہتی ہے جہاں اسے خاص مدت کے بعد ان حصص کو واپس خریدنے کا حق حاصل ہو گا۔متحدہ عرب امارات نے اس سال اپریل میں مصری حکومت کی مالی امداد کی طرز پر پیشکش کی تھی جب اس نے سرکاری کمپنیوں میں 2ارب ڈالرکے حصص خریدے تھے۔
متحدہ عرب امارات نے دبئی میں قائم خودمختار ویلتھ فنڈ ابوظہبی ڈویلپمنٹ ہولڈنگ کے ذریعے مصری کمپنیوں میں حصص حاصل کئے تھے۔ یہ پیشکش وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے اپریل میں یو اے ای کے دورے کے دوران کئی ارب ڈالر کی مالی امداد کی درخواست کے جواب میں سامنے آئی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے وزیر اعظم کی درخواست کے جواب میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان وفد بھیجا تھا جس نے مئی کے پہلے ہفتے میں لاہور میں شہباز شریف سے ملاقات کی تھی تاہم ،مصر کے برعکس جہاں متحدہ عرب امارات کا خودمختار ویلتھ فنڈ ایک ماہ سے کم عرصے میں 2 ارب ڈالرکا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوا تھا،پاکستانی حکام اس طرح کے مذاکراتی لین دین کی قانونی حیثیت کے متعلق ابہام کی وجہ سے ٹھوس جواب نہیں دے سکے۔
پاکستان کی طرح مصر کی معیشت بھی طویل عرصے سے مشکلات کا شکار ہے اور وقتاً فوقتاً عالمی مالیاتی فنڈ اور دوست پڑوسی ممالک کی مالی امداد میں توسیع کی بدولت زندہ ہے۔ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کی بھی کوشش کر رہا ہے اور فنڈ کے ساتھ عملے کی سطح کے معاہدے تک پہنچنے سے پہلے اقتصادی اور مالیاتی پالیسیوں کیلئے مسودہ یادداشت (MEFP) دستاویز کے موصول ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
آئی ایم ایف اور بہت سے دوست ممالک کی امداد کے باوجودپاکستان اور مصر اپنی معیشت مکمل طور پر موڑ نہیں سکے اور بیرونی شدید جھٹکوں کا شکار رہے۔ذرائع نے بتایا فروری 2019ء میں پاکستان کی جانب سے 2 ارب ڈالر کا قرضہ واپس نہ کرنے کے بعد متحدہ عرب امارات اس بار اسلام آباد کو 2 ارب ڈالر کا ایک اور چیک دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔
متحدہ عرب امارات کے خودمختار فنڈز - ابوظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی (ADIA) اور مبادلہ انویسٹمنٹ کمپنی یا ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی (ADNOC) پاکستان میں جگہ بنا سکتے ہیں۔پاکستان میں ان کی دلچسپی سے قریباً 20 سرکاری کمپنیوں کے حصص چڑھ سکتے ہیں ،جن میں فوج کی تجارتی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق فوجی فاؤنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر نے بھی حال ہی میں ان اجلاسوں میں شرکت کی تھی۔ متحدہ عرب امارات کے سرفہرست پانچ سعودی خودمختار فنڈز ابوظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی (ADIA)، انویسٹمنٹ کارپوریشن آف دبئی (ICD)، مبادلہ انویسٹمنٹ کمپنی، ابوظہبی ڈویلپمنٹ ہولڈنگ کمپنی اور ایمریٹس انویسٹمنٹ اتھارٹی (EIA) سرفہرست 100 میں سے سرفہرست 20 میں شامل ہیں۔
ڈیڑھ درجن سرکاری کمپنیاںسٹاک ایکسچینج میں درج ہیں ۔ان میں سب سے بڑی آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ ہے جس میں حکومت کے 67 فیصد حصص ہیں۔ پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (68% جی اوپی حصص)، سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (53%)، پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی لمیٹڈ (22%)، سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ 32% اور ماری پیٹرولیم لمیٹڈ جبکہ فوجی فرٹیلائزر کمپنی لمیٹڈ، فوجی سیمنٹ کمپنی لمیٹڈ اور فوج کی ملکیت والی دیگر کمپنیاں۔
دیگر کمپنیوں میں پاکستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کارپوریشن، نیشنل بینک آف پاکستان اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی لمیٹڈ شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا پاکستان ان منافع بخش کمپنیوں کے 10 فیصد حصص فروخت کرکے 1 ارب سے 1.3 ارب ڈالر کی فوری سرمایہ کاری حاصل کر سکتاہے لیکن بیوروکریسی یہ لین دین آگے بڑھانے میں ہچکچارہی ہے جس سے سارے عمل میں تاخیر کے باعث اور متحدہ عرب امارات کی حکومت مشتعل ہورہی ہے۔
نجکاری کمیشن دستاویزات کے مطابق کے نجکاری کمیشن آرڈیننس 2000میں بات چیت اور غیر مسابقتی فروخت کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ دستاویزات میں مزید کہا گیا ہے پی سی کے قواعد و ضوابط نجکاری کا شفاف اور مسابقتی عمل شروع کرنے کیلئے مزید تحفظات فراہم کرتے ہیں۔
آرڈیننس اور ریگولیٹری فریم ورک نجکاری کمیشن کے دائرہ کار سے بات چیت کے ذریعے فروخت کرتا ہے جو مسابقتی اور شفافیت کے عمل کا نتیجہ نہیں ہے۔ کمیشن نے نئی قانون سازی کے بغیرفہرست میں شامل ادارہ جاتی سرمایہ کاروں اورسرکاری کمپنیوں کے حصص کی بلاک تجارت کیلئے مسابقتی لین دین کی سفارش کی تھی۔
ذرائع کے مطابق یو اے ای بولی میں حصہ لینے میں دلچسپی نہیں رکھتا ، اس نے پاکستان کو پیشکش کی ہے کہ دونوں فریقین آزادانہ طور پر مالیاتی مشیر مقرر کریں جو اپنی قیمتوں کا تعین کریں اور ان کی رائے کی بنیاد پر حتمی قیمت کا فیصلہ کیا جائے۔معاملے کا حل تلاش کرنے کیلئے وفاقی کابینہ میں یہ جلد زیربحث آسکتا ہے کیونکہ پاکستان کے پاس فیصلے کیلئے وقت تھوڑا ہے۔