کون چالاک کون سچا
صورت حال اس قدر غیر یقینی ہے کہ حکومت سمیت کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے
قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر داخلہ نے انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد کچہری کے واقعہ میں جاں بحق ہونے والے جج اپنے گارڈ کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ اس کی تفصیل بھی انھوں نے بیان کی کہ جج صاحب کس طرح اپنے ہی گارڈ کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ جب کہ جاں بحق ہونے والے جج کے سیکیورٹی گارڈ نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ اس نے ایڈیشنل جج کو قتل نہیں کیا اس حوالے سے اس پر عائد الزام بے بنیاد ہے۔ ملزم سیکیورٹی گارڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ بے گناہ ہے اور اس نے جج کو بچانے کی کوشش کی۔ اس نے جج پر نہیں دہشت گرد پر گولیاں چلائی تھیں۔
جب ایک سیکیورٹی ادارے کے سربراہ کہتے ہیں کہ اسلام آباد دہشت گردوں کے نرغے میں ہے تو حکومت کی طرف سے اس بیان کی بھرپور تردید کی جاتی ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اسلام آباد محفوظ شہر ہے تو ابھی چوبیس گھنٹے بھی گزرنے نہیں پاتے کہ اگلے روز اسلام آباد کچہری پر خود کش حملہ ہو جاتا ہے۔ 48 منٹ تک یہ خون خرابہ جاری رہتا ہے لیکن اسلام آباد پولیس کو اطلاع نہیں ہوتی جب کہ نزدیکی تھانہ پانچ منٹ کی مسافت پر ہے۔ جب اسلام آباد جیسے شہر کا یہ حال ہے جہاں حکمراں مقیم ہیں وہاں سیکیورٹی کا یہ عالم ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گردوں کی پہنچ سے ملک کا کوئی کونہ محفوظ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس صورت حال میں خدانخواستہ اگر پارلیمنٹ اور اسلام آباد میں دیگر اہم رہائش گاہوں پر حملہ ہو جاتا ہے تو پھر حکومت اور جمہوریت کا مستقبل کیا ہو گا۔ اگر قانون شکن گروہوں کی قوت کو توڑا نہ گیا تو شاید ہم ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قدم بہ قدم اسی منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس تمام پس منظر میں جب انڈین نیوی کے سربراہ چند لوگوں کی حادثاتی ہلاکت پر اپنے عہدے سے استعفی دے دیتے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں یہ روایت کب پروان چڑھے گی۔
صورت حال اس قدر غیر یقینی ہے کہ حکومت سمیت کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے۔ ان حالات میں وزیر دفاع کا انتہائی اہم غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کو دیا گیا انٹرویو سامنے آتا ہے۔ یہ مدنظر رہے کہ یہ بیان اسی دن سامنے آتا ہے جس دن کور کمانڈرز میٹنگ ہو رہی ہوتی ہے۔ اس میں وزیر دفاع کہتے ہیں کہ اگر طالبان نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی تو اسی ماہ فوجی آپریشن ہو سکتا ہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزی پر شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری اور قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔
اسلام آباد کچہری کا حملہ' کور کمانڈرز کانفرنس اوروفاقی وزیر دفاع کا بیان بہت سے پوشیدہ معاملات کو کسی حد تک ظاہر کر دیتا ہے۔ پس پردہ صورت حال خاصی پیچیدہ ہے۔ ممکن ہے کہ اعلیٰ حکومتی اہلکار بہت سی باتوں کو ابھی منظر عام پر نہیں لانا چاہتے ان کے ذہن میں کچھ نقشہ ضرور موجود ہے' مجھے یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ قبائلی علاقوں اور ملک کے دیگر حصوں میں بہت سے ایسے گروپ موجود ہیں جو طالبان کے کنٹرول سے باہر ہیں' ایسا لگتا ہے کہ طالبان کی قیادت بھی صورت حال سے خاصی پریشان ہے کیونکہ وہ جنگ بندی کا اعلان کر چکے ہیں' انھیں لازمی اس بات کا احساس ہو گا کہ ان دنوں ملک میں کوئی واردات ہو گی تو انھیں اس میں ملوث کرنا سب سے آسان طریقہ ہے اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اسلام آباد کچہری سانحہ پر طالبان نے لا تعلقی کا اعلان کیا ہے لیکن اس پر شک کا اظہار کیا جا رہا ہے' موجودہ صورت حال طالبان کے لیے سخت امتحان ہے اور ان کی کوشش ہو گی کہ وہ جنگ بندی کے اعلان پر پورا اتریں۔ وزیر دفاع نے کہا کہ طالبان کو حملے کرنے والے گروپس کی مذمت کرنا ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ طالبان کہتے ہیں کہ انھوں نے جنگ بندی کی خلاف ورزی نہیں کی اور ایسے گروپس ہمارے کنٹرول میں نہیں لیکن ہم اس پر یقین نہیں کر سکتے۔
یہ وہ صورت حال ہے جس کا طالبان کو بھی احساس ہے۔وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد پاکستانی سرحد سے ملنے والے افغانستان کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں افغان طالبان مضبوط ہوئے تو یہ ایسی صورت حال ہو گی کہ جس کے بارے میں سوچنے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا مطمع نظر خون خرابہ نہیں امن ہے لیکن اگر مذاکرات کا سلسلہ لمبا چلایا گیا اور اس کے ساتھ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہوئیں تو پھر ہم دیوار کے ساتھ لگ جائیں گے اور ہمارے پاس کون سا آپشن رہ جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ آیندہ مذاکراتی مرحلہ فوج کی انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہو گا۔ فوج کے پاس جو اہم معلومات ہیں وہ کسی دوسرے ادارے کے پاس نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ فوج ہی حکومت کو بتائے گی کہ حکومت کے پاس کیا آپشن ہیں۔ کس آپشن میں زیادہ نقصان ہے کس میں کم۔ انھوں نے کہا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو دوسرے آپشن میں فوج ہی کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھے۔ وزیر دفاع کے بیان میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ان کا بیان انتہائی متوازن اور امن کی خواہش سے لبریز ہے۔ وزیر دفاع کے بیان پر تنقید کرنے والوں کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ انھوں نے اس حساس موقعہ پر یہ بیان دے کر پاکستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ اب طالبان پر بھی فرض عائد ہو گیا ہے کہ وہ ایسے گروپوں کے خلاف کارروائی کریں جو جنگ بندی کے اعلان کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
حالات کس رخ پر جا رہے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عسکری حکام نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ اعلیٰ عسکری قیادت مشاورت کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ طالبان یا ان کے نمایندوں کے ساتھ مذاکرات میں براہ راست شامل ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اعلیٰ عسکری حکام نے بتایا کہ فوجی قیادت حکومت کی معاونت اور مشاورت کے لیے ہر وقت موجود ہو گی لیکن مذاکرات سیاسی قیادت ہی کرے۔ یہ ہے وہ صورت حال جس میں فریقین پھنسے ہوئے ہیں' اب کون چالاکی کر رہا ہے اور کون سچا ہے' اس کے بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا۔
موجودہ جنگ بندی کا مستقبل کیا ہے اس کا پتہ 14-13-12 سے 17مارچ کے درمیان چلے گا۔
سیل فون:0346-4527997