کس کے لیے

قائداعظم نے پاکستان بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ تعلیم پاکستان کے لیے زندگی یا موت کی وجہ بنے گی


Wajahat Ali Abbasi March 09, 2014
[email protected]

آج پاکستان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے تعلیم۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ غربت، تعلیم، قانون، معاشی بدحالی سب حل ہونا چاہیے، یہ تمام مسئلے اہم ہیں، لیکن درخت کی ٹہنی کاٹنے سے کچھ وقت کے لیے فرق نظر آئے گا لیکن وقت گزرتے وہی درخت اپنی شاخیں پھر نکال لیتا ہے، کسی بھی چیز کو پوری طرح ختم کرنے کے لیے اسے جڑ سے اکھاڑنا ہوتا ہے اور پاکستان میں برائیوں کو ختم کرنے کے لیے جو اوزار ہمیں اٹھانا ہے وہ ہے تعلیم۔

قائداعظم نے پاکستان بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ تعلیم پاکستان کے لیے زندگی یا موت کی وجہ بنے گی، اگر ہم نے تعلیم کو اہمیت نہیں دی تو ہم نہ صرف پیچھے رہ جائیں گے بلکہ دنیا سے مٹ بھی جائیں گے۔ قائداعظم کی بات سن کر ملک تو بنالیا مگر اسے چلانے کی جو سیکھ انھوں نے دی تھی اس پر عمل نہیں کیا، جو بھی حکومت آئی تعلیم اور اس کی ترقی کے لیے جو کرنا چاہیے تھا نہیں کیا۔

آج پاکستان تعلیمی اعتبار سے بیشتر ملکوں سے پیچھے ہے، جہاں دنیا کے دوسرے ملکوں کے بڑے شہروں میں ایوریج بنیادی انرولمنٹ 87 فیصد ہے وہیں پاکستان میں یہ نمبر صرف 56 فیصد ہے، اب کچھ برسوں سے اس اعداد و شمار میں اضافہ ہو رہا ہے، قانون میں تبدیلی کی گئی ہے اور اب تعلیم حاصل کرنا پاکستان میں بچے کا حق مانا جارہا ہے۔ حکومت پانچ سے سولہ سال تک کے بیچ عمر کے بچوں کو مفت لازمی تعلیم دے گی۔

پاکستان اس وقت دنیا کے ان ملکوں میں شمار ہوتا ہے جہاں تعلیم سب سے زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے، پچھلے پانچ سال میں شرح خواندگی پاکستان میں تیزی سے پھیلی ہے۔ یہ اچھی خبر ہے۔ پاکستان کے بڑھتے مسائل اور ان کے بین الاقوامی اثرات کو دیکھتے ہوئے یوکے، یو ایس جیسے ملکوں نے بھی پاکستان کو تعلیم کے سلسلے میں زیادہ امداد دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ یوکے ایڈ اس مد میں سو بلین روپے کی ایڈ دے رہی ہے، جس سے ان کے مطابق اگلے پانچ سال میں چار ملین بچوں کو اسکول جانے کی سہولت ملے گی۔ یو ایس اے بھی دس سال میں ایک بلین ڈالر سے زیادہ پاکستان میں تعلیم کی مد میں دے چکا ہے۔

اگر آپ انٹرنیٹ پر ''پاکستانی تعلیمی اسٹینڈرڈ'' لکھ کر سرچ کریں تو آپ کو ایک ایسی ڈاکومنٹری ویڈیو ملے گی جس میں ایک پاکستانی خاتون مختلف گورنمنٹ اسکولوں میں جاکر سوالات کر رہی ہیں جس کا جواب کوئی بھی نہیں دے پا رہا، ساتویں آٹھویں جماعت کے بچے ٹو پلس ٹو (2+2) اور ''سی فار کیٹ'' نہیں بتا پا رہے، نہ صرف یہ بلکہ اپنا پورا نام تک اردو میں نہیں لکھ پا رہے جب کہ ہم اس ویڈیو کے خلاف ہیں کیونکہ یہ دنیا بھر میں پاکستان کا مذاق بناتی ہے، اس کے باوجود یہ ایک کڑوا سچ ہے۔

پاکستان میں یقیناً تعلیم بڑھ رہی ہے لیکن اس تعلیم کے معیار کو جانچنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں۔ آج بھی ہمارے بچے جو پہلا فیڈرل یا بورڈ امتحان دیتے ہیں وہ کلاس نائنتھ (9th) میں ہوتے ہیں۔ وہ کلاس جہاں تک پہنچتے پہنچتے اس طالب علم کی جو بنیاد بھی بننی ہوتی ہے بن چکی ہوتی ہے۔ کسی بھی اسکول میں دوسری تیسری چوتھی جماعتوں میں جو معیار قائم کیے جا رہے ہیں اور ان پر کتنا عمل کیا جا رہا ہے صرف اسکول کے ٹیچرز اور عملے کی ذمے داری ہوتی ہے۔

