جن اور سیلاب
آپ مغربی ممالک اور شمالی امریکا میں جائیں۔ سب سے پہلے آپ کو ان کی کم آبادی کا عنصر متاثر کرتا ہے۔
ولیم میتھیو امریکا میں کپڑے کا تاجر ہے۔ وہ کپڑے کی مختلف اقسام خریدنے کے لیے اکثر پاکستان آتا رہتا ہے۔1991ء سے فیصل آباد اور لاہور بار ہا آ چکا ہے۔ وہ پاکستان اور اس کے لوگوں سے شدید متاثر ہے۔ اُس کے بقول یہ لوگ غیر معمولی صلاحیت کے حامل ہیں۔ میری اُس سے ملاقات ایک دوست کے ذریعہ سے ہوئی جو کپڑے کے ملبوسات بناتا ہے۔ ولیم صرف ایک بات بار بار کہتا ہے، تمہارے ملک کا اصل مسئلہ ہے، (Too Many People) یعنی بہت زیادہ لوگ۔ اُس کا خیال ہے کہ پاکستان کی آبادی بہت زیادہ ہے اور بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اُس کے مطابق یہ بڑھائو غیر معمولی ہے۔ مجھے اس کے خیالات میں سچائی نظر آتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہماری تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہماری اقتصادی ترقی کے لیے زہر قاتل ہے اور ہمارے قومی وسائل کو تیزی سے ختم کر رہی ہے۔ اب میں اس کی فکر سے متفق ہوں کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے لیے اتنا ہی بڑا خطرہ ہے جتنا دہشت گردی اور فرقہ واریت۔ تقابلی نقصان کے مطابق یہ بالکل برابر درجہ کے نقصانات ہیں۔ میری دانست میں آبادی شائد دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ہے۔ تمام قوم اور سیاسی حکمران دہشت گردی سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے آمادہ ہیں اور ہم اس پر قابو پا لیں گے۔ اس کے برعکس تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے متعلق ادراک، فکر اور عملی اقدام نظر نہیں آتے۔ یہ بات تشویش ناک نہیں بلکہ کافی حد تک خوفناک ہے۔
آپ مغربی ممالک اور شمالی امریکا میں جائیں۔ سب سے پہلے آپ کو ان کی کم آبادی کا عنصر متاثر کرتا ہے۔ آپ سویڈن جائیں یقین فرمائیے کہ سوائے اسٹاک ہوم یا کچھ بڑے شہروں کے، جہاں پھر بھی مناسب آبادی ہے، دور دراز کے قصبے دیکھ کر آپ حیران رہ جاتے ہیں۔ لوگوں کی کم تعداد کی بدولت یہ ممالک بھر پور وسائل سے مالا مال ہیں۔ اسٹاک ہوم میں، ایک سویڈش پروفیسر نے لیکچر کے دوران بتایا کہ پاکستان اور کئی دیگر مسلمان ممالک کے ہزاروں لوگ یہاں آباد ہیں۔ ان کے خاندان کی شرح پیدائش عام سویڈش جوڑے کے مقابلے میں خوفناک حد تک برق رفتار ہے۔ معاشیات کے اس پروفیسر نے اس کی وجوہات پر تحقیق کر رکھی تھی۔ اس کے مطابق مسلمان ممالک کے اکثر لوگ ان کی سوسائٹی میں مالی خوشحالی حاصل نہیں کر سکے۔ زیادہ بچے پیدا کرنے سے ان کے خاندان کو حکومت ہر بچے کے تناسب سے مالی وظیفہ دیتی ہے یعنی جتنے زیادہ بچے ہونگے، اُسی لحاظ سے حکومت آپ کو زیادہ پیسے دیگی۔
مشرقی پاکستان میں آبادی کے بڑھنے کی شرح بہت زیادہ تھی۔ کئی بار یہ حقیقت طنز اور مذاق کا باعث بھی بنتی تھی۔ آج کے بنگلہ دیش نے جہاں صنعتی اعتبار سے بہت ترقی کی ہے وہاں اس نے اپنی آبادی کو کم کرنے رکھنے کے لیے تمام سائنسی طریقے استعمال کیے ہیں۔ اصل کارنامہ یہ ہے کہ ان کی تمام سیاسی پارٹیاں اس پالیسی پر مکمل متفق ہیں۔ کسی بھی سیاسی اختلافات میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ آبادی کے متعلق ان کی دور رس پالیسی کو تبدیل کر سکے۔ اگر آپ ان کی قومی کوشش پر نظر دوڑائیں تو آپ کو ہمارے ملک میں ایک قائم مفروضہ بھی دم توڑتا ملے گا۔ وہ یہ کہ دینی علماء خاندان منصوبہ بندی کے مکمل خلاف ہیں۔ بنگلہ دیش میں حکومتی سطح پر تمام علماء دین کو اس پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ مساجد کے منبر پر علماء دین پوری یکسوئی سے عام لوگوں کو قائل کرتے نظر آتے ہیں کہ آبادی کو کنٹرول کرنے کے سائنسی طریقوں کو اپنانے میں کوئی بھی چیز اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف نہیں ہے۔ علماء کا یہ طرز عمل نہ صرف مثالی ہے بلکہ ہمارے لیے قابل تقلید بھی ہے۔ بنگلہ دیش ہمارے ملک کا ہی حصہ تھا۔ وہ سیاسی شعور میں ہمیشہ سے اپنے مغربی حصے سے بہت آگے رہے ہیں۔ مگر اب مذہب کے حوالے سے ان میں بہت زیادہ پختگی آ چکی ہے۔
اب میں پاکستان کی طرف آتا ہوں۔ آج سے چار سال پہلے میں صوبائی سیکریٹری پاپولیشن ویلفیئر تھا۔ میرے ذہن میں ایک تجسس تھا کہ ہمارے دینی حلقے بڑھتی ہوئی آبادی کے متعلق کیا فکر رکھتے ہیں اور کن وجوہات کی بنیاد پر وہ آبادی پر کنٹرول کے خلاف ہیں۔ میں نے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک ورکشاپ کرنے کا فیصلہ کیا اور اُس میں مختلف مدرسوں کے طالب علموں کو مدعو کیا۔ اس کے علاوہ تمام تعلیمی اداروں سے چند طالبات اور طلباء کو بھی دعوت نامے بھجوائے۔ تمام مدارس اور اداروں سے چھ سو کے لگ بھگ بچے اور بچیاں تشریف لائے۔ میں نے مدارس کے طلباء اور دیگر اداروں کے بچوں اور بچیوں پر مختلف گروپ بنا دیے۔ کوشش کی کہ مدارس کے طلباء ہر گروپ میں بھر پُور تعداد میں موجو د ہوں۔ چھ سات گھنٹے کے بعد جب ان گروپوں نے اپنے مجموعی خیالات کا اظہار کیا تو سب لوگ حیران رہ گئے۔ کسی مدرسے کے طالب علم نے بڑھتی ہوئی آبادی کو پسند نہیں کیا۔ کسی دینی عالم نے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے جن کو قابو کرنے کی مخالفت نہیں کی۔ میں یہ واقعہ اس لیے بھی قلم بند کر رہا ہوں کہ ہم میں سے اکثریت مدارس کے طلباء اور طالبات کو جانے بغیر ایسے مفروضے قائم کر لیتے ہیں جو حقیقت کے بالکل برعکس ہیں۔ اس وقت کمی ہے تو صرف ایک ایسی شخصیت کی جو دینی اور مغربی درسگاہوں کی سوچ کے درمیان پُل کا کام سر انجام دے۔ یہ کام بظاہر مشکل معلوم ہوتا ہے مگر یہ ناممکن نہیں ہے۔
1947ء میں پاکستان کی آبادی تقریباً تین کروڑ تھی۔ اس میں مشرقی پاکستان بھی شامل تھا۔2010ء میں ہماری آبادی اٹھا رہ کروڑ سے بھی زیادہ تھی۔ اس اعتبار سے ہم دنیا میں چھٹے نمبر پر تھے۔ 2050ء میں ہماری آبادی تیس کروڑ ہو جائے گی۔ ہم وہ بدقسمت قوم ہیں جو سیاسی وجوہات کی بنا پر اپنے شہریوں کی گنتی تک نہیں کر سکتے۔ آج کسی کو بھی معلوم نہیں کہ پاکستان کی اصل آبادی کتنی ہے۔ ہمارا کام قیافے اور اندازے پر چل رہا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہماری ملک کی آج کی آبادی بیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ یہ صرف ایک اندازہ ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم مسلمان ممالک تو کیا اکثر افریقی ممالک سے بھی پسماندہ ہیں۔ ہر ملک کو اپنی عدوی تعداد کا مکمل اندازہ ہے اور وہ اسی بنیاد پر حکومتی پالیسیوں کو ترتیب دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جب ہمیں اپنی آبادی کا ہی علم نہیں تو ہم پالیسی سازی کے عمل کو کیسے ترتیب دینگے! عجیب بات ہے کہ ہم ڈرون تو بنا سکتے ہیں مگر اپنی آبادی کا قطعی تعین نہیں کر سکتے۔
