گوادر چین اور سی پیک
عام پاکستانی کے لیے یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ چین پاکستان سے ناراض ہو سکتا ہے
ISLAMABAD:
پاک چین تعلقات کے حوالے سے پاکستان میں بہت بحث ہوتی ہے۔ ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم کچھ بھی کریں لیکن چین نے پاکستان کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔ لوگ اس بات پر نالاں نظر آتے ہیں کہ چین پاکستان کے ساتھ کیوں نہیں ہے۔
عام پاکستانی کے لیے یہ تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ چین پاکستان سے ناراض ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں BRICSکے اجلاس میں پاکستان کو مدعو کرنے پر بھی یہی رائے ہے کہ چین کے ہوتے ہوئے پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا، یہ کیسے ممکن ہے۔
لوگ یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ چین کی بھی مجبوریاں ہو سکتی ہیں۔ جیسے مذکورہ اجلاس میں بھارت کے ویٹو کرنے کے بعد چین کے پاس پاکستان کو زبردستی بلانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس فورم میں یہ طے ہے کہ اگر ایک بھی رکن کسی بھی ملک کی شرکت کو ویٹو کر دے گا تو اس ملک کو مدعو نہیں کیا جائے۔ بھارت کے ویٹو کے بعد کوئی آپشن نہیں تھا۔ اس لیے اس کو یہ رنگ دینا کہ پاک چین تعلقات میں خرابی ہے کوئی ٹھیک بات نہیں ہے۔
اپک چین تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارا عمومی رویہ یہی ہے کہ چین نے ہمارے لیے کیا کیا ہے۔ چین نے ہماری کیا مدد کی ہے۔ ہم کبھی اس نقطہ کا احاطہ کرنا ضروری نہیں سمجھتے کہ ہم نے چین کے لیے کیا کیا ہے۔ چین کی بھی پاکستان سے کچھ توقعات ہیں۔
دو ممالک کے درمیان تعلقات میں دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ تالی صرف ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، دونوں ہاتھوں کو ساتھ دینا ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ چین امریکا اور دوسرے ممالک کی طرح اختلافات اور ناراضی کا کھلم کھلا اظہار نہیں کرتا۔ وہ خاموش سفارتکاری پر یقین رکھتے ہیں اور دوستوں کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرتے۔
پاک چین تعلقات میں سی پیک کو اس وقت بنیادی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ پاک چین تعلقات میں معاشی تعاون کو بڑھانے کے لیے ہمیں سی پیک کو آگے لے کر جانا ہوگا۔ آج پاک چین تعلقات کہاں ہیں، اس کے لیے بھی ہمیں دیکھنا ہوگا کہ سی پیک کہاں کھڑا ہے۔ اگر سی پیک کی رفتار سست ہے تو پاک چین تعلقات میں سرد مہری ہے۔ اگر سی پیک کی رفتار تیز ہے تو پاک چین تعلقات میں بھی تیزی ہے۔ اس لیے سی پیک کو سمجھنا اور اس کے اہداف کو دیکھنا ضروری ہے۔ اسی سے پاک چین تعلقات کو سمجھا جا سکتا ہے۔
سی پیک میں گوادر کو ایک مرکزی اور بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ گوادر کے بغیر سی پیک کا کوئی تصور نہیں ہے۔ آج سی پیک اور گوادر منصوبے کی باتوں کو دو دہائیاں ہوچکی ہیں۔ لیکم ہم نہ تو گوادر کو فعال کرسکے ہیں اور نہ ہی سی پیک کے باقی منصوبے مکمل ہوئے ہیں۔
گوادر سنسان ہے اور سی پیک کے منصوبے التوا کا شکار ہیں۔ چین گوادر سے اپنا مال دنیا کو برآمد کرنا چاہتا ہے لیکن ہم نے گوادر کی بندر گاہ کا نظام تو چین کو دے دیا ہے لیکن چین ایک سنسان اور غیر فعال بندر گاہ کا کیا کرے۔ آج بھی گوادر کی وہی صورتحال ہے جو سنگا پور کو گوادر کا ٹھیکہ دینے کے بعد تھی لیکن چین تو گوادر کو چلانا چاہتا ہے لیکن ہم چین کی رفتار سے کام کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔
میں نے گزشتہ کالم میں لکھا ہے کہ جن کاموں کے لیے چین نے پیسے دے دیے ہیں، ہم وہ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بالخصوص گوادر کو فعال کرنے کے لیے جن منصوبوں کے لیے چین نے پیسے دیے ہیں ، ان میں سے کئی پر تو کام ہی شروع نہیں ہوا اور کئی سست روی کا شکار ہیں۔ چینی اہلکار بے بسی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ بول نہیں سکتے لیکن اگر آپ ان کو ملیں بات کریں تو ان کی بے بسی نظر آجاتی ہے۔
