ڈاکٹر عامر لیاقت حسین …

زندگی کے آخری لمحات میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اپنے آبائی گھر میں تنہا تھا


رضوان صدیقی July 01, 2022

LONDON: تقریباً بیس برس تک دلوں پر راج کرنے والا چھوٹی اسکرین کا مقبول ترین اینکر پرسن ڈاکٹر عامر لیاقت حسین 9 جون بروز جمعرات دوپہر ایک بجے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا اور 10جون بعد نماز عصر عبد اللہ شاہ غازی کے مزار کے احاطے میں اپنی منتخب کی ہوئی جگہ زمین اوڑھ کر سوگیا۔ زندگی کے آخری لمحات میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اپنے آبائی گھر میں تنہا تھا، اپنے بیٹے کے کان میں خود اذان دی تھی، اسی بیٹے نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ کراچی ایک ذہین، باصلاحیت، نڈر، انتھک محنتی اور خوابوں کی تعبیر تلاش کرنے والے پُر جوش نوجوان سے محروم ہوگیا۔

ڈاکٹرعامر لیاقت حسین ہمہ جہت شخصیت کا مالک تھا، زمانہ طالب علمی سے وہ اپنے ہم جماعت اور ہم عصر ساتھیوں سے بہت آگے تھا۔ بچپن ہی سے اس نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھ کر پھر نیچے جھک کر نہیں دیکھا۔ صحافی، مقرر، کالم نگار، مصنف، ایف ایم ریڈیو کا ڈی جے، نعت خواں، نیوز کاسٹر، خطیب، اینکر پرسن، مدیر، شاعر، سیاستدان، دو بار منتخب رکن قومی اسمبلی، وفاقی کابینہ میں مذہبی و اوقاف کا اسٹیٹ منسٹر لیکن حیرت انگیز طور پر تقریباً تمام شعبوں میں نمایاں، منفرد، کامیاب اور بے حد مقبول۔ زندگی کے آخری سال میں یہ ساری کامیابیاں موم کی طرح پگھل پگھل کر اس کے اپنے قدموں پر گرکر پانی ہوگئیں۔ اکیلا اور تنہا...

کیا عامر لیاقت مرگیا... کیا وہ قصہ پارینہ... کیا وہ لوگوں کے ذہنوں سے معدوم ہوگیا...کیا وہ بھولی ہوئی داستان ہے؟

نہیں۔ ہرگز نہیں !

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین 5جولائی 1971 کو شیخ لیاقت حسین اور بیگم محمودہ سلطانہ کے گھر پیدا ہوا۔ بیگم محمودہ سلطانہ کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد سید سردار علی صابری ممتاز صحافی، کالم نویس اور ادب گرویدہ لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ محمودہ سلطانہ کے بھائی ارشد علی صابری بھی صحافی، ادیب، شاعر اور ادبی محافل کے لائق منتظم تھے۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اور ان کے بڑے بھائی عمران لیاقت حسین بھی ان گنت صلاحیتوں کے مالک تھے۔ وہ ابتدا میں صحافت، خطابت اور ادب کے شعبہ سے وابستہ رہے۔

بعد ازاں وہ مسلک تبدیل کر کے ایران چلے گئے اور قُم کی درس گاہ سے ''آیت اللہ'' کی سند حاصل کی۔ مگر متنازعہ نظریات کی بنیاد پر ایران میں اسیری کی صعوبتیں برداشت کیں اور پاکستان آکر سہیون شریف میں اپنی خانقاہ قائم کرلی اور چند برس پہلے انتقال کرگئے۔ بیگم محمودہ سلطانہ کے گھر علامہ فاروق حیدر عابدی کا آنا جانا تھا۔ پڑوس میں ہی گھر تھا وہ اپنے دونوں بچوں کو علامہ فاروق حیدر کے سپرد کر آئیں کہ بھائی ان بچوں کو تقریر کرنا سکھائیں۔

میری خواہش ہے کہ یہ بڑے ہو کر خطیب بنیں۔ علامہ فاروق حیدر عابدی کی صحبت میں دونوں بھائیوں نے خوش گفتاری اور تقریر کرنے کے رموز سیکھے۔ عامر لیاقت حسین نے اسکول اور کالج میں منعقد ہونے والے تقریری مقابلوں میں شرکت کی اور اپنے ہم جماعتوں میں نمایاں مقام حاصل کیا۔ ایک تنظیم بھی بنائی اور بین الکلیاتی مباحثے منعقد کرتے رہے۔

عامر لیاقت کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ اس زمانے میں سندھی مہاجر اختلافات بہت شدید تھے۔ اس مشکل میں جی ایم سید کی ہدایت پر کالج انتظامیہ نے عامر لیاقت حسین کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا۔ عامر لیاقت حسین نے ایک ٹی وی پروگرام میں اس بات کا اعتراف کیا کہ '' جی ایم سید کو میں ''نانا'' کہتا تھا اور انھی کی شفقت اور مہربانی کے سبب میں ان مشکل دنوں میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکا۔''

شیخ لیاقت حسین 1980کی دہائی میں ایک روزنامہ اخبار نکالتے تھے، عامر لیاقت حسین نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز اسی رونامہ سے کیا اور اپنے والد ہی کی نگرانی میں صحافتی تربیت حاصل کی۔ عامر لیاقت حسین کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا ، وہ خواب دیکھتا اور ان کی تعبیر کے حصول میں ہمہ وقت سرگرم اور سرگرداں رہتا۔ اس دوران عامر لیاقت حسین نے روزنامہ آغاز میں کام کرنا شروع کردیا۔ پھر وہ مرحوم الیاس شاکر کی خواہش پر روزنامہ ''قومی اخبار'' میں آگئے۔ عامر لیاقت کو آگے اور آگے اور آگے کی جستجو تھی۔

