انتشار بڑھ رہا ہے
دنیا کی ترقی کا مطلب اس میں رہنے بسنے والے انسانوں کی ترقی ہے۔
کراچی:
معاشرہ بنیادی طور پر افراد تشکیل دیتے ہیں۔ افراد کا تعلیمی معیار ، شعوری استعداد جو بھی ہوتی ہے وہ ویسا ہی سماج بناتے ہیں ، دنیا بہرحال آج خاطر خواہ ترقی پر ہے اور دنیا کی ترقی کا مطلب اس میں رہنے بسنے والے انسانوں کی ترقی ہے۔
انسان آج کسی حد تک سماج کے ایک ایسے خدوخال سے واقفیت رکھتا ہے جسے مکمل نہ سہی لیکن جزوی انسانی معاشرہ قرار دیا جاسکتا ہے ، یہاں ہم اس اصول کو مد نظر رکھیں گے کہ جب بھی کوئی تبدیلی وسعت اختیار کرتی ہے تو وہ اپنے گرد و پیش کو بھی متاثر کرتی ہے ، یعنی قریبی ممالک پر ، قریبی زمین پر۔ یہ بھی ماننا ہوگا کہ معاشروں کی تشکیل کردہ اکائیاں اپنی فطری بنیاد سے قطع نظر اپنے وجود میں جزوی تبدیلیوں کا شکار رہتی ہیں ، جس کا ایک بڑا تعلق ترقی سے ہوتا ہے۔
، اگرچہ جسے ترقی کہا جاتا ہے اس پر ایک بحث الگ سے ہونا ممکن ہے لیکن چلیے مان لیتے ہیں کہ وہی ترقی ہے ، تو طے ہوا کہ معمولی اتار چڑھاؤ کو چھوڑ کر جو بنیاد بنائی جاچکی وہی اب معاشرہ ہے اور ہم انسان جہاں بھی آباد ہیں ہمیں ان حدود و قیود میں رہنا ہوگا جسے ہم انسانی معاشرہ قرار دے چکے ہیں اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی لاگو ہوگی اور عالمی عدالت میں ہمارے خلا ف کیس دائر ہوجائے گا۔ ہمارے سے مراد یہاں ہر قوم اور ملک ہے بلا تخصیص و رنگ و نسل یہ ایک انسانی معاملہ ہے جس کی پاسداری ہر قیمت پرکرنی پڑتی ہے۔
قارئین کرام ! میں اس موضوع پر آنے سے قبل اپنی آج کی تحریر کے مقصد کو واضح کردوں کہ مجھے کہنا کیا ہے جس کے لیے میں نے اس قدر تمہید باندھی۔ عزیزان گرامی میں نے جس human comity کا ذکر کیا ہم بطور قوم ان سے بہت دور جاچکے ہیں اور ہنوز یہ سفر جاری ہے۔
تباہی و بربادی کے اس سفر پر ہم گامزن ہیں ، مسلسل ہر سال ہر مہینے ہر دن ایک حادثہ ایک سانحہ میری بات کا ثبوت ہے ، جس کے خلاف کوئی ایکشن دکھائی نہیں دیتا عدالتیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہیں جیسے کسی فلم میں مہمان اداکار ہوں ۔ ادارے اپنے کام سے تو کام نہیں رکھتے بلکہ ادھر اُدھر کے کام کرتے پھرتے ہیں ، اخلاقی پستی تو بہت چھوٹا لفظ ہے کہنا چاہیے کہ کس مجرمانہ نہج پر جا پہنچے ہیں۔
دیکھ کر خوف آجائے گا ، لیکن افسوس کہ اصلاح کی کوئی ایک کوشش کہیں سے بھی نظر نہیں آتی ، کوئی مسیحا جو درد کے ماروں میں آ نکلے۔ ہم نے انسانی معاشرے کی ہر چھوٹی ہر بڑی اکائی توڑ ڈالی ، ہر انسانی قانون کی دھجیاں بکھیر دیں، اگرکبھی شاذ و نادر فلاح کا کوئی معمولی سا کام بھی کیا تو درجنوں کیمرے والوں کو بلوا کر اس کام کی تشہیرکی اپنے فوٹوز کھنیچوائے ، خبریں چلوائیں اور قبلہ بڑے حکیم صاحب بن بیٹھے، لیکن گفتگو کی حد تک، ہر دوسرے جملے میں مذہبی باتیں، باہر سے آنے والا کوئی شخص سنتا ہے تو ایک دفعہ چکر ہی کھا جاتا ہے کہ اسلام اگر100%کہیں نافذ ہوا تو وہ پاکستان میں ، اور کوئی سودا اس نے کرلیا تو اسے لگ پتا جاتا ہے کہ جنگل میں بھی کوئی قانون ہوتا ہوگا ، لیکن یہاں کوئی نیا ہی سلسلہ ہے۔
ایک واقعہ مجھے یاد ہے جو میرے ایک دوست نے مجھے سنایا۔ ان کے علاقے میں ایک صاحب کے فرزند فرانس وزٹ ویزے پر گئے، وہاں انھیں ایک لڑکی سے پیار ہوگیا جو فرانس کی نیشنل تھیں ، نوجوان کی انگلش اچھی تھی بات محبت سے شادی کی طرف جا نکلی اور شادی ہو بھی گئی۔
لڑکا لڑکی وہاں تک تو بہت خوش رہے اس کے بعد لڑکا کچھ مدت کے لیے اپنی بیوی کو پاکستان والدین ، بہن بھائیوں سے ملوانے لے آیا جہاں سے ان مسائل نے جنم لیا جو ناقابل حل ثابت ہوئے۔ پاکستان آنے پر لڑکے کے اہل خانہ بظاہر تو خوش ہوئے لیکن ایک دو روز بعد ہی انھیں لڑکی کے لباس اور رہن سہن پر اعتراض ہونے لگا جو رفتہ رفتہ بڑھتا گیا۔
تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ ابتدا میں لڑکے کی والدہ کے اس اعتراض سے ہوئی کہ '' بیٹا اپنی بیگم کو اٹھنا بیٹھنا سکھاؤ وہ کسی کے بھی سامنے بغیر دوپٹے کے آجاتی ہے اور ایسے لباس میں توبہ توبہ ہماری بڑی بے عزتی ہورہی ہے کچھ کرو۔'' لڑکے نے کہا '' امی وہ فرانس کی رہنے والی ہے وہاں پر ایسا ہی لباس پہنا جاتا ہے اور وہاں کے رسم و رواج ہم سے مختلف ہیں پھر یہ کچھ ہی دن کے لیے آئی ہے ، جلد چلی جائے گی اور میں بھی اس شادی کی وجہ سے وہاں کا نیشنل ہو جاؤں گا بس آپ خاموش رہیں۔'' لڑکے نے بیوی سے چھپایا نہیں اور سب کچھ بتا دیا وہ لڑکی سن کر بہت پریشان ہوئی اور اس نے لڑکے سے کہا کہ '' یہ سب کچھ تو طے ہوا تھا کہ نہ میں اپنا رہن سہن چھوڑوں گی نہ مذہب '' لڑکے نے اقرار کیا اور بیوی کو تسلی دی کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ، لیکن سب کچھ ٹھیک نہ ہوسکا بلکہ خراب ہوتا چلا گیا۔
اس نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے فوراً اپنی فیملی سے رابطہ کیا فیملی نے وقت ضایع کیے بغیر اپنے سفارت خانے سے ان کے سفارت خانے نے پاکستان کے سفارت خانے سے رابطہ کیا اور لڑکی فرانس لوٹ گئی ۔یہ ہے اُن حالات کی ایک تصویر جن کا ذکر میں نے اس کالم میں کیا ہے ، انتشار بڑھ رہا ہے ، ہر دن ہر سال ہمیں اسے روکنا ہوگا ہر قیمت پر ہر صورت میں اگر ہمیں جینا ہے تو یہی بقاء کی جنگ ہے۔