پاکستان میں صرف 23 فیصد بچے پرائیویٹ اسکولوں میں جاتے ہیں، جہاں بھاری فیس دینے کی وجہ سے والدین بھی بچوں کی پڑھائی کے معیار پر نظر رکھتے ہیں لیکن پاکستان میں اکثریت کا حال کچھ اور ہے جہاں طالب علم ساتویں کلاس میں بھی طالب علم "C for Cat" نہیں بتا سکتے، اب اس میں غلطی کس کی ہے؟ غلطی ہے ہمارے ماضی کی، جس میں ایک برا طالب علم بھی جیسے تیسے ڈگری لے کر سفارش کے ذریعے ٹیچر بن گیا اور اب وہ ہماری اگلی نسل کو تعلیم کے نام پر دھوکا دے رہا ہے۔

اس وقت پاکستان کا ہر بہتر طالب علم پاکستان سے باہر جاکر تعلیم حاصل کرنے میں لگا ہوتا ہے اور جن کو ملک سے باہر جانے کا موقع مل جاتا ہے ان کے لیے واپس آکر ملک کی خدمت کرنے کی باتیں صرف باتیں ہی رہ جاتی ہیں ان پر عمل کوئی نہیں کرتا۔ پاکستان کو چاہیے ان نوجوانوں کو ملک واپس لانے کے لیے پرکشش مواقع پیدا کرے جو ملک سے باہر تعلیم مکمل کرچکے ہیں۔

آج سے دس سال پہلے انڈیا نے بھی یہی کیا تھا جتنے پیسے امریکا میں انڈین سافٹ ویئر انجینئرز کو ملتے تھے انھوں نے وہی ان کو انڈیا میں تنخواہ آفر کی، اب وہ لوگ امریکا میں پڑھتے، ایک آدھ سال تجربہ حاصل کرتے اور واپس انڈیا چلے جاتے، نتیجہ یہ ہوا کہ انڈیا کی آئی ٹی انڈسٹری پوری طرح جم گئی۔

ڈاکٹرز، وکیل، انجینئر اور ٹیچرز وغیرہ وہ لڑکے لڑکیاں ہیں جو پاکستان سے باہر گئے ہیں، اگر ان میں سے 20 فیصد بھی واپس ملک آجائیں اور اسی طرح کام کریں جس طرح باہر کر رہے ہیں تو یقین کریں کہ ملک میں جلد ہی بہتر بدلاؤ آسکتا ہے۔

آج کے تمام کامیاب ملکوں نے کبھی نہ کبھی دوسرے ملکوں سے سیکھ سیکھ کر کامیابی حاصل کی اور پاکستان کا اپنے ہی پاکستانیوں کے ذریعے ایسا کرنا غلط نہیں ہوگا۔

کچھ دن پہلے ایک پاکستانی نوجوان لڑکی فضا ملک انگلینڈ سے لاء پڑھ کر لاکھوں پاؤنڈ کے کیریئر کو چھوڑ کر پاکستان واپس آگئیں۔ وہ پاکستان کی خدمت کرنا چاہتی تھیں، وہ پاکستانی قانون کے مسائل کو اچھی طرح سمجھتی تھیں اور جانتی تھیں کہ ہزاروں لوگوں کو انصاف ملنے کے لیے بہتر سسٹم ہونا ضروری ہے جس کے لیے انھوں نے پاکستان آکر پہلا قدم اٹھایا۔ یہی ان کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی بن گئی۔

مارچ تین کو اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ کورٹ میں کچھ گن مین گھس گئے اور فائرنگ شروع کردی، پولیس نے انھیں گھیرے میں لے لیا اور جس کے بعد دو حملہ آوروں نے اپنے آپ کو بم سے اڑادیا۔

کورٹ میں گیارہ لوگوں کی موت ہوگئی جس میں فضا ملک بھی شامل تھیں، ساری امیدیں، سارے منصوبے، ساری محنت ایک لمحے میں ختم ہوگئی، دو دن ہوئے تھے فضا کو جاب شروع کیے لیکن سسٹم نے انھیں ختم کردیا۔

آج دنیا بھر میں پاکستان سے باہر رہنے والے نوجوان سوشل میڈیا پر ایک دوسرے سے فضا کے المیے کو شیئر کر رہے ہیں، وہ بتا رہے ہیں کہ اگر وہ پاکستان نہیں آنا چاہتے تو اپنی جگہ ٹھیک ہیں اور اس میں غلط کیا ہے؟ کس کے لیے آئیں وہ پاکستان؟ اس سوسائٹی کے لیے جو انھیں بنیادی تحفظ نہیں دے سکتی؟

فضا ایک شخص کی موت نہیں ان کئی مواقعوں کی موت ہے جس میں کوئی باہر رہنے والا پاکستانی باصلاحیت نوجوان وطن واپس آتا اور ملک کو بہتر بنانے میں مدد کرتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں