جیمز ویب خلائی دوربین کی ابتدائی تصاویر 12 جولائی کو جاری ہونگی
ابتدائی تصاویر 120 گھنٹوں کے مشاہدات پر مبنی ہیں
LOS ANGELES:
ناسا کی جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ جلد ہی کائنات کی اب تک کی سب سے زیادہ گہرائی کی عکس بند کی جانے والی تصاویر جلد جاری کر دی جائیں گی۔
10 ارب ڈالرز کی لاگت سے بنائی جانے والی یہ ٹیلی اسکوپ زمین سے 12 لاکھ کلومیٹر دور مدار میں کائنات کے ابتدائی وقتوں کا معائنہ کرنے کے لیے موجود ہے۔
ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بِل نیلسن کے مطابق اس سے قبل انسانیت نے اس سے آگے نہیں دیکھا اور ماہرین صرف یہ سمجھنا شروع کر رہے ہیں کہ یہ ٹیلی اسکوپ کیا کرسکتی ہے اور کیا کرے گی۔
20 سال کے عرصے میں بننے والی یہ ٹیلی اسکوپ ماضی میں جھانک کر بِگ بینگ کے بعد ہونے والے معاملات کو جاننے کی اور اس معمے کو سلجھانے کی کوشش کرے گی کہ ہم یہاں تک کیسے پہنچے۔
نیلسن کا کہنا تھا کہ ماہرین تاریخ ساز ڈیٹا حاصل کرنے کے مراحل کے وسط میں ہیں۔ ابتدائی تصاویر 120 گھنٹوں کے مشاہدات پر مبنی ہیں۔
ٹیلی اسکوپ کے متعلق یہ سوچنا کہ یہ ٹائم مشین ہے تھوڑا عجیب ہے لیکن یہ ایسے ہی کام کرے گی۔ خلاء میں فاصلے کی پیمائش یہ دیکھ کر کی جاتی ہے کہ روشنی کو سفر کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔
ناسا کے مطابق ہم سے قریب ترین ستارہ چار نوری سال کے فاصلے پر ہے لہٰذا جب ہم اس ستارے کو دیکھتے ہیں تو وہ آج کا ستارہ نہیں بلکہ چار سال پہلے کا ستارہ ہوتا ہے۔
ناسا کی جانب سے جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی ابتدائی تصاویر 12 جولائی کو پاکستانی وقت کے مطابق شام 7:30 بجے جاری کی جائیں گی۔
ناسا کی جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ جلد ہی کائنات کی اب تک کی سب سے زیادہ گہرائی کی عکس بند کی جانے والی تصاویر جلد جاری کر دی جائیں گی۔
10 ارب ڈالرز کی لاگت سے بنائی جانے والی یہ ٹیلی اسکوپ زمین سے 12 لاکھ کلومیٹر دور مدار میں کائنات کے ابتدائی وقتوں کا معائنہ کرنے کے لیے موجود ہے۔
ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بِل نیلسن کے مطابق اس سے قبل انسانیت نے اس سے آگے نہیں دیکھا اور ماہرین صرف یہ سمجھنا شروع کر رہے ہیں کہ یہ ٹیلی اسکوپ کیا کرسکتی ہے اور کیا کرے گی۔
20 سال کے عرصے میں بننے والی یہ ٹیلی اسکوپ ماضی میں جھانک کر بِگ بینگ کے بعد ہونے والے معاملات کو جاننے کی اور اس معمے کو سلجھانے کی کوشش کرے گی کہ ہم یہاں تک کیسے پہنچے۔
نیلسن کا کہنا تھا کہ ماہرین تاریخ ساز ڈیٹا حاصل کرنے کے مراحل کے وسط میں ہیں۔ ابتدائی تصاویر 120 گھنٹوں کے مشاہدات پر مبنی ہیں۔
ٹیلی اسکوپ کے متعلق یہ سوچنا کہ یہ ٹائم مشین ہے تھوڑا عجیب ہے لیکن یہ ایسے ہی کام کرے گی۔ خلاء میں فاصلے کی پیمائش یہ دیکھ کر کی جاتی ہے کہ روشنی کو سفر کرنے میں کتنا وقت لگتا ہے۔
ناسا کے مطابق ہم سے قریب ترین ستارہ چار نوری سال کے فاصلے پر ہے لہٰذا جب ہم اس ستارے کو دیکھتے ہیں تو وہ آج کا ستارہ نہیں بلکہ چار سال پہلے کا ستارہ ہوتا ہے۔
ناسا کی جانب سے جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی ابتدائی تصاویر 12 جولائی کو پاکستانی وقت کے مطابق شام 7:30 بجے جاری کی جائیں گی۔