دو پاکستان
اب اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اس دھرتی پر دو پاکستان آباد ہیں
RAWALPINDI:
گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں مختصر سا قافلہ جب ڈھائی ہزار کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کر کے اسلام آباد پہنچا، تو نیشنل پریس کلب کے دروازے بند کر دیے گئے۔ ایسا کیوں ہوا' اس پر متضاد آرا پائی جاتی ہیں' میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اگر کچھ تلخ باتیں یا معاملات تھے بھی تو اسے خوش اسلوبی سے حل کیا جانا چاہیے تھا تاکہ کوئی غلط مطلب نہ لیتا۔بہر حال سندھ سے پنجاب تک ہر شہر، ہر نگر میں عوام نے اس قافلے کا والہانہ استقبال کر کے ثابت کر دیا کہ اس ملک کے عام آدمی کا دل اپنے بلوچ بھائیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے اور وہ ان کے دکھ درد کو محسوس بھی کرتا ہے۔
اب اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اس دھرتی پر دو پاکستان آباد ہیں، ایک ان کروڑوں محنت کشوں، فاقہ مستوں اور مفلوک الحال انسانوں کا پاکستان، جو اپنی غربت اور کسمپرسی کے باوجود ہر موقع پر انسان نوازی کی نئی تاریخ رقم کرتے ہیں، کبھی کوئی قدرتی آفت آئے یا کھیل کے میدان میں کانٹے کا رن پڑے، تو وہ کراچی سے خیبر تک، بولان سے گلگت تک یک جان و یک قالب ہو جاتے ہیں۔ وہ دہشت گردی اور متشدد فرقہ واریت کا شکار ہوتے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پستے ہیں۔ حکمرانوں کی نااہلی، کرپشن اور اقربا پروری سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں، مگر شکوہ کرنے کے بجائے ہر حال میں اپنے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ دوسرا حکمرانوں، مراعات یافتہ طبقات اور مافیائوں کا پاکستان ہے۔ وہ پاکستان جہاں منافقت، بددیانتی، بے ایمانی اور بدکرداری کلچر بن چکی ہے۔ جہاں میرٹ اور شفافیت کا گلا گھونٹا جاتا ہے اور اقربا پروری اور بدعنوانی کو حق سمجھا جاتا ہے، جہاں ہر سماجی برائی خوبی کہلاتی ہے۔ جہاں امیر، امیر تر ہو رہا ہے اور غریب کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ چھوٹا سا پاکستان جو صرف 5 فیصد اشرافیہ پر مبنی ہے 95 فیصد پاکستان پر حاوی ہے۔
حکمران اشرافیہ، سول و ملٹری بیوروکریسی اور سرکار نواز دانشوروں کی ایک مخصوص کھیپ نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی اس ملک کو اس تصور ریاست سے الگ کر دیا، جو بانی پاکستان سمیت ہندی مسلمانوں کی اکثریت کی اجتماعی دانش کا حصہ تھا۔ اگر برصغیر کے مسلمان ایک تھیوکریٹک ریاست کے حامی ہوتے تو وہ ان جماعتوں کا ساتھ دیتے، جن کی قیادت راسخ العقیدہ علمائے اکرام پر مشتمل تھی اور جو جدید تصور ریاست کے مخالف تھے۔ اس کے برعکس انھوں نے اس شخص کو اپنا رہبر بنایا، جو عصری تعلیم سے آراستہ اور جدید طرز حیات کا حامل تھا۔ گزشتہ اظہاریے میں بھی لکھا تھا کہ چوہدری محمد علی کی قیادت میں سول بیوروکریسی کے ایک گروپ نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس کے جدید جمہوری تصور کے خلاف سازشوں کا آغاز کر دیا تھا۔ یہ ملک جسے 1940ء کی قرارداد لاہور کے نتیجے میں ایک وفاقی جمہوریہ بننا تھا، دانستہ تھیوکریٹک اور وحدانی ریاست بنانے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ مارچ 1949ء میں قرارداد مقاصد کی دستور ساز اسمبلی سے منظوری ہو یا ملک غلام محمد مرحوم کا گورنر جنرل بنایا جانا ہو، اسمبلیوں کی تحلیل ہو یا 1955ء میں ون یونٹ کا قیام، حکمرانوں اور بیوروکریسی کا ہر اقدام جمہوریت دشمنی پر مبنی اور اس خطے پر صدیوں سے آباد قوموں کی خودمختاری سلب کرنے کی سمت رواں تھا۔
