علم نفسیات کیا ہے
نفسیات کی ایک اصطلاح حواس ہے جو حس کی جمع ہے
طلبا کی رہنمائی کے حوالے سے آج کا کالم ''علم نفسیات کیا ہے'' کے عنوان پر مبنی ہے۔ علم نفسیات انسان کی ذہنی کیفیت، رویہ، طرز عمل اور کردار کے مطالعہ کا نام ہے۔ آیئے! اصطلاحات کی مدد سے نفسیات کے مضمون کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نفسیات کی ایک اصطلاح حواس ہے جو حس کی جمع ہے۔ آنکھ، کان، ناک، زبان اور جلد ہمارے جسم کے اعضا ہیں، جن سے ہم دیکھتے، سنتے ہیں، سونگھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں یہ سب حواس کی مثالیں ہیں۔ ہم کان سے سنتے ہیں لیکن سننے والی آواز کو کوئی معنی نہیں دے سکتے تو یہ حواس ہے۔
جب حواس کو کوئی معنی دیے جائیں ، مثلاً آواز سن کر یہ فیصلہ کرنا کہ یہ بانسری کی آواز ہے ، اسے ادراک کا نام دیا جائے گا۔ ادراک میں چیزوں کا روبرو ہونا ضروری ہے اگر چیزیں روبرو نہ ہوں اور انھیں ذہن میں لایا جائے تو ادراک تصورات میں بدل جاتا ہے ، تصورات اگر بامعنی ہو تو خیال اور اگر بامعنی نہ ہو تو عکس کہلاتا ہے۔ وہ قوت جو ادراک اور تصورات سے حاصل شدہ علم پر اپنا ردعمل دیتی ہے اسے عقل و شعور کا نام دیا جاتا ہے۔
توجہ علم نفسیات کی ایک اہم اصطلاح ہے توجہ وہ ذہنی کیفیت ہے جو فرد کو کسی شے یا واقعے کی جانب راغب کرے اور مرکز شعور میں لائے۔ توجہ عارضی عمل ہے جب توجہ مستقل صورت اختیار کرے تو یہ عمل دلچسپی کہلاتا ہے۔ دلچسپی ایک قسم کی داخلی اور شعوری رغبت کا اظہار جو کسی محرک کے تحت پیدا ہوتا ہے یہ فرد کو کسی کام یا رد عمل کے لیے اکساتی ہے۔ فرد کا مخصوص انداز فکر اور طرز عمل Attitude یعنی رویہ کہلاتا ہے اگر انداز فکر مستقل ہو جائے اور اس میں کوئی تبدیلی نہ لائی جاسکے۔
اسے عقیدہ کہتے ہیں۔ مذہبی حوالے سے سماجی نظام میں کوئی بیان جو سچ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے عقیدہ کہلاتا ہے۔کسی عمل اور ردعمل میں ہم جو انداز اختیار کرتے ہیں وہ ہمارا طرز عمل Behaviour ہے انسان کا اپنے طرز عمل میں ایک ہی طرح کا انداز اختیار کرنا رجحان یا میلان کہلاتا ہے ، اگر طرز عمل استحکام حاصل کر لے تو کردار بن جاتا ہے۔ عضو کے ذریعے جو اطلاعات ہمارے دماغ تک جاتی ہیں اس کا اثر ہمارے اعصاب پر ہوتا ہے۔ اعصاب پر اثر پذیری کا نام احساس ہے اگر انسان کی یہ کیفیت خارجی ہے تو اسے محسوسات Feeling کا نام دیا جاتا ہے۔ احساس کے فوری اور شدید ردعمل کا نام ہیجان ہے۔ مثلاً ہم جب اپنے سامنے کوئی خوفناک چیز دیکھتے ہیں تو فوراً فرار کی راہ اختیار کرتے ہیں فرار ہیجانی کیفیت ہے۔