وہ '' قومی اخبار'' چھوڑ کر زاہد قریشی کے اصرار پر روزنامہ ''پرچم'' سے منسلک ہوگئے۔ ان دنوں ایچ اقبال روزنامہ ''پرچم'' کے ایڈیٹر تھے۔ بعض ساتھیوں کا بیان ہے کہ عامر لیاقت کو کرائم رپورٹر بننے کا شوق تھا۔ روزنامہ پرچم میں کامران مجاہد ''کرائم بیٹ'' کے نگراں تھے، یہاں عامر لیاقت کی کامران جاوید سے دوستی ہوگئی، روزنامہ پرچم میں عامر لیاقت نے '' عامری جادوگر '' کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا۔ وہ خبروں کا ترجمہ بھی کرتے اور پروف ریڈنگ بھی کرتے تھے اور اخبار کے لیے اشتہارات بھی لاتے تھے۔ بعد ازاں انھوں نے روزنامہ پرچم ہی میں ایک اور کالم ''پوسٹ مارٹم'' کے نام سے لکھنا شروع کیا۔

یہ کالم اس قدر پڑھا جانے لگا کہ اخبار کی اشاعت میں بہت اضافہ ہوگیا۔ اب وہ روزنامہ پرچم کے نیوز ایڈیٹر ہوگئے اور چند سالوں ہی میں انھوں نے زاہد قریشی سے روزنامہ پرچم خرید لیا۔ عامر لیاقت اپنا کالم بغیر کسی وقفے کے روز لکھا کرتے تھے اور ایک طویل عرصہ تک کبھی ناغہ نہیں کیا۔ عامر لیاقت نے پانچ سال بہت محنت کی، سچ تو یہ ہے کہ بہت دھکے کھائے اور صحافت کی زندگی ایسے ہی گزاری جیسے ایماندار اور فرض شناس نوجوان صحافی گزارتے ہیں۔ عامر لیاقت پارہ صفت نوجوان تھے، انھیں پل بھر کو چین نہ تھا، کچھ نہ کچھ کرنے کی دھن انھیں بے قرار رکھتی تھی۔

طالب علمی کے زمانے میں عامر لیاقت کسی نہ کسی طرح پی ٹی وی پہنچ گئے۔ ان دنوں سلیم مغل اسسٹنٹ پروڈیوسر تھے اور بچوں کے لیے پروگرام ''روشن تارا'' کرتے تھے۔ عامر لیاقت اس پروگرام میں شامل ہوا اور بچوں کو جانوروں کی بولیاں سنائیں، جنھیں پسند کیا گیا۔ عامر لیاقت حسین 1992۔93میں ریڈیو پاکستان کے پروگرام بزم طلبا کا حصہ بنے۔ وہ ایک مقبول مقرر کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرچکے تھے۔ مختلف موضوعات پر پروگرام نشر ہوتے تھے، ہر ماہ تقریری مقابلے بھی ہوتے اور عامر لیاقت اس پروگرام میں شریک ہوتے اور انعامات حاصل کرتے تھے۔

انھوں نے پروگرام ''ایک منٹ'' میں بھی متعدد بار حصہ لیا اور اسی زمانے میں وہ رسالپور میں منعقد ہونے والے تقریری مقابلے میں بھی شریک ہوئے، اس مقابلے میں پورے پاکستان کے تعلیمی اداروں سے مقررین کو مدعو کیا جاتا تھا۔1967 میں عامر لیاقت کو ایک اردو روزنامہ میں ملازمت مل گئی اور وہ اشتہارات کے شعبہ سے منسلک ہوگئے۔ 1968میں نثار میمن کی نگرانی میں ریڈیو پاکستان نے FM 101 سے اپنی نشریات کا آغاز کیا، اس پروگرام کی پروڈیوسر شگفتہ آفتاب ہوا کرتی تھیں۔ FM 101 شروع ہوا تو عامر لیاقت جو بزم طلبا سے وابستگی کے دوران ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسرز اور دیگر ذمے داران سے رابطہ میں تھے۔

FM 101 پر پروگرام شروع کیے۔ رمضان نشریات میں بھی وہ سحر و افطار کے پروگرام کرتے تھے۔ خوش گفتار تو تھے ہی اور اخبارات میں ملازمت کے دوران وہ مارکیٹنگ کا کام بھی کرتے تھے۔ اپنے اس تجربہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے بہت سے کمرشل پروگرام بھی کیے اور DJکے طور پر بھی پروگرام کیے۔اسی زمانے میں ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی نے FM 101سے مارکیٹنگ کے حقوق حاصل کر لیے، یوں عامر لیاقت کے FM 101 سے تعلقات مزید مستحکم ہوگئے۔ عامر لیاقت حسین ایڈورٹائزنگ کے لیے مارکیٹنگ کا کام تو کرتے ہی تھے لیکن اپنا شوق پورا کرنے کے لیے گاہے گاہے پروگرام بھی کرتے تھے۔ وہ اکثر مائیک لے کر تجارتی مراکز اور بازاروں میں جاتے اور مختلف مسائل پر لوگوں کی رائے معلوم کرتے، اس طرح انھوں نے متعدد Road Showsبھی کیے۔ اس تجربہ کی بنیاد پر وہ ایک چینل میں آگئے اور وہاں ایک پروگرام کے اینکر پرسن مقرر ہوئے۔ جو ان کی زندگی کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں