لارڈ میکالے غلط نہیں تھا
آیئے ذرا میکالے صاحب اور ان کے ’’گناہوں‘‘ کا تجزیہ کرلیں
سیاسی باتیں ہر وقت ہوتی رہتی ہیں،آج ذرا مختلف موضوع چنا ہے۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے اور پاکستان کی تعلیمی نظام سے واسطہ پڑا ہے تو ایک بات تسلسل سے سن رہے ہیں کہ ہماری پسماندگی کی وجہ لارڈ میکالے کا مسلط کردہ نظام تعلیم ہے۔
کئی دفعہ ذہن میں سوال ابھرا کہ یہ لارڈ میکالے صاحب کون تھے اور انھوں نے ہماری قوم کو پسماندہ رکھنے کے لیے کون سی سازش کی تھی؟ کیا یہ سازش اتنی مضبوط تھی کہ ہم قیام پاکستان کے بعد پچھلے 75سال میں اس سازش کو ختم کرکے ایک بہتر نظام تعلیم نہ اپنا سکے؟ آخر ایک دن میکالے صاحب کا''ناقابل معافی گناہ'' ڈھونڈنے کی کو شش کی تو پتہ لگا کہ وہ اتنے بھی گناہگار نہیں تھے' جتنا ان پر الزام لگایا جاتا ہے۔
ہماری یہ قومی عادت بن گئی ہے کہ اپنی غلطیوں کا سہرا اکثر یہود و ہنود کے سر ڈالتے رہتے ہیں' اسی طرح نظام تعلیم میں خود کی پیدا کردہ خرابیوں کا سارا ملبہ لارڈ میکالے پر ڈال کر بری الذمہ ہونے کی کو شش کر رہے ہیں۔ آیئے ذرا میکالے صاحب اور ان کے ''گناہوں'' کا تجزیہ کرلیں۔
برطانوی سامراج نے ہندوستان پر تقریباً دو سو سال تک حکومت کی ہے 'اس عرصے میں چار انگریز اہلکار بہت زیادہ بدنام ہوئے ۔ لارڈ کلائیو' جس نے (1757) پلاسی کے میدان میں نواب سراج الدولہ اور اس کے فرانسیسی اتحادیوں کے خلاف فیصلہ کن فتح حاصل کرکے ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کی بنیاد رکھی 'جنرل ڈائر جس نے ایک مظاہرے کے دوران 1919 میں امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں فائرنگ سے سیکڑوں ہندوستانیوں کو مار دیا تھا۔ 'ماؤنٹ بیٹن جس کے دور میں ہندوستان کی تقسیم ہوئی اور تھامس میکالے جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس نے 1835میں ہندوستان میں ایسے نظام تعلیم کی وکالت کی'جس کے ذریعے ہندوستانیوں کی ایک ایسی کلاس پیدا کی جائے جو انگریز کے ایجنٹوں کا کردار ادا کرے۔
ان میں سے اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو جنرل ڈائر اور ماؤنٹ بیٹن کی بدنامی تو سچ ہے لیکن لارڈ میکالے کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس کو غلط طور پر مورد الزام قرار دیا گیا ہے 'یہ بہت ضروری ہے کہ میکالے کے بارے میں ذرا تفصیل سے تفتیش کی جائے اور محض سنی سنائی باتوں اور الزامات سے ان کے خلاف فیصلہ نہ دیا جائے۔عام ہندوستانیوں کے اندر میکالے کی تعلیم کے بارے میں مقالے (Minutes on Education) سے دو پیراگراف بہت اجاگر کیے گئے ہیں۔
''میں مشرقی علوم کے بارے میں ان کے عالموں کی رائے لیتا رہتا ہوں'اس بات پر سب متفق ہیں کہ یورپ کی کسی بھی اچھی لائبریری کے صرف ایک شیلف میں ہی ہندوستان کی تمام عربی اور ہندوستانی علوم کے لٹریچر سے بہتر علم موجود ہے ''اور اس سے بھی زیادہ بدنام زمانہ قول یہ ہے کہ '' ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ایک ایسا طبقہ پیدا کیا جائے جو ہمارے اور ان لاکھوں لوگوں کے درمیان ترجمان کا کردار ادا کر سکے جن پر ہم حکمرانی کر رہے ہیں'افراد کا ایسا طبقہ جو رنگ اور نسل سے ہندوستانی ہو لیکن کردار 'خیالات اور اخلاقی لحاظ سے انگریز ہو ''۔
ان اقوال کی بنیاد پر ان کے مخالفین نے ان پر یہ الزام لگایا کہ انھوں نے ہندوستان کے تعلیمی نظام کو تباہ کردیا اور ہندوستان میں مالدار اور غریب طبقوں کے درمیان خلیج کو وسیع کیا۔جنوبی ایشیاء کے بہت کم لوگوں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ لارڈ میکالے کا تحریر کردہ ہندوستان کی تعلیم کے نظام کے بارے میں مقالہ جس کو (Minutes on Indian Education) کہا جاتا ہے کیا چیز تھی اور کس کے بارے میں تھا ؟اگر اس ڈاکومنٹ پر نظر ڈالی جائے تو ایک بات واضح ہوتی ہے کہ ان اقوال کے باوجود جو اوپر دیے گئے ہیں 'میکالے ایک انتہائی صاف ذہن اوردور اندیش تجزیہ نگار تھے اور انھوں نے اپنی انتہائی بدنام رائے کو پیش کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کی۔ میکالے کے ''تعلیم کے بارے میں منٹس'' کا تعلق اس فنڈ کے بارے میں تھا جو برٹش انڈیاکی حکومت نے اپنے عوام کی علمی استعداد(Intellectual Improvements) بڑھانے کے لیے مختص کیا تھا ۔