مزاج (موڈ) یہ بھی ایک ذہنی کیفیت ہے جو چند گھنٹوں یا چند دنوں تک رہتی ہے۔ یعنی غیر مستقل ہوتی ہے اگر کسی شخص کا مزاج زیادہ دیر تک رہے تو مزاج Temperament یعنی طبیعت میں ہو جاتا ہے۔ نفسیات کی ایک اصطلاح جذبات ہیں جذبات ہمارے اندرونی فطری اور نفسیاتی ردعمل کا اظہار ہے جو کسی خارجی شے سے متاثر ہو کر فرد کے کسی عمل یا ردعمل کی تحریک سے پیدا ہوتا ہے۔
غصہ ، محبت ، خوشی اس کی مثالیں ہیں۔ وہ ذہنی قوت جو متعلقہ سوچوں کو جمع کرتی ہے اور انھیں مربوط شکل دیتی ہے اس سے پہلے مقدمات بناتی ہے پھر نتائج پیش کردیتی ہے اسے تدبر و تفکر کہتے ہیں۔ حسی مواد واقعات اور تصورات کو تشکیل دینے کا عمل تخیل Image کہلاتا ہے جس میں معنویت کا پہلو نہیں ہوتا اگر اس میں معنویت کا پہلو بھی ہو تو اسے آئیڈیا کا نام دیا جاتا ہے۔ یعنی نظریہ کا نام دیا جاتا ہے۔ بغیر کسی شعوری کوشش کے کسی واقعے یا شے کے بارے میں علم ہو جانا وجدان کہلاتا ہے اسے چھٹی حس بھی کہتے ہیں۔
ذہن سوچنے کے عمل کا نام ہے بعض لوگ ذہن اور دماغ کو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں جو کہ غلط ہے ذہن شعوری اور لاشعوری کیفیات کا نام ہے جوکہ ایک غیر مادی شے ہے جب کہ دماغ کو ہم ذہن کا آلہ کا نام دے سکتے ہیں جس طرح ٹیلی وژن ایک آلہ ہے اور اس پر نمودار ہونے والی اسکرین کی مثال ذہن کی ہے۔وہم اور شک ادراک کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں ، مثلاً ہم کھونٹی پر لٹکے ہوئے کوٹ کو بھوت سمجھ لیں تو یہ التباس یعنی شک ہوگا لیکن بغیر کسی کوٹ یا کھونٹی کی موجودگی کے بھوت دیکھ لیں تو یہ وہم کہلائے گا۔ مذہبی تعلیمات کے مسخ ہو جانے سے وجود میں آنے والے عقائد اور طور طریقے توہمات کہلاتے ہیں۔
نیند کی آغوش میں جانے کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد ہمارے دماغ میں کچھ برقی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو ہماری دبی ہوئی خواہشات کو کوئی نہ کوئی شکل دیتی ہیں مثلاً ایک طالب علم بار بار کوشش کے باوجود امتحان میں ناکام ہو رہا ہے تو ممکن ہے کہ وہ نیند کی حالت میں یہ دیکھے کہ وہ پہاڑ پر چڑھنا چاہتا ہے لیکن واپس پھسل رہا ہے اس کو خواب کا نام دیا جاتا ہے۔ وہ صلاحیت جس کی بدولت انسان حقیقت کا فکری (عقلی) سطح پر تصورکرسکتا ہے شعور کہلاتا ہے۔
ہماری فطری خواہشات یا آسودہ خواہشات ختم نہیں ہوتیں بلکہ دماغ کے ایک گوشے میں پناہ گزیں ہوجاتی ہیں اس جگہ کو لاشعور کہتے ہیں۔ بعض اوقات شعور سے خارج ہونے والے بعض خیالات لاشعور میں پناہ گزیں نہیں ہوتے بلکہ دماغ کے کسی حصے میں پناہ گزیں ہوجاتے ہیں اسے تحت الشعورکہتے ہیں۔ مثلاً کوئی شے ہماری نظروں کے سامنے رکھی ہوتی ہے ، بعض اوقات ہمیں نظر نہیں آتی لیکن کچھ لمحے کے بعد نظر آجاتی ہے یہ تحت الشعور کی وجہ سے ہوتا ہے۔
