گوادر بندر گاہ… ظلم کی داستان

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گوادر کی بندر گاہ شدید عدم توجہ کا شکار ہے

msuherwardy@gmail.com

گوادر پاکستان کے لیے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے، یہ بات کہی تو بہت جاتی ہے لیکن اس میں کس حد تک صداقت ہے، یہی جاننے کے لیے میں نے گزشتہ چار دن گوادر میں گزارے ہیں۔ ان چار دنوں میں میری کوشش تھی کہ میں گوادر کی حقیقت جان سکوں۔ اگر گوادر بندرگاہ کی بات کی جائے تو وہ بن چکی ہے لیکن فعال نہیں ہے۔ گوادر کی بند رگاہ کیا پاکستان کے بہتر مستقبل کی نوید ہو سکتی ہے۔

ویسے تو گوادر کی بندر گاہ کا نظام چین کے پاس ہے لیکن ساتھ ساتھ گوادر پورٹ اتھارٹی بھی موجود ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گوادر کی بندر گاہ شدید عدم توجہ کا شکار ہے۔ ہم نے اس بندرگاہ کے ساتھ وہ ظلم کیے ہیں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔آپ اور ہم سنتے تو بہت ہیں کہ گوادر کی اسٹرٹیجک پوزیشن انتہائی اہم ہے، یہ دنیا کی گزر گاہ بن جائے گا، جہاز گوادر میں لنگر انداز ہوں گے، وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا ہمیں یہ حقیقت پتہ ہے کہ آج ہماری لا پرواہی اور عد م توجہ کی وجہ سے گوا در کی بندر گاہ اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ وہاں کوئی بڑا جہاز لنگر انداز ہی نہیں ہو سکتا۔

ہم نے گزشتہ چار سال سے گوادر کی بند رگاہ سے ریت نہیں نکالی ہے جس کی وجہ سے بندرگاہ پر گیارہ فٹ ریت آگئی ہے اور اس وجہ سے وہاں اب بڑے بحری جہاز نہیں آسکتے۔ بندر گاہ سے ریت نکالنا ایک مسلسل عمل ہے اور یہ کوئی بڑا کام بھی نہیں ہے۔

لیکن کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ گوادر کی بندر گاہ سے چار سال جو ریت نہیں نکالی گئی، اس کی کیا وجہ تھی؟ ک جس بندر گاہ پر بڑے جہاز ہی لنگر انداز نہیں ہو سکتے، اس نے پاکستان کی قسمت کیا بدلنی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ گزشتہ چار سال گوادر کی بندر گاہ کے ساتھ مجرمانہ غفلت برتی گئی ہے،اسے تباہ کرنے کے ایک مکمل اسکرپٹ پر کام کیا گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت کے علم میں جب چینی حکومت یہ بات لائی ہے تو وزیر اعظم شہباز شریف نے ریت نکالنے کا کام شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔

امید کی جا رہی ہے کہ جولائی میں یہ کام شروع ہوجائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ جو کام ہر سال ہی نہیں بلکہ سال میں دو بار ہوتا ہے، وہ چار سال کیوں نہیں ہوا؟ گوادر کو تباہ کرنا کس کا ایجنڈا تھا؟ ہم سب جانتے ہیں کہ بھارت اور امریکا گوادر کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔

میں کسی حکومت پر الزام نہیں لگا رہا ہے۔ لیکن اس کی تحقیقات ضرور ہونی چاہیے ۔ ہمیں شاید اندازہ نہیں ہے کہ چین اس سارے عمل سے کتنا ناراض رہا ہے۔ چینی حکام نے اپنی اس ناراضی کا برملا اظہار وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ گوادر کے دوران بھی کیا ہے۔ تا ہم ایسا لگتا ہے کہ چار سال سے گوادر کو ختم کرنے کے ایک منظم منصوبے پر کام ہو رہا تھا۔

کسی بھی بندر گاہ کو سمندری طوفان سے محفوظ بنانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے Break Waterکا ایک منصوبہ بنایا جاتا ہے، جس سے بند ر گاہ سمندری طوفان سے محفوظ ہو جاتی ہے۔ چین نے گوادر کی بندر گاہ کو سمندری طوفانوں سے محفوظ کرنے کے لیے نرم شرائط پر ایک قرضہ پاکستان کو تین سال قبل دیا تھا۔ لیکن یہ قرضہ تین سال سے پاکستان کے پاس ہے لیکن ہم نے گوادر کی بندر گاہ کو محفوظ بنانے کے عمل کا آغاز نہیں کیا ہے۔ پیسے موجود ہیں لیکن کام نہیں کیا گیا۔


یہ تو اﷲ تعالیٰ کا خاص کرم رہا ہے کہ گزشتہ تین سال میں گوادر میں کوئی سمند ری طوفان نہیں آیا اور ہماری بند رگاہ محفوط رہی ہے ورنہ ہماری طرف سے تو کوتاہی میں کوئی کمی نہیںتھی ۔ چین بھی حیران ہے کہ یہ کیسا ملک ہے جو اپنے ملک کی بندر گاہ کی حفاظت کا نظا م لگانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ چین کے پاس بندر گاہ چلانے کا نظام ہے لیکن اس کی حفاظت اور اس کے باقی سارے معاملات پاکستان کے کنٹرول میں ہیں۔

جس کے لیے ہم نے گوادر پورٹ اتھارٹی بنائی ہوئی ہے۔ اب یہ اتھارٹی اگر کام نہیں کر رہی تواس میں چین کا کیا قصور ہے۔ پیسے موجود ہیں لیکن ہم کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چین کی سرمایہ کاری بھی غیر محفوظ ہے اور ہمارا مستقبل بھی غیرمحفوظ ہے لیکن کسی کو فکر نہیں ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چین میں چار سو سے زائد بندر گاہیں موجود ہیں۔ چین نے یہ تمام بند گاہیں گزشتہ تین دہائیوں میں بنائی ہیں جب کہ ہم ملک کی تیسری بندر گاہ بنانے میں دو دہائیوں سے پھنسے ہوئے ہیں۔

چین میں ہر دو سو کلومیٹر کے بعد ایک بندر گاہ ہے۔ ہم گوادر میں ایسے پھنس گئے ہیں کہ نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ چین کو بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کیا لوگ ہیں۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کام نہ ہونا ایک بات ہے۔ لیکن اگر پیسے موجود ہوں پھر بھی کام نہ ہو تو کیا کیا جائے۔ چین کا یہی سوال ہے کہ جس کام کے پیسے بھی موجود ہیں، وہ کیوں نہیں ہو رہا۔

میں نے گوادر پر کام کرنے والے چینی حکام سے پوچھا کہ گوادر کی بند رگاہ پر جہازوں کی آمد کی تعداد کم کیوں ہے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ جہاز آرہے ہیں لیکن آپ سمجھیں جب تک گوادر کو باقی پاکستان اور چین کے ساتھ جوڑا نہیں جائے گا، کوئی اپنا سامان کیوں گوادر لائے گا۔ پاکستان نے ابھی تک گوادر کو باقی پاکستان کے ساتھ جوڑا ہی نہیں ہے۔ M 8نہیں بنی ہے۔ جو گوادر کی بندر گاہ کے فعال ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

ابھی جو کوئی بھی اپنا مال گوادر لاتا ہے، اسے وہ مال پاکستان میں ہی ترسیل کے لیے واپس کراچی لے جانا پڑتا ہے۔ پھر وہاں سے پورے ملک میں جاتا ہے۔ کوئی کیوں مال گوادر لائے، پھر یہاں سے واپس کراچی لے کر جائے۔ وہ سیدھا کراچی ہی کیوں نہ لائے۔ اسی لیے جب تک M 8نہیں بنتی، گوادر میں مال لانا نقصان دہ ہے۔ ہم نے پورٹ بنا لی ہے لیکن اسے ملک کے ساتھ جوڑا نہیں ہے۔ M8پر کام نہیں ہو رہا ہے، اس لیے گوادر سنسان ہے۔ اب اس میں چین کا قصور ہے یا ہمارا قصور ہے۔

ہم نے سیکیورٹی کے نام پر گوادر کو ایک قلعہ بنا لیا ہے۔ گوادر میں موجود چینی اور دیگر غیر ملکیوں کو ایک مخصوص جگہ پر سیکیور ٹی کے نام پر بند کیا ہوا ہے۔ انھیں چینی بزنس سینٹرسے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی چینی وہاں سے باہر جانا چاہے تو اس کو نہ صرف اجازت لینا ہوتی ہے بلکہ اسے کئی گاڑیوں کے سیکیورٹی حصار میں باہر لے کر جایاجاتا ہے۔ چینی حکام کا موقف ہے کہ اس ماحول میں کوئی بیرونی سرمایہ کار کیسے گوادر میں آسکتا ہے۔ اگر کسی کا مال گوادر بند ر گاہ پر آگیا ہے تو وہ یہاں آکر قید کیسے ہو جائے۔

میں نے گوادر بندر گاہ پر موجود ایک بینک میں عملے سے سوال کیا کہ آپ کے پاس کتنے کلائنٹ ہیں تو انھوں نے جواب دیاکہ ایک ہفتے میں ایک کلائنٹ بھی آجائے تو بڑی بات ہے۔ ہم پورا پورا ہفتہ بیکار بیٹھے رہتے ہیں۔ کوئی کام نہیں بہت سے بینکوں نے بندر گاہ پر اپنی برانچیں بند کر دی ہیں۔ جو چند رہ گئے ہیں، وہ بھی اچھے دنوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ گوادر سنسان ہے، گواد ر ویران ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نے گزشتہ چند سال میں گوادر کو زمین بوس کرنے پر کام کیا ہے۔ یہ ہماری قومی بے حسی کا عملی نمونہ ہے۔ یہ گوادر بندر گاہ کے حالات ہیں۔ شہر کے حالات اگلے کالم میں لکھوں گا۔
Load Next Story