سابق چیف جسٹس سے زیادہ طاقتور شخص نہیں دیکھا علی کرد
وکلا کی تحریک میں لوگوں کی دلچسپی بہت زیادہ تھی، ہر ایک نے سپورٹ کیا، طارق محمود
ماہر قانون علی احمد کرد نے کہا ہے کہ وکلا کی تحریک ایک انقلاب تھا وہ الگ بات ہے کہ ہم اس انقلاب کے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں کرسکے ہم جو بہتری لانا چاہتے تھے وہ بہتری نہیں لاسکے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سیاست اور قانون میںمیزبان ڈاکٹرمعید پیرزادہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کے کام کرنے کا اپنا انداز تھا اور موجودہ چیف جسٹس کا اپنا انداز ہے سابق چیف سے زیادہ طاقتور شخص میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔ اس انقلاب کے ذریعے غریب آدمی کو جو فائدہ ہم پہچاناچاہتے تھے وہ نہیں پہنچا سکے۔جسٹس (ر)طارق محمود نے کہا کہ اس وقت ایک جذبہ تھا ایک مشن تھا اس تحریک میں بہت پیسہ خرچ ہوا لیکن ہرکسی نے اپنے جیب سے ایک جذبے کے تحت پیسہ خرچ کیا ہم نے کسی سے کچھ نہیں کہا جو بھی ہوا بہت سے لوگوں نے متحد ہوکرکیا ۔اس تحریک کو ہر طبقہ فکر نے سپورٹ کیا اس وقت کے میڈیا نے بھی اس کو بہت سپورٹ کیا، اس تحریک میں سیاسی لوگوں کی دلچسپی بھی بہت زیادہ تھی ۔محترمہ بینظیر بھٹو اس تحریک سے قبل ہی اعتزازاحسن سے کسی بات پر ناراض تھیں۔
افتخار چوہدری سے غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے جو کام کیے آئین سے ہٹ کرتھے میں مانتا ہوں کہ ہم سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں، ہم کو اس تحریک سے سبق بھی ملا ہے کہ ہم نے جو بھی کرنا ہے آئین کے مطابق ہی کرنا ہے ۔تجزیہ کار بابر ستار نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کے ساتھ میڈیا سمیت سبھی اچھے تعلقات رکھنا چاہتے تھے میڈیا کے ساتھ سابق چیف جسٹس کا اچھا تعلق تھا ، اس تحریک میں جو جو لوگ نکلے اپنی مرضی سے نکلے جب لانگ مارچ شروع ہوا تو کوئی انتظام نہیں تھا بس جس جس نے جو بھی کیا اپنی مرضی سے کیا، بی بی این آراو کرکے آرہی تھی جب وہ پاکستان آئیں تو ان کو اندازہ ہوا کہ تحریک تو عوام میں بہت مقبول ہے پھر وہ خود ہی افتخار چوہدری کے گھر میں پاکستانی پرچم لگانے چلی گئیں ۔عدالتیں غلط فیصلے بھی دیتی ہیں میںسمجھتا ہوں کہ اسٹیل ملز کا فیصلہ بہت غلط تھا ۔افتخار چوہدری نے اپنے ساتھ وفاداری کی بنیاد پر بہت سے لوگوں کو نوازالیکن اگریہ کام سیاستدان کریں تو ہم اعتراض کرتے ہیں ، ڈاکٹرارسلان کے معاملے پر ان کے ساتھ ایسا سلوک کیاگیا جیسے وہ افتخار چوہدری کے بیٹے نہیں سپریم کورٹ کے بیٹے ہیں۔افتخار چوہدری بھی شاہد آفریدی کی طرح ہی تھے آئے اور چھ چھکے مار کر آئوٹ ہوگئے ۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام سیاست اور قانون میںمیزبان ڈاکٹرمعید پیرزادہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار چوہدری کے کام کرنے کا اپنا انداز تھا اور موجودہ چیف جسٹس کا اپنا انداز ہے سابق چیف سے زیادہ طاقتور شخص میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔ اس انقلاب کے ذریعے غریب آدمی کو جو فائدہ ہم پہچاناچاہتے تھے وہ نہیں پہنچا سکے۔جسٹس (ر)طارق محمود نے کہا کہ اس وقت ایک جذبہ تھا ایک مشن تھا اس تحریک میں بہت پیسہ خرچ ہوا لیکن ہرکسی نے اپنے جیب سے ایک جذبے کے تحت پیسہ خرچ کیا ہم نے کسی سے کچھ نہیں کہا جو بھی ہوا بہت سے لوگوں نے متحد ہوکرکیا ۔اس تحریک کو ہر طبقہ فکر نے سپورٹ کیا اس وقت کے میڈیا نے بھی اس کو بہت سپورٹ کیا، اس تحریک میں سیاسی لوگوں کی دلچسپی بھی بہت زیادہ تھی ۔محترمہ بینظیر بھٹو اس تحریک سے قبل ہی اعتزازاحسن سے کسی بات پر ناراض تھیں۔
افتخار چوہدری سے غلطی یہ ہوئی کہ انھوں نے جو کام کیے آئین سے ہٹ کرتھے میں مانتا ہوں کہ ہم سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں، ہم کو اس تحریک سے سبق بھی ملا ہے کہ ہم نے جو بھی کرنا ہے آئین کے مطابق ہی کرنا ہے ۔تجزیہ کار بابر ستار نے کہا کہ سابق چیف جسٹس کے ساتھ میڈیا سمیت سبھی اچھے تعلقات رکھنا چاہتے تھے میڈیا کے ساتھ سابق چیف جسٹس کا اچھا تعلق تھا ، اس تحریک میں جو جو لوگ نکلے اپنی مرضی سے نکلے جب لانگ مارچ شروع ہوا تو کوئی انتظام نہیں تھا بس جس جس نے جو بھی کیا اپنی مرضی سے کیا، بی بی این آراو کرکے آرہی تھی جب وہ پاکستان آئیں تو ان کو اندازہ ہوا کہ تحریک تو عوام میں بہت مقبول ہے پھر وہ خود ہی افتخار چوہدری کے گھر میں پاکستانی پرچم لگانے چلی گئیں ۔عدالتیں غلط فیصلے بھی دیتی ہیں میںسمجھتا ہوں کہ اسٹیل ملز کا فیصلہ بہت غلط تھا ۔افتخار چوہدری نے اپنے ساتھ وفاداری کی بنیاد پر بہت سے لوگوں کو نوازالیکن اگریہ کام سیاستدان کریں تو ہم اعتراض کرتے ہیں ، ڈاکٹرارسلان کے معاملے پر ان کے ساتھ ایسا سلوک کیاگیا جیسے وہ افتخار چوہدری کے بیٹے نہیں سپریم کورٹ کے بیٹے ہیں۔افتخار چوہدری بھی شاہد آفریدی کی طرح ہی تھے آئے اور چھ چھکے مار کر آئوٹ ہوگئے ۔