علم نفسیات کی ایک اہم اصطلاح حافظہ بھی ہے ، حافظہ ایک ذہنی صلاحیت ہے جس کی بدولت ہم کسی شے یا نفس مضمون کو یاد رکھتے ہیں اور دوبارہ ذہن (شعور) میں لاسکتے ہیں ، اس صلاحیت کا نام حافظہ ہے۔ تکیہ کلام ، اعادہ ، رٹنا ، لقمہ بازی اس کی شکلیں ہیں۔ مشق ، قانون ، تلازم ، بحث و مباحثہ ، مطالعے کے ذریعے حافظے کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ہماری ذہنی کیفیت سے دوسری ذہنی کیفیت جڑی ہوئی ہے ، ایک ہی واقعہ دہرانے سے دوسرا مواد بھی یاد آجاتا ہے یعنی اس کیفیت کی وجہ سے ہم ایک خیال سے دوسرے تصور خیال تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔ اسے تلازم Association کہتے ہیں۔
بلا ارادہ کوشش سے انجام پانے والے افعال جن سے کوئی جاندار اپنے ماحول میں زندہ رہنے کی سعی کرتا ہے اسے جبلت کا نام دیا جاتا ہے۔ جبلت کو فطری رجحان بھی کہتے ہیں یہ پیدائشی ہوتی ہے۔ یعنی یہ تربیت کا نتیجہ نہیں ہوتی مثلاً انسان کا اپنا اور اپنی نسل کی بقا کا تحفظ ، بھوک ، پیاس ، جنسی تسکین ، خوراک کا حصول یہ سب عمل انسان جبلت کے زیر اثر کرتا ہے۔
جبلت کی ترقی یافتہ شکل کو فطرت کا نام دیا جاسکتا ہے مثلاً چیونٹیوں کا باہم اشتراک ، تنظیم ، مستقل بینی اور مقاصد کے حصول کے لیے ان کی لگن فطرت کی نشانیاں ہیں۔ایسے افعال جو شروع میں تو شعوری طور پر توجہ کی حالت میں کیے جاتے ہیں مگر بار بار کرنے کی وجہ سے ہمارے نظام عصبی کا حصہ بن جاتے ہیں ، اس کو عادت کہتے ہیں خصوصیات کا ایسا مجموعہ جو فرد کی انفرادیت اور کرداری رویوں کا تعین کرتا ہے اسے شخصیت کا نام دیا جاتا ہے۔
نفسیات کی ایک اصطلاح حواس ہے جو حس کی جمع ہے۔ آنکھ، کان، ناک، زبان اور جلد ہمارے جسم کے اعضا ہیں، جن سے ہم دیکھتے، سنتے ہیں، سونگھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں یہ سب حواس کی مثالیں ہیں۔ ہم کان سے سنتے ہیں لیکن سننے والی آواز کو کوئی معنی نہیں دے سکتے تو یہ حواس ہے۔
جب حواس کو کوئی معنی دیے جائیں ، مثلاً آواز سن کر یہ فیصلہ کرنا کہ یہ بانسری کی آواز ہے ، اسے ادراک کا نام دیا جائے گا۔ ادراک میں چیزوں کا روبرو ہونا ضروری ہے اگر چیزیں روبرو نہ ہوں اور انھیں ذہن میں لایا جائے تو ادراک تصورات میں بدل جاتا ہے ، تصورات اگر بامعنی ہو تو خیال اور اگر بامعنی نہ ہو تو عکس کہلاتا ہے۔ وہ قوت جو ادراک اور تصورات سے حاصل شدہ علم پر اپنا ردعمل دیتی ہے اسے عقل و شعور کا نام دیا جاتا ہے۔
توجہ علم نفسیات کی ایک اہم اصطلاح ہے توجہ وہ ذہنی کیفیت ہے جو فرد کو کسی شے یا واقعے کی جانب راغب کرے اور مرکز شعور میں لائے۔ توجہ عارضی عمل ہے جب توجہ مستقل صورت اختیار کرے تو یہ عمل دلچسپی کہلاتا ہے۔ دلچسپی ایک قسم کی داخلی اور شعوری رغبت کا اظہار جو کسی محرک کے تحت پیدا ہوتا ہے یہ فرد کو کسی کام یا رد عمل کے لیے اکساتی ہے۔ فرد کا مخصوص انداز فکر اور طرز عمل Attitude یعنی رویہ کہلاتا ہے اگر انداز فکر مستقل ہو جائے اور اس میں کوئی تبدیلی نہ لائی جاسکے۔