سیاسی قیادتوں کی بے راہ روی اور فکری انتشار، سول و ملٹری بیوروکریسی کی اندرونِ خانہ سازشیں اور عالمی قوتوں کے مخصوص عزائم نے اس ملک کو نہ تیتر بنے دیا نہ بٹیر۔ آج بھانت کی بھانت کی آوازیں چہار سو اٹھتی ہیں، جس کے منہ جو جو آ رہا ہے، وہ کہے جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض حلقے بانی پاکستان کو بھی بنیاد پرست ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دراصل ہماری یہ نفسیات ہو گئی ہے کہ ہم سنتے کم اور بولتے زیادہ ہیں، عمل کم اور دعوے زیادہ۔ ابن صفی مرحوم نے اپنے ایک ناول میں لکھا تھا کہ ''دعوے ہمیشہ بزدل کیا کرتے ہیں، عملی لوگ دعوے نہیں، عمل کرتے ہیں۔'' ان کا کہا حرف بہ حرف سچ ثابت ہو رہا ہے، بلکہ ان کے ناولوں میں 30 سے 40 برس قبل جو منظرنامہ پیش کیا جا رہا ہے، وہ آج عملاً نظر آ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ ایک سچے اور دیدہ ور دانشور کی آنکھیں بہت پہلے رونما ہونے والے حالات و واقعات کا مشاہدہ کر لیتی ہیں۔
سندھ کے عظیم صوفی دانشور اور سیاسی رہنما سائیں جی ایم سید مرحوم نے 1952ء میں ویانا کانفرنس کے موقع پر پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے عالمی قوتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نومولود ملک کو جس راہ پر لگا رہی ہیں، اس کا انجام بہت بھیانک نکلے گا۔ حالات بتا رہے ہیں کہ یہ ملک جلد مذہبی شدت پسندی کی آماجگاہ بن جائے گا، جہاں غور و فکر اور سوچنے سمجھنے پر قدغن ہو گی۔ 60 برس قبل انھوں نے جو کچھ کہا، وہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی ایک عہد ساز شاعر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی چند برس انھوں نے لاہور میں گزارے ۔ وہ ہر بار اپنے دوست حمید اختر مرحوم سے کہا کرتے تھے کہ پاکستان کو جس انداز میں چلایا جا رہا ہے، اس پر بہت جلد مولوی قابض ہو جائیں گے، اس لیے میں واپس ہندوستان جانا چاہتا ہوں۔ مرحوم حمید اختر انھیں بہلاتے پھسلاتے رہے۔ لیکن ایک روز جب حمید اختر کراچی آئے ہوئے تھے، وہ خاموشی سے ممبئی چلے گئے۔ یہی کچھ کرنے پر قرۃ العین حیدر اور سجاد ظہیر بھی مجبور ہوئے۔ جوشؔ یہاں رہ گئے، مگر آخری عمر میں انھیں جو صدمے اٹھانا پڑے وہ ہر حساس قلب و ذہن کے لیے عبرت کا مقام ہیں۔
یہ خطہ جو آج پاکستان ہے، اس کی ایک عجیب و غریب نفسیات ہے۔ یعنی یہاں عوام و خواص وسط ایشیاء سے آنے والے ہر حملہ آور (Invaders) سے مرعوب رہتے ہیں، جب کہ اپنی دھرتی سے ابھرنے والے عظیم انسانوں کو نظر انداز کرنا معمول کی بات ہے۔ وہ چاہے ہزاروں برس پہلے آنے والے تاتاری ہوں یا سکندر یونانی۔ غزنی و غور سے اٹھنے والے طوفان ہوں یا ایران سے آنے والا احمد شاہ ابدالی ہو، جس نے دہلی سمیت مغلیہ سلطنت کے ہر شہر کو روند ڈالا۔ یہی کچھ حال ادب و شاعری کا ہے۔ اس سے بڑھ کر ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ سمرقند و بخارا کا پس منظر رکھنے والے شعرا ہماری آنکھوں کا تارا ہیں، لیکن اس مٹی سے ابھرنے والے ادیبوں اور شاعروں کو گھاس نہیں ڈالتے۔ خواہ وہ نظیرؔ اکبر آبادی ہو'خوشحال خان خٹک ہو یا بلھے شاہ سمیت اس مٹی سے اٹھنے والا کوئی اور ادیب و شاعر ہو۔ اسی طرح جو فکر و فلسفہ پہاڑی زبان کے شاعر میاں محمد بخش کے یہاں نظر آتا ہے، وہ کہیں اور کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مگر ہمارے لوگوں کی اکثریت میاں محمد بخش کے نام تک سے واقف نہیں۔
چند برس پہلے کچھ راسخ العقیدہ دانشوروں نے جہلم شہر میں سکندر یونانی کا Monument نصب کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس تجویز پر اس لیے عمل نہیں ہو سکا کہ اہل جہلم نے اس تجویز کی شدید مخالفت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ راجہ پورس کا Monument نصب کیا جائے، جو اس خطے کا عظیم فرزند اور جرأت مند حکمران تھا، جس نے شکست کھا جانے کے باوجود سکندر یونانی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ شدید عوامی ردعمل کی وجہ سے وہ تجویز تو سرد خانے میں چلی گئی، مگر دماغوں میں بھرے اس فتور کا کیا کیا جائے، جو ہمارے اہل دانش اور اکابرین کو حملہ آوروں کے گن گانے پر اکساتا رہتا ہے۔ ہماری آنکھیں آج بھی شمال مغرب سے اٹھنے والے ہر طوفان کے لیے فرشِ راہ ہونے کے لیے بیتاب رہتی ہیں۔ ہم ان کے ہر ظلم اور ہر ستم کو امرت اور ان کی سجائی قتل گاہوں کو پھولوں کی سیج سمجھتے ہیں۔
اس تناظر میں وزیر اعظم سے یہ توقع کرنا کہ وہ ماما قدیر کے چھوٹے سے قافلے کو اہمیت دیں گے، تو ایسا سوچنے والوں کو سادہ لوح ہی کہا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم اوروزیر داخلہ کی دلچسپی تو درہ خیبر کے اس پار موجود شدت پسندوں میں ہے، جو اس ملک کی اشرافیہ کا آئیڈیل ہیں۔ جن سے اس ملک کے بعض حلقے احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ درانی جیسے کردار کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں بلوچوں کی کیا اہمیت؟ ویسے بھی بلوچستان پر فوج کشی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ اسکندر مرزا سے پرویز مشرف تک کون سا ایسا حکمران ہے، جس نے بلوچوں پر بندوقیں نہ تانی ہوں۔ اس لیے ماما قدیر اب واپس چلے جائو، تمہارے لیے یہی بات سکون کا باعث ہونا چاہیے کہ اس ملک کے غریب، مفلوک الحال اور ننگے بھوکے عوام تمہارے ساتھ کھڑے ہیں۔ اشرافیہ تو ویسے بھی کبھی کسی کی نہیں ہوئی ہے۔
گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں مختصر سا قافلہ جب ڈھائی ہزار کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کر کے اسلام آباد پہنچا، تو نیشنل پریس کلب کے دروازے بند کر دیے گئے۔ ایسا کیوں ہوا' اس پر متضاد آرا پائی جاتی ہیں' میرے خیال میں ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اگر کچھ تلخ باتیں یا معاملات تھے بھی تو اسے خوش اسلوبی سے حل کیا جانا چاہیے تھا تاکہ کوئی غلط مطلب نہ لیتا۔بہر حال سندھ سے پنجاب تک ہر شہر، ہر نگر میں عوام نے اس قافلے کا والہانہ استقبال کر کے ثابت کر دیا کہ اس ملک کے عام آدمی کا دل اپنے بلوچ بھائیوں کے ساتھ دھڑکتا ہے اور وہ ان کے دکھ درد کو محسوس بھی کرتا ہے۔
اب اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اس دھرتی پر دو پاکستان آباد ہیں، ایک ان کروڑوں محنت کشوں، فاقہ مستوں اور مفلوک الحال انسانوں کا پاکستان، جو اپنی غربت اور کسمپرسی کے باوجود ہر موقع پر انسان نوازی کی نئی تاریخ رقم کرتے ہیں، کبھی کوئی قدرتی آفت آئے یا کھیل کے میدان میں کانٹے کا رن پڑے، تو وہ کراچی سے خیبر تک، بولان سے گلگت تک یک جان و یک قالب ہو جاتے ہیں۔ وہ دہشت گردی اور متشدد فرقہ واریت کا شکار ہوتے ہیں۔ مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پستے ہیں۔ حکمرانوں کی نااہلی، کرپشن اور اقربا پروری سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں، مگر شکوہ کرنے کے بجائے ہر حال میں اپنے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ دوسرا حکمرانوں، مراعات یافتہ طبقات اور مافیائوں کا پاکستان ہے۔ وہ پاکستان جہاں منافقت، بددیانتی، بے ایمانی اور بدکرداری کلچر بن چکی ہے۔ جہاں میرٹ اور شفافیت کا گلا گھونٹا جاتا ہے اور اقربا پروری اور بدعنوانی کو حق سمجھا جاتا ہے، جہاں ہر سماجی برائی خوبی کہلاتی ہے۔ جہاں امیر، امیر تر ہو رہا ہے اور غریب کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ چھوٹا سا پاکستان جو صرف 5 فیصد اشرافیہ پر مبنی ہے 95 فیصد پاکستان پر حاوی ہے۔
