ہم سب ولجین ہیں

وکٹر ہیوگو نے اپنے شاہکار ناول "Les Miscrables" میں بنی نوع انسان کے سب سے بڑے مسئلے بھوک اور غربت کو پیش کیا ۔


Aftab Ahmed Khanzada July 01, 2022
[email protected]

پیرس کی تاریخ کا شاید یہ سب سے بڑا فیسٹیول تھا جوکسی زندہ آدمی کے اعزاز میں منعقد کیا گیا۔

یہ1881 کا واقعہ ہے۔ تقریبات کا آغاز 25 فروری کو ہوا اور تین دن تک جاری رہا۔ 27 فروری کو فرانس کی تاریخ کی سب سے بڑی پریڈ کا اہتمام کیا گیا۔ شہر کے مختلف حصوں سے لوگ مارچ کرتے ہوئے پیرس کے مرکزی حصے میں جمع ہوئے اور پھر ایک بڑے ہجوم کی شکل میں ایک خاص ترتیب میں قدم ملاتے ہوئے اس کے گھرکی طرف بڑھنے لگے۔ آج اس عظیم مقبول ترین شخصیت کی79 ویں سالگرہ ہے لوگوں کا ہجوم اس کی کھڑکی کے سامنے سے 6 گھنٹے تک گزرتا رہا۔ پریڈ میں شامل لوگوں نے اپنے سینوں پر وہ پھول لگایا ہوا تھا جو اس کے ایک کردار Cosette کو بہت پسند تھا اور یہ پھول Corn Flower تھا وہ چھ گھنٹے کھڑکی میں بیٹھا رہا ، لوگوں کے عقیدت بھر ے سلام کا جواب دیتا رہا ، لوگ نعرے لگا کر اپنی محبت کا اظہار کرتے رہے۔

22 مئی1885میں اچانک اس کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور وہ فوت ہوگیا ، 20 لاکھ لوگوں نے اس کی آخری رسومات میں شرکت کی ، اسے Pantheon کے قبرستان میں الیگزینڈر ڈیومس اور ایمل زولا کے پہلو میں دفنا دیا گیا۔ اس مقبول ترین شخصیت کا نام وکٹر ہیوگو تھا ، جو فرانس کا سب سے بڑا شاعر ، ناول نگار ، ڈراما نویس ، جمہوریت پسند ، سیاسی شخصیت ، فلاحی کارکن اور رومانوی تحریک کا سر گرم رکن بلکہ جان مانا جاتا ہے۔

وکٹر ہیوگو نے اپنے شاہکار ناول "Les Miscrables" جواس نے17سال میں مکمل کیا ، میں بنی نوع انسان کے سب سے بڑے مسئلے بھوک اور غربت کو پیش کیا ۔ ناانصافیوں کی طرف اشارہ کیا ہے بھوک ، پیاس کے ہاتھوں دم توڑتی عوام کا دکھ بیان کیا ہے۔ اس ناول کا مرکزی کردار ولجین ، ایک فرانسیسی نادار انسان ہے یہ وہ انسان ہے جو دنیا کے ہر خطے ہر شہر اور ہر گاؤں میں بستا ہے۔

ولجین غریب ہے اور شرافت کی زندگی بسرکرنا چاہتا ہے ، وہ محنتی ہے سادہ دل ہے ، قانون کا احترام کرتا ہے لیکن وہ جس سماجی اور معاشی نظام میں زندہ ہے ، اس میں اس کی تمام تر کوششوں ، ذلتوں اور ناکامیوں کے باوجود روٹی نہیں ملتی کہ وہ اپنا اور اپنے بھوکے بچوں یا اپنی بہن کا پیٹ پال سکے۔ اسے کام سے ہرگز عار نہیں ہے وہ چھوٹے سے چھوٹا اور حقیر سے حقیرکام بھی کرنے کے لیے تیار ہے ، لیکن اسے کام نہیں ملتا اور وہ آخرکب تک اپنے کسی معصوم بچے کو بھوک سے بلبلاتے اور اپنی بہن کو بیماری میں سسکتے دیکھ سکتا ہے۔ جب سماج ایسا ہو نظام اتنا مکروہ ہو تو پھر انسان مجبور ہوجاتا ہے۔

اسی مجبوری میں ولجین روٹی چراتا ہے اور پکڑا جاتا ہے اس کے بعد اس کی بہن کی دیکھ بھال کرنیوالا کوئی نہیں۔ اسے روٹی چرانے کے جرم میں سخت سزا دی جاتی ہے ، وہ جیل سے بھاگ جانے کی کو شش کرتا ہے ناکام رہتا ہے جس پر اس کی سزا میں اور اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ، لیکن بالاخر وہ بھاگ جانے میں کامیاب ہو ہی جاتا ہے۔ جیل سے فرار ہوتے ہی اب اس کا اور پولیس کا تعاقب شروع ہو جاتا ہے۔

سماج قانون اور اخلاق یہ تک سوچنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ اس نے آخر روٹی کیوں چرائی تھی؟ پورا نظام یہ ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں کہ ایک انسان کو روٹی مل سکے۔ ولجین اب ایک دہشت کی طرح ہے ، لوگ اس کے فرارکی خبر سن کر خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی جائے پنا ہ نہیں۔ وہ جاگیردار کے کتوں کی کوٹری میں سونے کی کوشش کرتا ہے اور نکال دیا جاتا ہے۔

ایک پادری اسے اپنے ہاں رات گزارنے کی اجازت دیتا ہے اور وہ اسی پادری کے سونے کے شمع دان چرا کر بھاگ نکلتا ہے لیکن یہ ہی پادری اس کی زندگی بدل دیتا ہے ،کیونکہ ولجین جب مسروقہ اشیاء کے ساتھ پکڑ کر پادری کے سامنے لایا جاتا ہے تو پادری کہتا ہے ، یہ شمع دان اس نے ولجین کو تحفے میں دیے تھے ، پادری کے اس حسن سلوک کی وجہ سے نیک بننے ، پرسکون زندگی گذارنے، دوسرے انسانوں کے کام آنے پرانی خواہش ولجین کے دل میں پیدا ہوجاتی ہے وہ ان شمع دانوں کو بیچ کر ظروف سازی کا کارخانہ لگاتا ہے اور اپنی کھوئی ہوئی بہن کی تلاش میں نکلتا ہے ، جس پر زمانہ اتنے ستم ڈھا چکا ہے کہ جس کی تفصیل ہماری زندگیوں اور سماج کے لیے اجنبی نہیں۔ اپنی نیکی ، خدا ترسی اور انسان دوستی کی وجہ سے وہ انتہائی شہرت حاصل کرتا ہے ، اب سماج اسے عزت دیتا ہے اور وہ شہرکا میئر چن لیا جاتا ہے۔ قانون جو اس کی تلاش میں تھا ، ایک دن اس تک پہنچ ہی جاتا ہے۔

ناول میں انسپکٹر جیورٹ کا کردار بھی یادگارکرداروں میں سے ایک ہے ، وہ انسپکٹر ولجین کی انسانی عظمت سے اتنا متاثر ہوتا ہے کہ اسے گرفتار کرنے کے بجائے خود کشی کر لیتا ہے۔ یہ ناول جب سے لکھا گیا ہے تب سے اب تک زندہ ہے۔ ولجین دنیا کے ہر خطے میں پایا جاتا ہے۔

کہیں اس کی تعداد سیکڑوں، کہیں ہزاروں ،کہیں لاکھوں اور کہیں کروڑوں میں ہے۔ دنیا بھر میں اس کی سب سے بڑی تعداد پاکستان میں پائی جاتی ہے جہاں وہ تعداد میں 22 کروڑ ہیں یہ 22کروڑ ولجین کہنے ، سننے اور دیکھنے میں تو انسان ہیں لیکن اصل میں یہ سب مُردوں سے زیادہ بد ترین حالت میں ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ ملک کے چند ہزار امیر و کبیر تو انھیں انسان تک تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ سب پیدا ہونے سے لے کر قبر تک گندگیوں میں رہتے ہیں اور گندگیاں ہی کھاتے رہتے ہیں۔ شاید ہی کبھی انھوں نے پیٹ بھرکر روٹی کھائی ہو آپ کو جا بجا آسانی سے مفلسی ، بیماریوں ، بھوک اور غلاظت کے ڈھیروں پر مرتے ہمارے ولجین مل جائیں گے ، جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

یہ سب ولجین غیر ضروری انسان ہیں ، غیر ضروری انسان ہونا کینسر ، ایڈز اورکوڑھ سے زیادہ بد ترین بیماری ہے ۔ دنیا بھر کی تمام غلاظتیں ، ذلتیں، رسوائیاں ، بھوک ان کی زندگی میں زبردستی داخل کردی گئی ہیں ۔ یہ آپ کو چیتھڑوں میں لپٹے بیمار ، بھوکے ، بد حواس انسان بے مقصد سڑکوں ، محلوں اور گلیوں میں پھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ انھیں بے وقت ، بے موت ، بغیر جرم و گناہ کے قبروں میں زبردستی لٹایا جا رہا ہے۔ ہر روز اخبارات ، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا ان کی دکھ بھری ، اذیت ناک خبروں اور تصاویر سے بھر ے پڑے ہوتے ہیں۔

ولیم شکیسپئر کہتا ہے '' کچھ نہیں رہتا ، سب کچھ بدل جاتا ہے یا چلا جاتاہے۔'' ہمارے سماج کے یہ اندھے ، بہرے ، عقل سے پیدل ، دولت جمع کرنے کی بیماری میں مبتلا ، نوٹوں اور ہیروں کی کوڑھ میں گرفتار ، ہر قسم کے عذابوں میں جکڑے یہ امیر وکبیر ولیم شیکسپئر کہے گئے اتنے آسان سے سچ کو ماننے اور اسے تسلیم کرنے کو تیارکیوں نہیں ہیں۔ کیونکہ انھوں نے اپنی زندگیاں اس قدر عذاب میں مبتلا کی ہوئی ہیں ؟ انھیں اپنی سوچ ، خیالات اور عمل پرگھن کیوں نہیں آتی ہے ؟کیوں انھوں نے اپنے ہی جیسے معصوم انسانوں کی زندگیاں دوزخ بنا رکھی ہیں ؟ کیوں انھیں اس قدر مہنگائی ، غربت ، بھوک اور افلاس میں مبتلا کیا ہوا ہے ؟

کیوں انھیں اپنے آپ پر اور اپنے ہی جیسے انسانوں پر ترس نہیں آتا ہے؟ تھامس ایڈیسن بالکل صحیح کہتا ہے '' انسان غور و فکر کرنے کی تکلیف سے بچنے کے لیے ہر قسم کے پاپڑ بیلتا ہے۔'' عظیم صوفی شاعر بھگت کبیر کہتا تھا کہ '' تمہارا محبوب تمہارے اندر ہے اور تمہارا دشمن بھی تمہارے اندر ہے لگتا ہے یہ سب اپنے اندر کے دشمنوں کے ہاتھوں گرفتار ہیں یا پھر یہ سب اپنی اپنی یاد داشت کھو چکے ہیں اور الزائمر مرض کا شکار ہوچکے ہیں۔

الزائمر ایک ایسی ذہنی بیماری ہے جس میں نہ صرف یاد داشت ختم ہوجاتی ہے بلکہ سماجی سرگرمیوں میں خلل پیدا ہو جاتا ہے اس مرض سے متاثرہ مریضوں میں دماغ کے ایسے حصے متاثر ہوتے ہیں جو فکر ، سوچ ، یاد داشت اور زبان کے استعمال کو قابو کرتے ہیں۔ آئیں ! مل کر ان مریضوں کو دماغی اسپتالوں میں علاج کی غر ض سے داخل کروا دیتے ہیں ، تاکہ انھیں بھی سکون مل سکے اور ہمیں بھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