اسے عقیدہ کہتے ہیں۔ مذہبی حوالے سے سماجی نظام میں کوئی بیان جو سچ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے عقیدہ کہلاتا ہے۔کسی عمل اور ردعمل میں ہم جو انداز اختیار کرتے ہیں وہ ہمارا طرز عمل Behaviour ہے انسان کا اپنے طرز عمل میں ایک ہی طرح کا انداز اختیار کرنا رجحان یا میلان کہلاتا ہے ، اگر طرز عمل استحکام حاصل کر لے تو کردار بن جاتا ہے۔ عضو کے ذریعے جو اطلاعات ہمارے دماغ تک جاتی ہیں اس کا اثر ہمارے اعصاب پر ہوتا ہے۔ اعصاب پر اثر پذیری کا نام احساس ہے اگر انسان کی یہ کیفیت خارجی ہے تو اسے محسوسات Feeling کا نام دیا جاتا ہے۔ احساس کے فوری اور شدید ردعمل کا نام ہیجان ہے۔ مثلاً ہم جب اپنے سامنے کوئی خوفناک چیز دیکھتے ہیں تو فوراً فرار کی راہ اختیار کرتے ہیں فرار ہیجانی کیفیت ہے۔
مزاج (موڈ) یہ بھی ایک ذہنی کیفیت ہے جو چند گھنٹوں یا چند دنوں تک رہتی ہے۔ یعنی غیر مستقل ہوتی ہے اگر کسی شخص کا مزاج زیادہ دیر تک رہے تو مزاج Temperament یعنی طبیعت میں ہو جاتا ہے۔ نفسیات کی ایک اصطلاح جذبات ہیں جذبات ہمارے اندرونی فطری اور نفسیاتی ردعمل کا اظہار ہے جو کسی خارجی شے سے متاثر ہو کر فرد کے کسی عمل یا ردعمل کی تحریک سے پیدا ہوتا ہے۔
غصہ ، محبت ، خوشی اس کی مثالیں ہیں۔ وہ ذہنی قوت جو متعلقہ سوچوں کو جمع کرتی ہے اور انھیں مربوط شکل دیتی ہے اس سے پہلے مقدمات بناتی ہے پھر نتائج پیش کردیتی ہے اسے تدبر و تفکر کہتے ہیں۔ حسی مواد واقعات اور تصورات کو تشکیل دینے کا عمل تخیل Image کہلاتا ہے جس میں معنویت کا پہلو نہیں ہوتا اگر اس میں معنویت کا پہلو بھی ہو تو اسے آئیڈیا کا نام دیا جاتا ہے۔ یعنی نظریہ کا نام دیا جاتا ہے۔ بغیر کسی شعوری کوشش کے کسی واقعے یا شے کے بارے میں علم ہو جانا وجدان کہلاتا ہے اسے چھٹی حس بھی کہتے ہیں۔
ذہن سوچنے کے عمل کا نام ہے بعض لوگ ذہن اور دماغ کو ایک ہی معنی میں استعمال کرتے ہیں جو کہ غلط ہے ذہن شعوری اور لاشعوری کیفیات کا نام ہے جوکہ ایک غیر مادی شے ہے جب کہ دماغ کو ہم ذہن کا آلہ کا نام دے سکتے ہیں جس طرح ٹیلی وژن ایک آلہ ہے اور اس پر نمودار ہونے والی اسکرین کی مثال ذہن کی ہے۔وہم اور شک ادراک کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں ، مثلاً ہم کھونٹی پر لٹکے ہوئے کوٹ کو بھوت سمجھ لیں تو یہ التباس یعنی شک ہوگا لیکن بغیر کسی کوٹ یا کھونٹی کی موجودگی کے بھوت دیکھ لیں تو یہ وہم کہلائے گا۔ مذہبی تعلیمات کے مسخ ہو جانے سے وجود میں آنے والے عقائد اور طور طریقے توہمات کہلاتے ہیں۔