حکمران اشرافیہ، سول و ملٹری بیوروکریسی اور سرکار نواز دانشوروں کی ایک مخصوص کھیپ نے قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی اس ملک کو اس تصور ریاست سے الگ کر دیا، جو بانی پاکستان سمیت ہندی مسلمانوں کی اکثریت کی اجتماعی دانش کا حصہ تھا۔ اگر برصغیر کے مسلمان ایک تھیوکریٹک ریاست کے حامی ہوتے تو وہ ان جماعتوں کا ساتھ دیتے، جن کی قیادت راسخ العقیدہ علمائے اکرام پر مشتمل تھی اور جو جدید تصور ریاست کے مخالف تھے۔ اس کے برعکس انھوں نے اس شخص کو اپنا رہبر بنایا، جو عصری تعلیم سے آراستہ اور جدید طرز حیات کا حامل تھا۔ گزشتہ اظہاریے میں بھی لکھا تھا کہ چوہدری محمد علی کی قیادت میں سول بیوروکریسی کے ایک گروپ نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس کے جدید جمہوری تصور کے خلاف سازشوں کا آغاز کر دیا تھا۔ یہ ملک جسے 1940ء کی قرارداد لاہور کے نتیجے میں ایک وفاقی جمہوریہ بننا تھا، دانستہ تھیوکریٹک اور وحدانی ریاست بنانے کی کوششیں شروع کر دی گئیں۔ مارچ 1949ء میں قرارداد مقاصد کی دستور ساز اسمبلی سے منظوری ہو یا ملک غلام محمد مرحوم کا گورنر جنرل بنایا جانا ہو، اسمبلیوں کی تحلیل ہو یا 1955ء میں ون یونٹ کا قیام، حکمرانوں اور بیوروکریسی کا ہر اقدام جمہوریت دشمنی پر مبنی اور اس خطے پر صدیوں سے آباد قوموں کی خودمختاری سلب کرنے کی سمت رواں تھا۔
سیاسی قیادتوں کی بے راہ روی اور فکری انتشار، سول و ملٹری بیوروکریسی کی اندرونِ خانہ سازشیں اور عالمی قوتوں کے مخصوص عزائم نے اس ملک کو نہ تیتر بنے دیا نہ بٹیر۔ آج بھانت کی بھانت کی آوازیں چہار سو اٹھتی ہیں، جس کے منہ جو جو آ رہا ہے، وہ کہے جا رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض حلقے بانی پاکستان کو بھی بنیاد پرست ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دراصل ہماری یہ نفسیات ہو گئی ہے کہ ہم سنتے کم اور بولتے زیادہ ہیں، عمل کم اور دعوے زیادہ۔ ابن صفی مرحوم نے اپنے ایک ناول میں لکھا تھا کہ ''دعوے ہمیشہ بزدل کیا کرتے ہیں، عملی لوگ دعوے نہیں، عمل کرتے ہیں۔'' ان کا کہا حرف بہ حرف سچ ثابت ہو رہا ہے، بلکہ ان کے ناولوں میں 30 سے 40 برس قبل جو منظرنامہ پیش کیا جا رہا ہے، وہ آج عملاً نظر آ رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ کہ ایک سچے اور دیدہ ور دانشور کی آنکھیں بہت پہلے رونما ہونے والے حالات و واقعات کا مشاہدہ کر لیتی ہیں۔
سندھ کے عظیم صوفی دانشور اور سیاسی رہنما سائیں جی ایم سید مرحوم نے 1952ء میں ویانا کانفرنس کے موقع پر پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے عالمی قوتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ نومولود ملک کو جس راہ پر لگا رہی ہیں، اس کا انجام بہت بھیانک نکلے گا۔ حالات بتا رہے ہیں کہ یہ ملک جلد مذہبی شدت پسندی کی آماجگاہ بن جائے گا، جہاں غور و فکر اور سوچنے سمجھنے پر قدغن ہو گی۔ 60 برس قبل انھوں نے جو کچھ کہا، وہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی ایک عہد ساز شاعر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی چند برس انھوں نے لاہور میں گزارے ۔ وہ ہر بار اپنے دوست حمید اختر مرحوم سے کہا کرتے تھے کہ پاکستان کو جس انداز میں چلایا جا رہا ہے، اس پر بہت جلد مولوی قابض ہو جائیں گے، اس لیے میں واپس ہندوستان جانا چاہتا ہوں۔ مرحوم حمید اختر انھیں بہلاتے پھسلاتے رہے۔ لیکن ایک روز جب حمید اختر کراچی آئے ہوئے تھے، وہ خاموشی سے ممبئی چلے گئے۔ یہی کچھ کرنے پر قرۃ العین حیدر اور سجاد ظہیر بھی مجبور ہوئے۔ جوشؔ یہاں رہ گئے، مگر آخری عمر میں انھیں جو صدمے اٹھانا پڑے وہ ہر حساس قلب و ذہن کے لیے عبرت کا مقام ہیں۔
