شیخ آفندی کا سانحہ ارتحال

اپنے اس سفر میں انھوں نے قید و بند کی سختیاں بھی برداشت کیں، اپنی جان کے خطرات بھی محسوس کیے


[email protected]

امام العلماء، قاریٔ قرآن، محدث العصر، مبلغ اسلام اور ادیب حافظ ابو الحسن علی دار قطنی بغدادی نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ میرے والد گرامی فرمایا کرتے تھے، اہل بدعت سے کہہ دو کہ ہمارے جنازے جب نکلیں گے تو وہی ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کریں گے''۔

امام ابن کثیر فرماتے ہیں ''اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ قول سچ کر دکھایا۔کیونکہ وہ اپنے دور میں اہل سنت کے امام تھے اور ان کی چوٹی کے مخالفین میں وقت کے چیف جسٹس بھی تھے، اس کو جب موت آئی تو کسی نے ادھر توجہ نہ دی اور اس کے جنازے کے ساتھ چند سرکاری عہدیداروں کے سوا کوئی نہ تھا اور مشہور صوفی حارث بن اسد المحاسبی باوجود اس کے کہ بڑے زاہد، پارسا، اور اپنے نفس کا شدید محاسبہ کرنے والے تھے، ان کے جنازے پر بھی تین چار افراد ہی آئے۔''

اسی طرح بشر بن غیاث المریسی جو مشہور حنفی فقیہ ابو یوسف کا شاگرد تھا جب فوت ہوا تو محض چند افراد ہی اس کے جنازے پر حاضر تھے۔(البدایۃ والنھاریۃ۔ ج۔10۔ص 573 )۔ بیشک یہ اللہ کے فیصلے ہیں۔ فی زمانہ اس کی ایک زندہ مثال ملت اسلامیہ کی عظیم ہستی، عظیم داستاں، عظیم مجاہد اور داعی، سلسلہ نقشبندیہ کے عظیم چشم و چراغ، عالم ربّانی، عرب و عجم کے لاکھوں علماء و مشائخ کے استاد، ترک صدر رجب طیب اردوان کے مرشد، شیخ المشائخ سیدی، شیخ مولانا محمودآفندی ہیں۔ شیخ محمود آفندی رحمہ اللہ علیہ سلسلہ نقشبندیہ کے عظیم بزرگ تھے، گزشتہ دنوں جب ترکی میں ان کا انتقال ہوا تو پوری دنیا بالعموم، عالم اسلام بالخصوص پر سوگ کی چادر تن گئی، ہر آنکھ نمناک تھی، ہر دل دکھی تھا لیکن یہ تقدیر کے فیصلے ہیں، جو آیا ہے اسے اپنے وعدے کے مطابق جانا ہی ہے۔

استنبول کی سلطان فاتح مسجد کے احاطے میں عصر حاضر کے اس عظیم بزرگ کا جسد خاکی رکھا۔ فوٹیج اور ڈرون کیمروں سے لی گئی تصاویر بتاتی ہیں کہ وسیع وعریض مسجد ہی نہیں، آس پاس کی ہر چھوٹی بڑی شاہراہیں بھی لوگوں سے بھر گئیں، تاحد نگاہ انسانی سر ہی دکھائی دے رہے تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا اس نیک ہستی کے جنازے میں جیسے انسانوں کا سمندر امڈ آیا ہے۔

شیخ آفندی رحمہ اللہ کے زہد و تقوی ، علمی اور روحانی خدمات کے حوالے سے ذکر خیر میں اپنے باباجان شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا حمداللہ جان ڈاگئی بابا جی ؒ سے اپنے بچپن سے سنتا آرہا ہوں۔ 1972 میں شیخ آفندی رحمہ اللہ نے باباجان ؒ کو ان کی تصنیف''البصائر''پر توصیفی کلمات کے ساتھ خراج تحسین پیش کرتے ہوئے خط لکھا تھا۔ باباجانؒ جب پہلی بار حج پر گئے تو مسجد الحرام میں ان کا ایک تاریخی مناظرہ ہوا، مناظرہ سعودی حکومت کی نگرانی میں مکہ کے گورنر، قاضی، حرمین کے خطبا اور سرکار اہلکاروں کی موجودگی میں ہوا اور اللہ رب العزت کی نصرت سے حضرت ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ کو فتح نصیب ہوئی اور اللہ کریم نے حضرت شیخ ؒ کو مزید عزتوں سے نوازا اور پوری دنیا میں شہرت و عزت ملی۔ مناظرہ کے موقع پر ترکی کے حکومتی عہدے دار، چند وزرا بھی موجود تھے۔ مناظرہ میں زیر بحث حضرت شیخ ؒکی تصنیف بھی آئی، جسے بعد میں ترکی حکومت نے چھاپ کر پوری دنیا میں تقسیم کیا۔ ترکی سے ''البصائر'' کی اشاعت پر شیخ آفندی ؒ نے حضرت شیخؒ کو خط لکھا تھا۔

شیخ آفندی نے 1929 میں ترکی کے صوبے ترابزون کے اوف نامی گاؤں کے ایک مسلمان گھرانے میں آنکھ کھولی، جو کہ موجودہ ترک صدر اردگان کی جائے پیدائش ''ریزے'' سے متصل ہے۔ آپ کی پرورش خالصتاً دینی ماحول میں ہوئی، کم عمری میں ہی اللہ کریم نے آپ کے سینے میں قرآن مجید کا نور بھر دیا۔ آپ نے ترکی کے نامور عالم دین شیخ تسبیحی زادہ سے صرف و نحو اور دیگر علوم عربیہ کو حاصل کیا۔

پھر شیخ محمد راشد عاشق کوتلوآفندی کی خدمت میں رہ کر ان سے قرات اور علوم قرآن کی تعلیم حاصل کی، بعدازاں شیخ محمود آفندی نے شیخ دورسون فوزی آفندی سے دینیات، تفسیر، حدیث، فقہ اور اس کے ماخذ، علم کلام، بلاغت اور دیگر قانونی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ مذکورہ اساتذہ سے انھوں نے علوم عقلیہ ونقلیہ میں اجازت حاصل کی اس وقت وہ 16 سال کی عمر میں تھے۔ شیخ محمود آفندی نے روحانی سلسلہ نقشبندیہ کی اجازت اپنے شیخ احمد آفندی مابسیونی سے حاصل کی۔

شیخ آفندی نے جس وقت ترکی میں آنکھ کھولی، اس وقت خلافت عثمانیہ کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، ایک اسلامی ملک کو سیکولر بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا تھا، ترکی اور اہل ترکی کے دلوں سے اسلام کے نقوش کھرچ کھرچ کر مٹانے کی ایک ناپاک مہم جاری تھی۔ مدارس و مساجد پر پابندیاں تھیں، اسلام پسندوں کے لیے ترکی کی سر زمین تنگ کردی گئی تھی۔ ایسے گھٹن زدہ ماحول میں اللہ نے شیخ آفندی جیسے گوہر نایاب کو پیدا کیا۔

1857 کی جنگ آزادی کے بعد ''دیوبند'' شہر کی ''چھتہ مسجد '' میں اس درسگاہ (دارالعلوم دیوبند) کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے استاد مولانا محمودؒ اور پہلے شاگرد محمود الحسن رحمہ اللہ علیہ تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انار کے درخت تلے ایک استاد اپنے شاگرد کو علوم نبویہﷺ کے جام پلایا کرتے تھے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترک اہل اسلام پر مصائب و آلام کا دور آیا، چنانچہ فکر امت سے لبریز اکابر علماء نے دارالعلوم طرز کا ادارہ قائم کرنے کی ٹھانی، چنانچہ ترک علماء نے شہروں سے گاؤں دیہاتوں کی طرف ہجرت کی اور وہاں درختوں اور کھیتوں میں تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع کیا۔ کمال اتاترک نے ملک میں نماز، تلاوت اور عبادات پر پابندی عائد کررکھی تھی۔

فوج گھر گھر چھاپے ماررہی تھی جس گھر سے قرآن اور جائے نماز ملتی اس گھر کے تمام افراد کو گرفتار کرکے سخت سزائیں دی جاتیں۔ ایسے ماحول میں دیہاتوں میں بھی اسلامی تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رکھنا آسان کام نہ تھا۔ لیکن ترک علماء سے اللہ نے اپنے دین کا کام لیا۔ جب علماء دیکھتے کہ فوج چھاپے کے لیے آرہی ہے تو بچوں کو کھیتی باڑی کی طرف لگا دیتے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ان بچوں میں شیخ محمودآفندی ؒ بھی تھے۔

حالات اتنے زیادہ گھمبیر ہو چکے تھے کہ جس مسجد میں شیخ محمود رحمہ اللہ نے چالیس سال امامت کی وہاں پہلے اٹھارہ سال شیخ کے پیچھے نماز پڑھنے کی ہمت کوئی نہ کرسکا۔ حسنِ اتفاق دیکھیے کہ ہندوستان میں جب مسلمانوں پر سخت وقت آیا تو تب بھی درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے مدارج طے کرنے والے پہلے طالبعلم کا نام محمود تھا اور جب ترکی میں حالات ابتر ہوئے تب بھی پہلا شاگرد محمود تھا۔ شیخ محمود آفندی رحمۃ اللہ علیہ نے اسیر مالٹا، دارالعلوم دیوبند کے پہلے شاگرد مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی کسب فیض حاصل کیا۔

اپنی تصانیف میں علماء دیوبند کا فرط محبت میں اکثر ذکر فرماتے۔ دیوبند علماء سے بڑی محبت رکھتے تھے، پاکستان میں ان کے قریب سمجھے جانے والے علماء میں مولانا فضل الرحمٰن اور پیر ذوالفقار نقشبندی ہیں۔ بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو انھوں نے چودھویں صدی کا مجدد قرار دیا۔ حضرت آفندی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مقبول ترین ترکش تصنیف ''تفسیر روح البیان'' میں مجدد زمانہ، حکیم الامت، مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کو ''شیخ المشائخ'' کا لقب دیا عرب وعجب میں مقبول عام و خواص ''فضائل اعمال'' کے مؤلف شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کو''محدث اور علامہ'' لکھا ہے۔ شیخ آفندی کو 2013 میں ''امام محمد قاسم نانوتوی ایوارڈ '' سے بھی نوازا گیا۔

شیخ آفندی نے ترکی کے طول و ارض میں اسلام کی شمع روشن رکھی، ابتدا میں لوگوں کی نماز کی امامت کی اور اپنے گاؤں کی مسجد میں طلباء کو پڑھایا۔انھوں نے سال میں 3 ہفتے ترکی کے اطراف کا دعوتی و تبلیغی سفر کے لیے وقف کررکھے تھے ۔ انھوں نے جرمنی اور امریکا سمیت کئی ممالک کے دعوتی اور تعلیمی دورے کیے، پھر 1954 میں استنبول میں اسماعیل آغا مسجد کے امام مقرر ہوئے۔

1996 میں ریٹائر ہونے تک وہیں رہے، اور وہ استنبول میں درس و تبلیغ کرتے رہے اور بہت سے طلباء اور مسترشدین کو اپنی طرف متوجہ کرتے رہے، بلکہ سچ یہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد خود آپ کی طرف کشاں کشاں چلی آتی تھی۔ نتیجتاً ایک عظیم فکری وعملی منہج قائم کرنے میں وہ کامیاب رہے، جس کی بنیاد دعوت الی اللہ، احیاء سنت اور ریاستی حکام سمیت معاشرے کے تمام طبقات کے حق کی طرف رہنمائی تھی، انھوں نے ایسا اسلوب پیش کیا جس میں حق اور باطل میں واضح فرق قائم ہوجائے۔

اپنے اس سفر میں انھوں نے قید و بند کی سختیاں بھی برداشت کیں، اپنی جان کے خطرات بھی محسوس کیے لیکن کوئی شے ان کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ لا پائی، وہ صرف ایک اللہ سے ڈرنے والے تھے، اسی کے آگے جھکنے والے تھے۔ جدید ترکی، اور معاشرہ کی اصلاح میں آفندی رحمۃ اللہ علیہ کا بڑا اہم رول رہا ہے، ایسے وقت میں جبکہ ترکی دہریت کی دہلیز پار کرچکا تھا، اسلامی شعائر کو پامال کیا جارہا تھا، تب اس مردِ مصلح نے توحید واصلاح بلکہ اعلائے کلمۃ اللہ کی آوازکو بلند کیے رکھا۔ اسی وجہ سے انھیں بعض اہل علم ترکی کا مجدد بھی کہتے ہیں۔ آج ترکی کے یہ مجدد اللہ کے حضور پیش ہوچکے ہیں، لیکن ان کی علمی دینی خدمات اور لاکھوں مریدین امت کا سرمایہ ہیں، جسے کسی صورت فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ رب العزت ان کے درجات بلند فرمائے۔ (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