نیند کی آغوش میں جانے کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد ہمارے دماغ میں کچھ برقی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو ہماری دبی ہوئی خواہشات کو کوئی نہ کوئی شکل دیتی ہیں مثلاً ایک طالب علم بار بار کوشش کے باوجود امتحان میں ناکام ہو رہا ہے تو ممکن ہے کہ وہ نیند کی حالت میں یہ دیکھے کہ وہ پہاڑ پر چڑھنا چاہتا ہے لیکن واپس پھسل رہا ہے اس کو خواب کا نام دیا جاتا ہے۔ وہ صلاحیت جس کی بدولت انسان حقیقت کا فکری (عقلی) سطح پر تصورکرسکتا ہے شعور کہلاتا ہے۔
ہماری فطری خواہشات یا آسودہ خواہشات ختم نہیں ہوتیں بلکہ دماغ کے ایک گوشے میں پناہ گزیں ہوجاتی ہیں اس جگہ کو لاشعور کہتے ہیں۔ بعض اوقات شعور سے خارج ہونے والے بعض خیالات لاشعور میں پناہ گزیں نہیں ہوتے بلکہ دماغ کے کسی حصے میں پناہ گزیں ہوجاتے ہیں اسے تحت الشعورکہتے ہیں۔ مثلاً کوئی شے ہماری نظروں کے سامنے رکھی ہوتی ہے ، بعض اوقات ہمیں نظر نہیں آتی لیکن کچھ لمحے کے بعد نظر آجاتی ہے یہ تحت الشعور کی وجہ سے ہوتا ہے۔
علم نفسیات کی ایک اہم اصطلاح حافظہ بھی ہے ، حافظہ ایک ذہنی صلاحیت ہے جس کی بدولت ہم کسی شے یا نفس مضمون کو یاد رکھتے ہیں اور دوبارہ ذہن (شعور) میں لاسکتے ہیں ، اس صلاحیت کا نام حافظہ ہے۔ تکیہ کلام ، اعادہ ، رٹنا ، لقمہ بازی اس کی شکلیں ہیں۔ مشق ، قانون ، تلازم ، بحث و مباحثہ ، مطالعے کے ذریعے حافظے کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ہماری ذہنی کیفیت سے دوسری ذہنی کیفیت جڑی ہوئی ہے ، ایک ہی واقعہ دہرانے سے دوسرا مواد بھی یاد آجاتا ہے یعنی اس کیفیت کی وجہ سے ہم ایک خیال سے دوسرے تصور خیال تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں۔ اسے تلازم Association کہتے ہیں۔
بلا ارادہ کوشش سے انجام پانے والے افعال جن سے کوئی جاندار اپنے ماحول میں زندہ رہنے کی سعی کرتا ہے اسے جبلت کا نام دیا جاتا ہے۔ جبلت کو فطری رجحان بھی کہتے ہیں یہ پیدائشی ہوتی ہے۔ یعنی یہ تربیت کا نتیجہ نہیں ہوتی مثلاً انسان کا اپنا اور اپنی نسل کی بقا کا تحفظ ، بھوک ، پیاس ، جنسی تسکین ، خوراک کا حصول یہ سب عمل انسان جبلت کے زیر اثر کرتا ہے۔
جبلت کی ترقی یافتہ شکل کو فطرت کا نام دیا جاسکتا ہے مثلاً چیونٹیوں کا باہم اشتراک ، تنظیم ، مستقل بینی اور مقاصد کے حصول کے لیے ان کی لگن فطرت کی نشانیاں ہیں۔ایسے افعال جو شروع میں تو شعوری طور پر توجہ کی حالت میں کیے جاتے ہیں مگر بار بار کرنے کی وجہ سے ہمارے نظام عصبی کا حصہ بن جاتے ہیں ، اس کو عادت کہتے ہیں خصوصیات کا ایسا مجموعہ جو فرد کی انفرادیت اور کرداری رویوں کا تعین کرتا ہے اسے شخصیت کا نام دیا جاتا ہے۔