سسکتی زندگی
عوام کو کوئی ایسی صورت نظر نہیں آرہی جس میں ان کے لیے کوئی خیر کا پہلو نکلتا ہو
WASHINGTON:
پاکستان کی معاشی اور سیاسی حالت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ عوام ہوں یا اشرافیہ ، دوست ممالک ہوں یا عالمی مالیاتی ادارے سب پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ ایٹمی پاکستان اس دوراہے پر پہنچ چکا ہے جہاں سے ایک راستہ تباہی کا ہے جب کہ دوسرا استحکام اور بہتری کا راستہ ہے، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ عوام توآہ وفغاں کر رہے ہیں جب کہ ہمارے حکمران مزے اور موج مستی میں ہیں ۔
عوام کو کوئی ایسی صورت نظر نہیں آرہی جس میں ان کے لیے کوئی خیر کا پہلو نکلتا ہو۔حکمرانوں کے اللے تللے ویسے ہی ہیں جیسے ماضی میں ہوتے تھے۔ ریاست کا ہر اسٹیک ہولڈر اپنی ان عیاشیوں میں کمی پر قطعاً تیار نہیں ہیں بلکہ مزید عیاشیوں کا خواہاں ضرور ہے ۔ہر ایک اسٹیک ہولڈر حکمرانی کا مزہ تو چکھنا چاہتا ہے مگر پاکستان کے عوام کو کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت کی بات کریں تو حکومت میں شامل کوئی اتحادی مہنگائی کی ذمے داری لینے کو تیار نہیں ہے اور سارا ملبہ صرف مسلم لیگ نواز پر ڈالا جارہا ہے۔بڑے اتحادی آصف علی زرداری ہیںجن کا یہ دعویٰ ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف سازش بلاول ہاؤس میں تیار کی گئی ، وہ بھی '' صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں ''والا معاملہ کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن جو اپوزیشن اتحاد کے سربراہ ہیں، انھوں نے بھی آصف علی زرداری کی طر ح اپنے فرزند کو وزارت دلوا کر اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کر لیا ہے۔ ایم کیو ایم بھی ناقابل برداشت مہنگائی کے بہانے اور پیپلز پارٹی سے سندھ میں ایک معاہدے کے تحت عمران خان کی حکومت سے الگ ہوئی تھی، وہ بھی اب گلہ کرتے اور منہ چھپاتے پھرتے ہیں ۔ یعنی معاملات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ حکومتی اتحادی حکومت سے لاتعلق ہوچکے ہیں اور شہباز شریف کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ایک مذاق بن چکا ہے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کی عمارت پر قابض ہیں اور حمزہ شہباز شریف کی حکومت اسمبلی کا اجلاس کسی دوسر ی عمارت میں منعقد کرنے پر مجبور ہے۔
محسوس یوں ہو رہا ہے کہ نواز لیگ کو اقتدار کی بڑی مسند پر بٹھا کر باندھ دیا گیا ہے ۔لب لباب یہی ہے کہ چونکہ اقتدار میں شریک تما م جماعتیں ایک دوسرے کی سیاسی اور نظریاتی مخالف ہیں اور آیندہ الیکشن میں ان تمام جماعتوں نے اپنے الگ الگ منشور پر الیکشن میں حصہ لینا ہے، اس لیے وہ وہ کوئی واضح پوزیشن لینے کے حق میں نہیں ہیں ۔
ملک میں روز بروزبگڑتے معاشی حالات کی وجہ سے پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اب یہ بات کہنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ ہم سے یہ بات طے کی گئی تھی کہ عمران خان کی حکومت گرانے کے بعد الیکشن اصلاحات کرکے فوری الیکشن کا راستہ اختیار کیا جائے گا لیکن من پسند اور مطلوبہ الیکشن اصلاحات کے بعد بھی جلدانتخابات کا ذکر نہیں ہو رہا ۔ میاں شہباز شریف جن کی شہرت ایک اعلیٰ پائے کے منتظم کی ہے اور وہ صوبائی ایڈمنسٹریشن چلانے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں، وفاق میں ابھی تک کوئی بڑا چمتکار دکھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
ان کی انتظامی صلاحیتوں کا امتحان شروع ہوچکا ہے اور وہ اس سے نبرد آزما ہونے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کوششوں کے نتائج اتنے ثمر آور نہیں جتنی کی توقع کی جارہی تھی ، غیر جانبدار حلقوں کا یہ کہنا ہے نواز لیگ کی سیاسی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے،اس بات کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا کہ حکومت سنبھالنا دانشمندانہ سیاسی فیصلہ تھا یا نہیں۔
تازہ ترین خبرہے کہ شہباز شریف کی حکومت اپنے وزیر خزانہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ ادھر مسلم لیگ کے قائدمیاں نواز شریف نے اسحاق ڈار کو پاکستان واپسی کا گرین سگنل دے دیا ہے۔ اسحاق ڈار کی واپسی اس بات کا اشارہ ہے، وہ پاکستان پہنچ کر خزانے کی کنجی سنبھال لیں گے۔ ماضی میں بھی اسحاق ڈار وزارت خزانہ کے مدارالمہام رہ چکے ہیں اور جو ٹیکس اصلاحات انھوں نے کیں تھیں اورمختلف شعبہ جات پر ٹیکسوں کی جو بھر مار کی گئی تھی اس کے اثرات کا خمیازہ ملک آج تک بھگت رہا ہے صرف ایک پراپرٹی کے شعبہ کا ذکرکافی ہے جس پر ٹیکس لگا کر ملک میں جائیداد کی خرید و فروخت کو عملاً روک دیا گیاتھااور سرمایہ کاروں نے ملک میںپراپرٹی میں سرمایہ روک کر ملک سے باہر سر مایہ کاری کو ترجیح دی تھی۔
اسحاق ڈارپر پاکستان میں مختلف مقدمات ہیں جن کی وجہ سے وہ لندن میں مقیم ہیں، ان کووطن واپسی پر ان مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا لیکن اب چونکہ ان کی پارٹی کی حکومت بر سر اقتدار ہے، شاید ان کے لیے مشکلات کم ہوں لیکن عمران خان کی تحریک انصاف ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار بخوبی ادا کررہی ہے اور اسحاق ڈار کی وطن واپسی پروہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لے گی۔
قوم بلاشبہ اس وقت چکی کے دو پاٹوں میں تقسیم ہو چکی ہے، وہ میاں شہباز شریف کو نیک نیت انسان سمجھتی ہے جو ذہن میں کسی انقلاب اور بغاوت کے اسباب رکھتے ہیںاور قوم کے لیے کچھ کر گزرنے کو بے تاب رہتے ہیں' دوسری جانب عمران خان ہیں جو اس وقت اصل میں تو صرف اقتدار کی سیاست کررہے ہیں لیکن انھوں نے حکومت کے خلاف عوام کو جو بیانہ دیا ہے اور جس ہوشربا ء مہنگائی کاسامنا عوام کررہے ہیں، ان حالات میں عمران خان کا بیانیہ فروغ پا رہا ہے۔ بہرحال تان اس بات پر آکر ٹوٹتی ہے کہ عمران خان ہوں یا شہباز شریف قوم ان کو بتاتی ہے کہ وہ روز روز کی سسکتی زندگی سے انکار کرتی ہے اور کسی حقیقی مسیحا کے لیے دعا گو اور منتظر ہے۔
پاکستان کی معاشی اور سیاسی حالت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ عوام ہوں یا اشرافیہ ، دوست ممالک ہوں یا عالمی مالیاتی ادارے سب پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ ایٹمی پاکستان اس دوراہے پر پہنچ چکا ہے جہاں سے ایک راستہ تباہی کا ہے جب کہ دوسرا استحکام اور بہتری کا راستہ ہے، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ عوام توآہ وفغاں کر رہے ہیں جب کہ ہمارے حکمران مزے اور موج مستی میں ہیں ۔
عوام کو کوئی ایسی صورت نظر نہیں آرہی جس میں ان کے لیے کوئی خیر کا پہلو نکلتا ہو۔حکمرانوں کے اللے تللے ویسے ہی ہیں جیسے ماضی میں ہوتے تھے۔ ریاست کا ہر اسٹیک ہولڈر اپنی ان عیاشیوں میں کمی پر قطعاً تیار نہیں ہیں بلکہ مزید عیاشیوں کا خواہاں ضرور ہے ۔ہر ایک اسٹیک ہولڈر حکمرانی کا مزہ تو چکھنا چاہتا ہے مگر پاکستان کے عوام کو کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت کی بات کریں تو حکومت میں شامل کوئی اتحادی مہنگائی کی ذمے داری لینے کو تیار نہیں ہے اور سارا ملبہ صرف مسلم لیگ نواز پر ڈالا جارہا ہے۔بڑے اتحادی آصف علی زرداری ہیںجن کا یہ دعویٰ ہے کہ عمران خان کی حکومت کے خلاف سازش بلاول ہاؤس میں تیار کی گئی ، وہ بھی '' صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں ''والا معاملہ کر رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن جو اپوزیشن اتحاد کے سربراہ ہیں، انھوں نے بھی آصف علی زرداری کی طر ح اپنے فرزند کو وزارت دلوا کر اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کر لیا ہے۔ ایم کیو ایم بھی ناقابل برداشت مہنگائی کے بہانے اور پیپلز پارٹی سے سندھ میں ایک معاہدے کے تحت عمران خان کی حکومت سے الگ ہوئی تھی، وہ بھی اب گلہ کرتے اور منہ چھپاتے پھرتے ہیں ۔ یعنی معاملات اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ حکومتی اتحادی حکومت سے لاتعلق ہوچکے ہیں اور شہباز شریف کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت کی صورت حال بھی کچھ مختلف نہیں ہے۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس ایک مذاق بن چکا ہے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی پنجاب اسمبلی کی عمارت پر قابض ہیں اور حمزہ شہباز شریف کی حکومت اسمبلی کا اجلاس کسی دوسر ی عمارت میں منعقد کرنے پر مجبور ہے۔
محسوس یوں ہو رہا ہے کہ نواز لیگ کو اقتدار کی بڑی مسند پر بٹھا کر باندھ دیا گیا ہے ۔لب لباب یہی ہے کہ چونکہ اقتدار میں شریک تما م جماعتیں ایک دوسرے کی سیاسی اور نظریاتی مخالف ہیں اور آیندہ الیکشن میں ان تمام جماعتوں نے اپنے الگ الگ منشور پر الیکشن میں حصہ لینا ہے، اس لیے وہ وہ کوئی واضح پوزیشن لینے کے حق میں نہیں ہیں ۔
ملک میں روز بروزبگڑتے معاشی حالات کی وجہ سے پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اب یہ بات کہنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ ہم سے یہ بات طے کی گئی تھی کہ عمران خان کی حکومت گرانے کے بعد الیکشن اصلاحات کرکے فوری الیکشن کا راستہ اختیار کیا جائے گا لیکن من پسند اور مطلوبہ الیکشن اصلاحات کے بعد بھی جلدانتخابات کا ذکر نہیں ہو رہا ۔ میاں شہباز شریف جن کی شہرت ایک اعلیٰ پائے کے منتظم کی ہے اور وہ صوبائی ایڈمنسٹریشن چلانے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں، وفاق میں ابھی تک کوئی بڑا چمتکار دکھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
ان کی انتظامی صلاحیتوں کا امتحان شروع ہوچکا ہے اور وہ اس سے نبرد آزما ہونے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کوششوں کے نتائج اتنے ثمر آور نہیں جتنی کی توقع کی جارہی تھی ، غیر جانبدار حلقوں کا یہ کہنا ہے نواز لیگ کی سیاسی ساکھ داؤ پر لگ گئی ہے،اس بات کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا کہ حکومت سنبھالنا دانشمندانہ سیاسی فیصلہ تھا یا نہیں۔
تازہ ترین خبرہے کہ شہباز شریف کی حکومت اپنے وزیر خزانہ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے۔ ادھر مسلم لیگ کے قائدمیاں نواز شریف نے اسحاق ڈار کو پاکستان واپسی کا گرین سگنل دے دیا ہے۔ اسحاق ڈار کی واپسی اس بات کا اشارہ ہے، وہ پاکستان پہنچ کر خزانے کی کنجی سنبھال لیں گے۔ ماضی میں بھی اسحاق ڈار وزارت خزانہ کے مدارالمہام رہ چکے ہیں اور جو ٹیکس اصلاحات انھوں نے کیں تھیں اورمختلف شعبہ جات پر ٹیکسوں کی جو بھر مار کی گئی تھی اس کے اثرات کا خمیازہ ملک آج تک بھگت رہا ہے صرف ایک پراپرٹی کے شعبہ کا ذکرکافی ہے جس پر ٹیکس لگا کر ملک میں جائیداد کی خرید و فروخت کو عملاً روک دیا گیاتھااور سرمایہ کاروں نے ملک میںپراپرٹی میں سرمایہ روک کر ملک سے باہر سر مایہ کاری کو ترجیح دی تھی۔
اسحاق ڈارپر پاکستان میں مختلف مقدمات ہیں جن کی وجہ سے وہ لندن میں مقیم ہیں، ان کووطن واپسی پر ان مقدمات کا سامنا کرنا ہوگا لیکن اب چونکہ ان کی پارٹی کی حکومت بر سر اقتدار ہے، شاید ان کے لیے مشکلات کم ہوں لیکن عمران خان کی تحریک انصاف ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار بخوبی ادا کررہی ہے اور اسحاق ڈار کی وطن واپسی پروہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لے گی۔
قوم بلاشبہ اس وقت چکی کے دو پاٹوں میں تقسیم ہو چکی ہے، وہ میاں شہباز شریف کو نیک نیت انسان سمجھتی ہے جو ذہن میں کسی انقلاب اور بغاوت کے اسباب رکھتے ہیںاور قوم کے لیے کچھ کر گزرنے کو بے تاب رہتے ہیں' دوسری جانب عمران خان ہیں جو اس وقت اصل میں تو صرف اقتدار کی سیاست کررہے ہیں لیکن انھوں نے حکومت کے خلاف عوام کو جو بیانہ دیا ہے اور جس ہوشربا ء مہنگائی کاسامنا عوام کررہے ہیں، ان حالات میں عمران خان کا بیانیہ فروغ پا رہا ہے۔ بہرحال تان اس بات پر آکر ٹوٹتی ہے کہ عمران خان ہوں یا شہباز شریف قوم ان کو بتاتی ہے کہ وہ روز روز کی سسکتی زندگی سے انکار کرتی ہے اور کسی حقیقی مسیحا کے لیے دعا گو اور منتظر ہے۔