معاشرہ بنیادی طور پر افراد تشکیل دیتے ہیں۔ افراد کا تعلیمی معیار ، شعوری استعداد جو بھی ہوتی ہے وہ ویسا ہی سماج بناتے ہیں ، دنیا بہرحال آج خاطر خواہ ترقی پر ہے اور دنیا کی ترقی کا مطلب اس میں رہنے بسنے والے انسانوں کی ترقی ہے۔
انسان آج کسی حد تک سماج کے ایک ایسے خدوخال سے واقفیت رکھتا ہے جسے مکمل نہ سہی لیکن جزوی انسانی معاشرہ قرار دیا جاسکتا ہے ، یہاں ہم اس اصول کو مد نظر رکھیں گے کہ جب بھی کوئی تبدیلی وسعت اختیار کرتی ہے تو وہ اپنے گرد و پیش کو بھی متاثر کرتی ہے ، یعنی قریبی ممالک پر ، قریبی زمین پر۔ یہ بھی ماننا ہوگا کہ معاشروں کی تشکیل کردہ اکائیاں اپنی فطری بنیاد سے قطع نظر اپنے وجود میں جزوی تبدیلیوں کا شکار رہتی ہیں ، جس کا ایک بڑا تعلق ترقی سے ہوتا ہے۔
، اگرچہ جسے ترقی کہا جاتا ہے اس پر ایک بحث الگ سے ہونا ممکن ہے لیکن چلیے مان لیتے ہیں کہ وہی ترقی ہے ، تو طے ہوا کہ معمولی اتار چڑھاؤ کو چھوڑ کر جو بنیاد بنائی جاچکی وہی اب معاشرہ ہے اور ہم انسان جہاں بھی آباد ہیں ہمیں ان حدود و قیود میں رہنا ہوگا جسے ہم انسانی معاشرہ قرار دے چکے ہیں اور اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہم پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی لاگو ہوگی اور عالمی عدالت میں ہمارے خلا ف کیس دائر ہوجائے گا۔ ہمارے سے مراد یہاں ہر قوم اور ملک ہے بلا تخصیص و رنگ و نسل یہ ایک انسانی معاملہ ہے جس کی پاسداری ہر قیمت پرکرنی پڑتی ہے۔
قارئین کرام ! میں اس موضوع پر آنے سے قبل اپنی آج کی تحریر کے مقصد کو واضح کردوں کہ مجھے کہنا کیا ہے جس کے لیے میں نے اس قدر تمہید باندھی۔ عزیزان گرامی میں نے جس human comity کا ذکر کیا ہم بطور قوم ان سے بہت دور جاچکے ہیں اور ہنوز یہ سفر جاری ہے۔
تباہی و بربادی کے اس سفر پر ہم گامزن ہیں ، مسلسل ہر سال ہر مہینے ہر دن ایک حادثہ ایک سانحہ میری بات کا ثبوت ہے ، جس کے خلاف کوئی ایکشن دکھائی نہیں دیتا عدالتیں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہیں جیسے کسی فلم میں مہمان اداکار ہوں ۔ ادارے اپنے کام سے تو کام نہیں رکھتے بلکہ ادھر اُدھر کے کام کرتے پھرتے ہیں ، اخلاقی پستی تو بہت چھوٹا لفظ ہے کہنا چاہیے کہ کس مجرمانہ نہج پر جا پہنچے ہیں۔
دیکھ کر خوف آجائے گا ، لیکن افسوس کہ اصلاح کی کوئی ایک کوشش کہیں سے بھی نظر نہیں آتی ، کوئی مسیحا جو درد کے ماروں میں آ نکلے۔ ہم نے انسانی معاشرے کی ہر چھوٹی ہر بڑی اکائی توڑ ڈالی ، ہر انسانی قانون کی دھجیاں بکھیر دیں، اگرکبھی شاذ و نادر فلاح کا کوئی معمولی سا کام بھی کیا تو درجنوں کیمرے والوں کو بلوا کر اس کام کی تشہیرکی اپنے فوٹوز کھنیچوائے ، خبریں چلوائیں اور قبلہ بڑے حکیم صاحب بن بیٹھے، لیکن گفتگو کی حد تک، ہر دوسرے جملے میں مذہبی باتیں، باہر سے آنے والا کوئی شخص سنتا ہے تو ایک دفعہ چکر ہی کھا جاتا ہے کہ اسلام اگر100%کہیں نافذ ہوا تو وہ پاکستان میں ، اور کوئی سودا اس نے کرلیا تو اسے لگ پتا جاتا ہے کہ جنگل میں بھی کوئی قانون ہوتا ہوگا ، لیکن یہاں کوئی نیا ہی سلسلہ ہے۔
ایک واقعہ مجھے یاد ہے جو میرے ایک دوست نے مجھے سنایا۔ ان کے علاقے میں ایک صاحب کے فرزند فرانس وزٹ ویزے پر گئے، وہاں انھیں ایک لڑکی سے پیار ہوگیا جو فرانس کی نیشنل تھیں ، نوجوان کی انگلش اچھی تھی بات محبت سے شادی کی طرف جا نکلی اور شادی ہو بھی گئی۔
لڑکا لڑکی وہاں تک تو بہت خوش رہے اس کے بعد لڑکا کچھ مدت کے لیے اپنی بیوی کو پاکستان والدین ، بہن بھائیوں سے ملوانے لے آیا جہاں سے ان مسائل نے جنم لیا جو ناقابل حل ثابت ہوئے۔ پاکستان آنے پر لڑکے کے اہل خانہ بظاہر تو خوش ہوئے لیکن ایک دو روز بعد ہی انھیں لڑکی کے لباس اور رہن سہن پر اعتراض ہونے لگا جو رفتہ رفتہ بڑھتا گیا۔
تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ ابتدا میں لڑکے کی والدہ کے اس اعتراض سے ہوئی کہ '' بیٹا اپنی بیگم کو اٹھنا بیٹھنا سکھاؤ وہ کسی کے بھی سامنے بغیر دوپٹے کے آجاتی ہے اور ایسے لباس میں توبہ توبہ ہماری بڑی بے عزتی ہورہی ہے کچھ کرو۔'' لڑکے نے کہا '' امی وہ فرانس کی رہنے والی ہے وہاں پر ایسا ہی لباس پہنا جاتا ہے اور وہاں کے رسم و رواج ہم سے مختلف ہیں پھر یہ کچھ ہی دن کے لیے آئی ہے ، جلد چلی جائے گی اور میں بھی اس شادی کی وجہ سے وہاں کا نیشنل ہو جاؤں گا بس آپ خاموش رہیں۔'' لڑکے نے بیوی سے چھپایا نہیں اور سب کچھ بتا دیا وہ لڑکی سن کر بہت پریشان ہوئی اور اس نے لڑکے سے کہا کہ '' یہ سب کچھ تو طے ہوا تھا کہ نہ میں اپنا رہن سہن چھوڑوں گی نہ مذہب '' لڑکے نے اقرار کیا اور بیوی کو تسلی دی کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ، لیکن سب کچھ ٹھیک نہ ہوسکا بلکہ خراب ہوتا چلا گیا۔
اس نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے فوراً اپنی فیملی سے رابطہ کیا فیملی نے وقت ضایع کیے بغیر اپنے سفارت خانے سے ان کے سفارت خانے نے پاکستان کے سفارت خانے سے رابطہ کیا اور لڑکی فرانس لوٹ گئی ۔یہ ہے اُن حالات کی ایک تصویر جن کا ذکر میں نے اس کالم میں کیا ہے ، انتشار بڑھ رہا ہے ، ہر دن ہر سال ہمیں اسے روکنا ہوگا ہر قیمت پر ہر صورت میں اگر ہمیں جینا ہے تو یہی بقاء کی جنگ ہے۔