مسئلہ یہ درپیش تھا کہ اس فنڈ کو کیسے بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے؟اور خاص کر یہ مسئلہ کہ تعلیمی نظام کے لیے بطور ذریعہ تعلیم کون سی زبان استعمال کی جائے؟یہاں پر لوگ فوراً نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں کہ میکالے نے ایک سامراجی حکمران کی طرح مقامی زبانوں کے بجائے انگریزی زبان کو بطور ذریعہ تعلیم اختیار کرنے کی سفارش کردی تھی ۔
یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط ہے کیونکہ مسئلہ یہ نہیں تھا' جب میکالے ہندوستان آیا تو ان کو'' کونسل برائے تعلیم '' کا صدر بنایا گیا'کونسل کے دس ممبر تھے اور وہ نظام تعلیم کے بارے میں تقسیم تھے' 5ممبران کی رائے تھی کہ طریقہ تعلیم کے لیے ان کلاسیکی زبانوں کو اختیار کیا جائے جو پہلے سے ہندوستان میں رائج تھیں'ان میں سنسکرت'عربی اور فارسی شامل تھیں'جو عام طور پر عوام میں زیادہ نہیں بولی جاتی تھیں' دیگر 5ممبران کا خیال تھا کہ ترقی کرنے کے لیے ذریعہ تعلیم انگریزی زبان ہونا چاہیے۔
اس مباحثے میں مقامی زبانوں (پنجابی' پشتو' سندھی'گجراتی'تامل' بنگالی' مہاراشٹری وغیرہ)کا ذکر ہی نہیں تھا ۔ میکالے کاووٹ فیصلہ کن (Casting vote) تھا اور انھوں نے اپنا ووٹ انگریزی زبان کو بطورذریعہ تعلیم اختیار کرنے کے حق میں استعمال کیا' اس مسئلہ پر کافی لمبی بحث ہوئی اور میکالے سے منسوب جملے جو اوپر دیے گئے ہیں' شاید اس بحث کے دوران بولے گئے ہیں۔ایک بات واضح ہے کہ ان کے بحث کی بنیاد بہت واضح ہے اور اس کا تجزیہ غیر جذباتی اور ٹھوس بنیادوں پر استوار ہے 'اس دلیل کی بنیاد کسی تعصب اور بے ایمانی پر مبنی نہیں ہے۔
میکالے کا خیال تھا کہ ہندوستان میں بولی جانے والی زبانیں اتنی ترقی یافتہ نہیں ہیںکہ ان میں اعلیٰ تعلیم دی جاسکے 'جن زبانوںکو ذریعہ تعلیم بنانے کے لیے بحث ہورہی تھی' ان میں ایک طرف عربی اور سنسکرت تھی اور دوسری طرف انگریزی تھی ۔میکالے نے صرف یہ سفارش کی تھی کہ ان زبانوں کو امداد نہ دی جائے جن کو لوگ خود بھی سیکھنا نہیں چاہتے۔
ان کی رائے تھی کہ ''عوام کو ہماری طرف سے رشوت اور ترغیب کے ذریعے کسی طرز تعلیم کو اختیار کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے ذریعہ تعلیم کا انتخاب ان کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے ''۔میکالے نے بنارس کے سنسکرت کالج اور دہلی کے اسلامی کالج کو بحال رکھنے کے حق میں رائے دی 'ان کا خیال تھا کہ مشرقی زبانوں کی ترقی اور ترویج کے لیے یہی دونوں ادارے کافی ہیں'اپنی رائے کے حق میں دلائل دینے کے لیے انھوں نے خود انگلینڈ میں زبان کی تاریخ پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے لکھا کہ!
''سب سے پہلے میںجس واقعہ کا ذکر کروںگا وہ مغربی اقوام میں پندرہویں صدی کے اواخر اور سولویں صدی کی ابتداء میں الفاظ کی از سر نو تشکیل (Revival) سے ہوئی 'اس وقت ہر وہ چیز جو پڑھنے کے قابل تھی وہ یا توقدیم یونانی یا قدیم رومن زبان میں تھی اگر ہمارے آبا و اجدد اد اسی طرح سوچتے اور عمل کرتے جس طرح آج کی کمیٹی کا عمل ہے۔
اگر وہ سیسرو (Cicero) (رومن سیاستدان' وکیل'سیاسی دانشور' فلاسفر 106 BC-43 BC) ) اور ٹیسیٹس (Tacitus)(رومن سلطنت کا سینیٹر اور تاریخ دان 56-117 AD))کی زبان کو نظر انداز کر دیتے، اگر وہ اپنی توجہ صرف اپنی سر زمین کی پرانی زبان کی طرف رکھتے، اگر وہ یونیورسٹیوں میں کچھ نہ سیکھتے اور نیا کچھ نہ چھاپتے 'بلکہ اپنا علم صرف اینگلو سیکسن داستانوں اور نارمن فرنچ کی رومانی داستانوں تک محدود رکھتے' تو کیا انگلینڈ اس شکل میں ہوتا جس میں آج ہے۔ مور (More) اور اسشام (Ascham) کے دور کے لوگوں کے لیے یونانی اور لاطینی زبانیں ایسی تھیں جیسے آج انگریزی زبان ہندوستانیوں کے لیے ہے''۔ میکالے کا باقی قصہ آیندہ ۔