کیا آپ کے پاس ڈگری ہے

پنجاب پبلک سروس کمیشن سال میں کتنی نوکریاں اناؤنس کرتا ہے اور فیس کے عوض کتنی رقم جمع کرتا ہے؟

امتحانی سینٹر میں تمام امیدواروں کے ساتھ انتہائی بدتہذیبانہ سلوک کیا جاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

کراچی:
یہ جون کی گیارہ تاریخ تھی۔ سورج سوا نیزے پر تھا اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی آسمان سے باتیں کررہے تھے۔ ابھی ہفتہ مہینے پہلے ہی تو سفر کیا تھا اسی گاڑی، اسی روٹ پر اور آج کرائے ایسے بڑھے جیسے حکومتی عہدیداروں کے اقتدار کے بعد سرمائے میں اضافہ ہوتا ہے۔ سر تھا کہ چکرا کر زمین پر گرانے ہی والا تھا کہ کاؤنٹر سے تھمایا گیا ٹکٹ یکدم ماضی میں لے گیا۔ یوں لگا قسمت پوڑی سے ملنے والا بوسیدہ سا کاغذ پھر ہاتھ میں آگیا ہو۔

جی بالکل! اب جذبات خوشی، حیرت اور شدید کرب کا مکس اچار بن چکے تھے کہ ہم جوں جوں بڑے ہوتے جاتے ہیں ہمیں ماضی کے ٹوٹے ہوئے کھلونے بھی جان سے پیارے لگنے لگتے ہیں۔ ''محترمہ ہم سب بھی سفر ہی کا ارادہ رکھتے ہیں۔'' شدید کوفت یافتہ آواز نے مجھے حقیقت کی جانب متوجہ کیا تو میں نے امید کا دامن پکڑتے ہوئے صاحبِ کاؤنٹر سے بہت خوش دلی سے عرض کیا ''بھائی یہ شاید آپ نے مجھے غلط پرچی دی ہے۔ مجھے ٹکٹ چاہیے۔'' خار زدہ آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے صاحبِ کاؤنٹر نے کہا ''محترمہ لگتا ہے آپ نے نئی حکومت کو ابھی قبول نہیں کیا، ورنہ ایسے سوال نہ کرتیں۔''

مسکین سا چہرہ لیے اب بس کے انتظار میں بیٹھی ہی تھی کہ محبت سے خراماں خراماں چلتے پنکھے بھی یکدم بند ہوگئے۔ ''سنیے، وہ جنریٹر...'' جملہ منہ میں ہی تھا کہ سامنے کھڑے اسٹاف ممبر کے چہرے کے تاثرات نے یاد کروا دیا کہ ہم پرانے پاکستان میں ہیں۔ کھسیانی ہوکر وہی بیٹھ گئی۔

بس آئی تو سکون کا سانس لیا کہ کم از کم اے سی تو میسر آئے گا۔ سیٹ پر بیٹھ کر سکون کا لمبا سانس لیتے ہوئے ٹیک لگائی تو سیٹ محبت کا شدید اظہار کرتے ہوئے پیچھے بیٹھے صاحب کی گود میں چلی گئی۔ ان کی مسکراہٹ تو دیدنی تھی مگر میری شرمندگی پر غصے نے موٹی تہہ چڑھائی۔ خود کو سنھبالتے تقریباً چیختے ہوئے اٹھی اور اسٹاف بوائے کو کہا کہ بیٹا یہ کرایہ تو بڑھا لیا مگر کرسیاں ٹھوکنا بھول گئے تم لوگ شاید۔ حضرت بہت متکبر انداز میں بولے ''میڈم آپ اسی پیسے میں اپنی گاڑی میں جاکر دیکھیں ناں اس شہر کو، پھر پتہ چلے گا کہ کیسے دنیا بدل چکی ہے۔''

اب سفر اکڑی ہوئی کمر کے ساتھ مکمل ہوا تو یاد آیا مجھے پبلک سروس کمیشن کے امتحانی سینٹر جانا ہے۔ دیے گئے مطلوبہ پتے کی لوکیشن ڈالی تو دل خوشی سے نہال ہوا کہ چلو سرکاری محکموں کی بھی حالت زار بہتر ہوئی کچھ۔ گاڑی آئی اور میں نے کمر کو تین گھنٹے کے بعد سہارا دیا مگر یاد آیا کہ پانی تو ہے نہیں۔ منہ ایسے خشک تھا کہ گویا عرصہ ہوا کچھ حلق میں اتارے۔ پھر حوصلہ ہوا کہ اتنی گرمی میں امتحانی سینٹر میں ٹھنڈا پانی تو مل ہی جائے گا۔ مطلوبہ گیٹ پر پہنچے تو پتہ چلا کہ یہ گیٹ افسران کےلیے ہے، آپ جیسوں کےلیے دوسرا گیٹ ہے وہاں تشریف لے جائیں۔

دوسرے گیٹ پر رش یوں تھا گویا لکی ایرانی سرکس چل رہا ہو۔ دھوپ اتنی تھی کہ پاؤں تک جل رہے تھے۔ جلدی سے گاڑی سے اتر کر بڑی سی عمارت میں داخل ہونے لگی تو ایک نوجوان نہایت بدتہذیبی سے سامنے آکر کھڑا ہوا۔ ''میڈیم یہ بیگ، موبائل اندر نہیں لے جاسکتیں آپ۔'' لہجہ تو بدلحاظ تھا ہی مطالبہ بھی عجیب تھا۔

''مگر کیوں؟''

''کیوں کہ آپ پرچہ دینے آئی ہیں، نقل کرنے نہیں۔''


مزاج کو ٹھنڈا رکھتے ہوئے میں نے پوچھا ''اچھا تو بتاؤ کہاں رکھوں یہ چیزیں؟''

''وہ ادھر جمع کروا دیں۔'' اس نوجوان نے اپنے بائیں جانب دو گندے ترین کھوکھوں کی جانب اشارہ کیا۔

''اچھا تو میرے سامان کی گارنٹی تم دو گے؟'' لڑکا اسی بدتمیزی سے پھر بولا کہ پرچہ دینا ہے تو دیں میرا دماغ مت خراب کریں۔

یہ بتادوں یہ پرچہ اٹھارویں گریڈ کی ایک پوسٹ کےلیے تھا۔ جس کےلیے ہزاروں لوگوں نے چھ چھ سو روپے فیس جمع کروا کر داخلہ بھیجا تھا۔ ان میں سے بہت سے پرچہ دینے نہیں آئے تھے اور یہ پنجاب پبلک سروس کمیشن کا روز کا کام ہے مگر نہ تو ہینڈ بیگز اور نہ ہی موبائل کو اپنے پاس محفوظ رکھنے کےلیے کوئی انتظام کیا آج تک۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ ایسی کوئی بھی انسٹریکشن بھیجے گئے پیغام میں بھی نہیں لکھی ہوتیں۔ میں دوسرے شہر سے آئی تھی، اس لیے مجبوراً بیگ پچاس روپے کے عوض ایک بابا جی کے کھوکھے پر رکھوایا اور موبائل ساتھ ہی موجود ایک اور کھوکھے پر (ایک کارڈ یا ٹوکن بھی دیا گیا تھا ہمیں جس پر واضح درج تھا کہ سامان کی گمشدگی کی صورت میں وہ لوگ ذمے دار نہیں ہوں گے)۔ پچاس روپے بھی ایڈوانس ہی دیے۔ اب اندر داخلے کےلیے بھی ایسی سیکیورٹی تھی گویا بیرون ملک روانگی ہے۔ وہاں موجود خواتین پولیس اہلکار انتہائی بدتہذیبی سے جسم کے ہر حصے کو ٹٹول رہی تھیں۔ تب ذہن میں آیا کہ کیا یہ ہراسمنٹ نہیں ہے؟ کیا یہ اسکریننگ ڈیوائس نہیں خرید سکتے؟

زندگی کا یہ سفر ہر قدم پر تکلیف دہ تھا کہ پرانے پاکستان میں نئے پاکستان کی یادیں بھی زخموں پر نمک ہی چھڑک رہی تھیں۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن کا یہ امتحانی مرکز عثمان بزدار کے ہاتھوں افتتاح یافتہ تھا مگر یہاں نہ تو طلبا کے ساتھ آئے والدین کے بیٹھنے کےلیے کوئی جگہ بنائی گئی، نہ ہی طلبا کےلیے پانی تک کا کوئی انتظام تھا اور نہ ہی واش روم استعمال کرنے کی سہولت موجود تھی۔ یعنی یہ وہ جگہ ہے جہاں سرکاری اداروں کےلیے 14 سے 20 گریڈ تک کےلیے ملازمین کے امتحانات ہوتے ہیں، مگر سلوک سب کے ساتھ انتہائی بدتہذیبی والا کیا جاتا ہے۔ بس سوچ میں پڑگئی کہ کیا ان سب کے پاس بھی ڈگری ہے؟ کیا اقتدار یا حاکمیت دو پل ہی کی ہو وہ یوں ہی انسان کو فرعون بناتی ہے؟ کیا کبھی اس بات کا آڈٹ ہوا کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن سال میں کتنی نوکریاں اناؤنس کرتا ہے اور اس کے عوض چھ چھ سو لے کر کل کتنی رقم جمع کرتا ہے اور اسے کہاں لگاتا ہے؟ کیا کبھی یہ سوال بھی ہوسکتا ہے کہ ناکام امیدواروں کو کس بنیاد پر ناکام کیا گیا، یہ بھی بتایا جائے؟

میرے پاس بھی ڈگری ہے مگر وہ ڈگری حاکمیت نہیں سکھاتی بلکہ ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا سکھاتی ہے۔ آپ بتائیے، کیا آپ کے پاس بھی ڈگری ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story