یہ خطہ جو آج پاکستان ہے، اس کی ایک عجیب و غریب نفسیات ہے۔ یعنی یہاں عوام و خواص وسط ایشیاء سے آنے والے ہر حملہ آور (Invaders) سے مرعوب رہتے ہیں، جب کہ اپنی دھرتی سے ابھرنے والے عظیم انسانوں کو نظر انداز کرنا معمول کی بات ہے۔ وہ چاہے ہزاروں برس پہلے آنے والے تاتاری ہوں یا سکندر یونانی۔ غزنی و غور سے اٹھنے والے طوفان ہوں یا ایران سے آنے والا احمد شاہ ابدالی ہو، جس نے دہلی سمیت مغلیہ سلطنت کے ہر شہر کو روند ڈالا۔ یہی کچھ حال ادب و شاعری کا ہے۔ اس سے بڑھ کر ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ سمرقند و بخارا کا پس منظر رکھنے والے شعرا ہماری آنکھوں کا تارا ہیں، لیکن اس مٹی سے ابھرنے والے ادیبوں اور شاعروں کو گھاس نہیں ڈالتے۔ خواہ وہ نظیرؔ اکبر آبادی ہو'خوشحال خان خٹک ہو یا بلھے شاہ سمیت اس مٹی سے اٹھنے والا کوئی اور ادیب و شاعر ہو۔ اسی طرح جو فکر و فلسفہ پہاڑی زبان کے شاعر میاں محمد بخش کے یہاں نظر آتا ہے، وہ کہیں اور کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مگر ہمارے لوگوں کی اکثریت میاں محمد بخش کے نام تک سے واقف نہیں۔
چند برس پہلے کچھ راسخ العقیدہ دانشوروں نے جہلم شہر میں سکندر یونانی کا Monument نصب کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس تجویز پر اس لیے عمل نہیں ہو سکا کہ اہل جہلم نے اس تجویز کی شدید مخالفت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ راجہ پورس کا Monument نصب کیا جائے، جو اس خطے کا عظیم فرزند اور جرأت مند حکمران تھا، جس نے شکست کھا جانے کے باوجود سکندر یونانی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ شدید عوامی ردعمل کی وجہ سے وہ تجویز تو سرد خانے میں چلی گئی، مگر دماغوں میں بھرے اس فتور کا کیا کیا جائے، جو ہمارے اہل دانش اور اکابرین کو حملہ آوروں کے گن گانے پر اکساتا رہتا ہے۔ ہماری آنکھیں آج بھی شمال مغرب سے اٹھنے والے ہر طوفان کے لیے فرشِ راہ ہونے کے لیے بیتاب رہتی ہیں۔ ہم ان کے ہر ظلم اور ہر ستم کو امرت اور ان کی سجائی قتل گاہوں کو پھولوں کی سیج سمجھتے ہیں۔
اس تناظر میں وزیر اعظم سے یہ توقع کرنا کہ وہ ماما قدیر کے چھوٹے سے قافلے کو اہمیت دیں گے، تو ایسا سوچنے والوں کو سادہ لوح ہی کہا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم اوروزیر داخلہ کی دلچسپی تو درہ خیبر کے اس پار موجود شدت پسندوں میں ہے، جو اس ملک کی اشرافیہ کا آئیڈیل ہیں۔ جن سے اس ملک کے بعض حلقے احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ درانی جیسے کردار کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں بلوچوں کی کیا اہمیت؟ ویسے بھی بلوچستان پر فوج کشی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ اسکندر مرزا سے پرویز مشرف تک کون سا ایسا حکمران ہے، جس نے بلوچوں پر بندوقیں نہ تانی ہوں۔ اس لیے ماما قدیر اب واپس چلے جائو، تمہارے لیے یہی بات سکون کا باعث ہونا چاہیے کہ اس ملک کے غریب، مفلوک الحال اور ننگے بھوکے عوام تمہارے ساتھ کھڑے ہیں۔ اشرافیہ تو ویسے بھی کبھی کسی کی نہیں ہوئی ہے۔