قانون سے تجاوز
حالیہ برسوں میں ایک روایت پڑچکی ہے کہ بہیمانہ قسم کے جرائم میں ملوث با اثر ملزمان کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آتا
تقریباً 20 سال پہلے کا واقعہ ہے، سڑک پر شور ہوا، بینک کے اندر موجود پولیس اہلکار اور شہری باہر کی طرف دوڑے جہاں ایک مرد اور عورت آپس میں جھگڑ رہے تھے، ان کے درمیان ہونے والے مکالمات سے ظاہر ہورہا تھا کہ دونوں میاں بیوی ہیں، مضبوط جسم کی حامل عورت اپنے دھان پان سے شوہر کی شرٹ مضبوطی سے پکڑے ہوئے اسے اور اس کے گھر والوں کو مغلظات بک رہی تھی، شوہر نیم برہنہ ہوچکا تھا، چپلیں اس کے پیروں سے نکل گئی تھیں، بیوی کی کھینچا تانی اور تھپڑوں سے بچنے کی کوششیں کرتا ہوا شوہر مسلسل کہے جارہا تھا کہ میرے کپڑے چھوڑو، گھر چلو، گھر میں بیٹھ کر بات کرو، دنیا کو تماشا کیوں دکھا رہی ہو، وغیرہ وغیرہ۔ میاں بیوی کے درمیان اس فری اسٹائل دنگل کے دوران ایک جم غفیر ان کے گرد حلقہ زن ہوچکا تھا۔ لیکن کسی میں ان کے درمیان مداخلت کی ہمت یا ارادہ نہ تھا بلکہ لوگ اس واقعے پر افسردگی یا مذمت کا اظہار کرنے کے بجائے مسکراہٹ اور قہقہوں کے ساتھ محظوظ ہورہے تھے۔ بینک سے نکلنے والے دو پولیس اہلکار جو بندوقوں سے مسلح تھے تمام واقعہ دیکھنے کے بعد طنزیہ قسم کا جملہ ادا کرتے ہوئے برانچ میں واپس آگئے۔
میاں بیوی یا خاندان کے دیگر افراد کے مابین معاملات اور خاص طور پر خواتین کے درمیان مار پیٹ اور جھگڑے کے موقع پر عام شہری تو دور کی بات ہے خود رشتے دار اور پڑوسی بھی کسی مداخلت سے باز رہتے ہیں۔ کیوں کہ خاندانی معاملات نفسیاتی اور جذباتی اعتبار سے بڑی حساس نوعیت کے ہوتے ہیں جن میں اکثر اوقات تنازعات سے زیادہ جذبات کو دخل حاصل ہوتا ہے۔ اگر ان جذبات کی خاص حکمت عملی سے تسکین ہوجائے تو پھر دیکھنے میں آتا ہے کہ وہی فریقین جو ایک دوسرے کی جان و عزت کے درپے ہوتے ہیں ایسی زندگی گزار دیتے ہیں کہ ہمہ وقت ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ بحیثیت وکیل اس قسم کے سیکڑوں معاملات ہماری نظروں سے گزرتے ہیں کہ ذرا سی کوششیں اور حکمت عملی سے خاندان تباہی و بربادی سے بچ کر خوش و خرم زندگی گزارنے لگتے ہیں اور تھوڑی سی بے احتیاطی سے خاندان اور آنے والی نسلیں بھی تباہی و بربادی سے دوچار ہوجاتی ہیں۔ صبر، برداشت اور رشتوں کا احترام اور سب سے زیادہ مصالحت کار بڑی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ قاضی، منصف، مصالحت یا تصفیہ کاروں پر اس سلسلے میں بڑی بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے، ان معاملات میں ان کی اہلیت، اخلاص، دانش مندی، دور اندیشی، غیر جانبداری، خدا خوفی اور رویہ کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ قرآن پاک میں حق کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والوں کو کافر، ظالم اور فاسق جیسے القابات سے نوازا گیا، منصفین کو یہ بات خاص طور پر پیش نظر رکھنا چاہیے۔
کراچی شہر میں رینجرز اہلکار کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے شوہر کا واقعہ بھی عدم برداشت، رشتوں کی بے وقعتی اور خود سری اور طاقت کے بے جا استعمال کا شاخسانہ نظر آتا ہے، جس میں ظلم و زیادتی کے عنصر نمایاں نظر آتے ہیں۔ چند ماہ پیشتر کی شادی، پھر پنچایت اور عدالت تک معاملات کی رسائی، سڑک پر فیصلے اور ریاستی ادارے کی طاقت کے بے جا استعمال کی خوفناک صورت حال کی غمازی کرتا ہے۔ ماورائے قانون طاقت کے بے جا استعمال کے پروان چڑھتے رجحان کی بیخ کنی اور تدارک کی ذمے داری خاص طور پر حکمرانوں اور منصفوں کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس سے قبل بلوچستان میں چیچن خواتین کا سفاکانہ قتل، کراچی میں اشارے پر نہ رکنے پر ٹیکسی ڈرائیور کا قتل، عین بارات کے موقع پر دلہا کی گرفتاری جس سے پورے شہر کا امن و امان اور نظام درہم برہم ہوگیا، ظلم و زیادتی اور ناقص حکمت عملی کی مثالیں ہیں۔ ملک اور خصوصاً کراچی شہر کی صورت حال میں حقیقتاً قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد بے انتہا خطرات، شدید ذہنی و اعصابی دبائو اور عدم تحفظ اور خوف کا شکار ہیں، جس کی بنا پر بعض سنگین غلطیوں کا ارتکاب بھی ممکن ہے لیکن ان میں موجود کچھ عناصر اس کی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد بھی حاصل کررہے ہیں۔ عوام بھی دہشت گردی، بھتہ خوری، قتل و غارت گری اور اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں سے عاجز آچکے ہیں، جس کے ردعمل میں ایسی وارداتوں میں ملوث پکڑے جانے والے افراد کو بے دردی سے تشدد کرکے ہلاک اور جلادیے جانے کے واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔
مقتول ذیشان کی اہلیہ کا بیان ہے کہ جائے وقوعہ پر بہت سارے لوگ موجود تھے کسی نے اسے نہیں بچایا جس پر رینجرز نے اس کے شوہر پر گولی چلائی۔ جب کہ رینجرز کے میجر کا بیان یہ ہے کہ شہریوں نے رینجرز اہلکار کو آگاہ کیا تھا کہ ایک شخص خاتون کو اغوا کرنے کی کوشش کر رہا ہے جس پر اہلکار نے تنبیہ کرنے کے لیے ہوائی فائر کیا، اسی دوران اچانک نوجوان نے اس اہلکار سے لڑنا شروع کردیا جس پر اہلکار نے دوبارہ فائر کردیا جس سے وہ ہلاک ہوا۔ دوسری جانب مذکورہ اہلکار نے عدالتی بیان میں بتایا کہ وہ مسجد کی چھت پر ڈیوٹی دے رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک عورت مدد کے لیے پکار رہی ہے، اس نے وارننگ دی لیکن مرد عورت کو نہیں چھوڑ رہا تھا، مسلسل تشدد کر رہا تھا جس پر اس نے مقتول کی ٹانگوں پر دو فائر کیے جس کی آواز سن کر وہ گرگیا اور گولی اس کے سینے میں لگ گئی اور یہ کہ اس نے اپنے فرائض اور عورت کے تحفظ میں گولی چلائی تھی۔ قتل کے اس اقدام میں بہت سے سوالات پنہاں ہیں اور بہت سے ابہام بھی پیدا کردیے گئے ہیں۔ جن کا فائدہ ملزمان کو پہنچتا ہے۔ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ اقدام قتل میں ملوث اہلکار اور واقعے کی چشم دید گواہ مقتول کی اہلیہ کے مفادات مشترک ہیں جسے متوفی کے لواحقین کو نظر انداز کرتے ہوئے مقدمہ کی مدعیہ بنانے کی کوششیں کی گئی تھیں، جسے عدالتی حکم کے ذریعے ناکام بنا دیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ رینجرز اہلکار چھت پر ڈیوٹی کررہا تھا یا سڑک پر تعینات تھا؟ اگر چھت پر تھا تو اتنے عجلتی اقدام کی کیا وجہ تھی، اس نے یہ معاملہ سڑک پر موجود دیگر اہلکاروں پر کیوں نہیں چھوڑا؟ موقع پر موجود افراد مقتول کے ساتھی اغواکار تھے یا علاقے کے باشندے تھے؟ بقول مقتول کی بیوی موقع پر موجود لوگوں نے اس کی مدد نہیں کی تو کیوں نہیں کی؟ مذکورہ اہلکار چھت پر تھا یا سڑک پر؟ دونوں صورت میں شہریوں کے جمع ہونے سے پہلے ہی معاملے کی نوعیت سے آگاہ ہوگیا ہوگا۔ پھر اس کے لیے اغوا کاروں اور شہریوں میں تمیز کرنے کی صلاحیت اور واقفیت بھی ہوگی۔ پھر مقتول کی تنبیہہ کے لیے ہوائی فائر اور پھر براہ راست گولی کا نشانہ بنانے کا اس کو کیا اختیار حاصل تھا؟ بقول اس کے، مقتول گولی کی آواز سن کر گرگیا جس سے گولی اس کے سینے میں پیوست ہوگئی، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مقتول کی گولی کی آواز سن کر گرنے کی رفتار گولی کی آواز اور رفتار دونوں سے تیز تھی؟ اگر یہ سب کچھ واقعتاً ایسا ہی ہوا تو موقع واردات پر موجود شہریوں کا اتنا سخت ردعمل سامنے کیوں آیا کہ انھوں نے املاک کو نقصان پہنچایا، جلائو گھیرائو کرکے مرکزی شاہراہ کو بند کردیا؟ اس واقعے پر پولیس کا رویہ سامنے آیا جب اس نے مقتول کے لواحقین کی طرف سے اس کی اہلیہ اور رینجرز اہلکار کو نامزد کرنے سے انکار کردیا۔ کئی گھنٹے انتظار کرانے کے بعد ان کا بیان پھاڑ کر تھانے سے باہر نکال دیا جس پر لواحقین احتجاجاً لاش سمیت مرکزی شاہراہ پر رکھ کر دوپہر سے رات گئے تک دھرنا دیے بیٹھے رہے۔ ایک عدالتی حکم پر ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔
حالیہ برسوں میں ایک روایت پڑچکی ہے کہ بہیمانہ قسم کے جرائم میں ملوث با اثر ملزمان کے خلاف قانون حرکت میں نہیں آتا بلکہ متعلقہ ادارے اور شخصیات ان کے دفاع اور وکالت میں جت جاتی ہیں، اگر ایسے میں عدالتیں بھی اپنا کردار ادا نہ کریں تو معاشرے میں مکمل تاریکی، ظلم کا راج اور جنگل کا قانون نافذ ہوجائے۔ صحت، تعلیم اور انصاف کے بنیادی اداروں میں سے اس وقت قانون و انصاف کا حصہ اور خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حالت اصلاح طلب اور فوری و ہنگامی نوعیت کے اقدامات کی متقاضی ہے، ان اداروں میں نگرانی اور احستاب کے موثر نظام سے ہی ان کی کارکردگی اور اہلیت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل یہ کہ یہ عوام کا اعتماد مکمل طور پر کھو بیٹھیں۔