گوادر کو چین کی سرحد تک جوڑنے کے لیے کیا ہم نے نیٹ ورک مکمل کر لیا ہے؟ جواب ہوگا نہیں۔ میں نے M 8کے بارے لکھا ہے۔ مجھے چینی اہلکاروں نے کہا کہ گوادر کی بندر گاہ کیسے چل سکتی ہے جب تک گوادر کا پاکستان سے رابطہ نہیں ہوگا، کون پاگل گوادر کی بندر گاہ پر مال لائے گا، پھر اس کو واپس کراچی لے کر جائے گا۔
جہاں سے چین اور پاکستان کے دوسرے علاقوں میں جا سکے گا۔سڑک کے راستے کتنا مال آسکتا ہے؟ چین سے گوادر تک مال پہنچانے کے لیے ریل بنیادی ضرورت ہے۔ ML 1کے منصوبے میں تاخیر بھی چین کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ چین تو قرض اور مددد ہی دے سکتا ہے۔ اگر ہم خود ہی نہ بنائیں تو چین کیا کر سکتا ہے۔ چین خالی بندر گاہ کیا کیا کرے جب کہ گوادر تک مال پہنچانے کے لیے ہم کچھ کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔
چین نے گوادر کے بارے میں پاکستان کو ایک پلان بھی بنا کر دیا ہے۔ چین یہ پلان بنا کر دہی سکتا تھا ۔ عمل تو پاکستان نے ہی کرنا ہے۔ چین کی رائے میں پاکستان کو گوادر کو ایک خصوصی اکنامک ڈسٹرکٹ کا درجہ دینا چاہیے۔ اس خصوصی اکنامک ڈسٹرکٹ میں نظام چلانے کا ایک خود کار نظام ہونا چاہیے۔ چین اس ضمن میں ہانگ کانگ کی مثال دیتا ہے۔ ایک ملک میں دو نظام ہو سکتے ہیں۔
گوادر کو چلانے کے لیے بھی ہانگ کانگ جیسے ایک نظام کی ضرتورت ہے۔ ہانگ کانگ چین کی ملکیت ہے۔ لیکن وہاں ایک علیحدہ نظام ہے۔ اسی لیے گوادر کو چلانے کے لیے اسے خصوصی اکنامک ڈسٹرکٹ کا درجہ دیا جائے۔ جو وفاقی حکومت کے ماتحت ہو۔ لیکن پاکستان کے مخصوص حالات میں یہ ممکن نہیں ہے۔ بلوچستان حکومت گوادر کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتی ہے۔ لیکن گوادر کی کم آبادی کی وجہ سے وہاں پیسے لگانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ویسے تو یہ بات بھی حقیقت ہے کی بلوچستان حکومت کے پاس پہلے ہی پیسے کم ہیں۔ لیکن ان میں بھی اس کی گوادر پر توجہ اس سے بھی کم ہے۔ گوادر شہر کی پسماندگی گوادر پر عدم توجہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ گوادر کو خصوصی توجہ اور فنڈز کی ضرورت ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوگا۔ بلوچستان حکومت کہتی ہے کہ ہمیں پیسے دیے جائیں۔ کوئی براہ راست کیسے لگا سکتا ہے۔
گوادر کی رئیل اسٹیٹ کے بارے میں بہت سنتے ہیں۔ لیکن آپ یقین کریں اتنے برسوں میں وہاں ایک بھی ایسی رہاشی کالونی نہیں ہے جس کو عالمی معیار کا نہ سہی لاہور، کراچی کی اچھی رہائشی کالونیوں کے معیار کا کہا جا سکے۔ مقامی لوگوں نے زمینیں بیچ دی ہیں۔ سرمایہ کاروں نے خرید لی ہیں اور سب اچھے دنوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ کوئی ان کو یہ سمجھائے کہ آپ کام کریں گے تو اچھی دن آئیں گے، بیٹھے رہنے سے تو اچھے دن نہیں آسکتے، ساحل سمندر کی زمین سرکاری اداروں نے حاصل کر لی ہے۔ حالانکہ یہ ساری زمین گوادر کی ترقی کے لیے استعمال ہونی چاہیے تھی۔ ساحل سمندر پر گھر بھی سرکاری افسروں کے بن گئے ہیں، حالانکہ اس کی کوئی اکنامک یوٹیلٹی نہیں ہے۔
گوادر کا ماسٹر پلان آچکا ہے لیکن عمل کون کرے گا۔ ماسٹر پلان میں گوادر کو دبئی اور ہانگ کانگ بنانے کے لیے سب باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ آپ گوادر جائیں افسران اور حکومتی لوگ ماسٹر پلان کے بارے میں فخر سے بتاتے ہیں۔ لیکن اس پر عملدر ٓامد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ فنڈز نہیں ہیں۔ انفراا سٹرکچر نہیں ہے۔ یہی سننے کو ملتا ہے۔
اب تو مقامی لوگوں میں بھی ناامیدی نظر آتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آج تک سی پیک نے ہمیں کیا دیا ہے۔ وہ لوگ سی پیک کی کہانیاں سن سن کر تنگ آگئے ہیں۔ اب وہ کسی بات پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ سی پیک آئے گا، روزگار اور خوشحالی لائے گا۔ انھیں روزگار ملا ہے نہ خوشحالی آئی ہے۔ یہ کس کا قصور ہے؟ لیکن چین کو ابھی امید ہے۔ اسی لیے چین وہاں بیٹھا ہے۔ جب ان کی امید ٹوٹے گی تو وہ بھی چلے جائیں گے۔