1947ء میں ہر برس ہماری آبادی میں دس لاکھ بچوں کا اضافہ ہوتا تھا۔ 2013ء میں اب ہم صرف تین ماہ کی قلیل مدت میں اپنی آبادی میں دس لاکھ کا اضافہ کر لیتے ہیں۔ شروع میں ہماری آبادی کے بڑھنے کی شرح تین فیصد تھی جو کم ہو کر اب دو فیصد کے قریب ہے۔ اگر1960ء سے اب تک ہماری شرح صرف دو فیصد ہی رہتی تو آج پاکستان میں ہر شہری کی آمدنی ڈیڑھ لاکھ روپے سے زیادہ ہوتی۔ آج یہ آمدنی صرف اور صرف چالیس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یعنی اگر ہم کسی طریقے سے آبادی پر قابو پا لیتے تو ہمارے ملک میں غربت بہت کم ہو چکی ہوتی۔ آج ہم اپنے کچھ غریب شہریوں کو حکومتی اسکیموں کی بدولت ہزار سے پندرہ سو روپے کا ماہانہ وظیفہ دے رہے ہیں۔ دراصل ہم اپنے لوگوں کو بھکاری بنا رہے ہیں اور ان کی عزت نفس کو بے دردی سے کچل رہے ہیں۔
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ اس کا جائزہ لینا ضروری بھی ہے ۔ بلکہ میرا تو خیال ہے کہ پاکستان کے ہر شہری کو اس کا مکمل ادراک ہونا اشد لازم ہے۔ آپ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کو لے لیجیے۔ ہماری صنعت تیزی سے ترقی نہیں کر پا رہی۔ بے روزگاری کی شرح اس وقت تقریبا ًپانچ فیصد ہے۔ یہ کسی بھی اعتبار سے تسلی بخش نہیں۔ ہم اپنے بچوں کو بے روز گاری کی دلدل میں دھکیلتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ کسی گھر کو دیکھ لیجیے۔ ہر گھر میں کوئی نہ کوئی نوجوان بے روز گار نظر آئے گا۔ دفتروں کے چکر لگا لگا کر ان میں سے اکثر کے بال سفید ہو جاتے ہیں لیکن باعزت روز گار کا ہما اُن کے سر پر کبھی نہیں بیٹھتا۔ وہ بہت جلد نا امیدی اور یاس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مسلسل بے روزگاری سے جنم لینے والی ذہنی بیماریاں ہمارے ملک میں بالکل عام ہو چکی ہیں۔ اب آپ پانی کے مسئلے کی طرف آئیے۔ شروع میں ہمارے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ قدرتی پانی موجود تھا۔ ایک اندازہ کے مطابق ہر شخص کو پانچ ہزار کیوبک میٹر پانی مہیا تھا۔ اب یہ شرح تشویش ناک حد تک کم ہو کر بارہ سو کے قریب ہے۔ بہت جلد ہمارے پاس زراعت اور پینے کا پانی اپنی ضرورتوں سے بہت کم ہو گا۔ ہماری حکومتیں پانی کے نئے ذخائر بنانے میں مجرمانہ غفلت کا شکار رہی ہیں۔
آپ تعلیم کے شعبے کی بات ہی نہ کریں۔ہمارے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کا نظام بڑھتی ہوئی آبادی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوا ہے۔ہم ظالمانہ حد تک ان پڑھ لوگوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔مجھے تو ایسے لگتا ہے کہ حکومت شعوری طور پر ان پڑھ لوگوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔وجہ صرف ایک نظر آتی ہے کہ جذباتی اور بے مقصد نعروںسے انکو مسلسل بیوقوف بنایا جاسکے اور پھر اُس کا فائدہ اٹھا کر مسلسل حکومت کی جائے!لیکن وہ یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا جن اس قدر طاقت ور ہو چکا ہے کہ کسی بھی وقت کسی بھی حکومت کو غصہ کے سیلاب سے بے نشان کر سکتا ہے!تاریخ کا کوڑے دان اس امرکا بے رحم گواہ ہے!