بنت حوا کا قانونی سائبان

ورکنگ ویمن کے لیے ضابطہ اخلاق پر عمل کرایا جائے


رقیہ اقبال March 10, 2014
ورکنگ ویمن کے لیے ضابطہ اخلاق پر عمل کرایا جائے۔ فوٹو: فائل

خواتین اپنی جدوجہد، محنت ولگن سے ہر شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں، لیکن آج بھی ملازمت پیشہ خواتین کو بہت سے غیر مناسب رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مردوں کی جانب سے باہر نکلنے والی خواتین کو گھور گھور کر دیکھنا اور انہیں تنگ کرنا آج بھی روا ہے۔ آج خواتین نہ صرف دوران سفر عدم تحفظ کے احساس سے دوچار ہیں، بلکہ دفتری حدود میں بھی انہیں ساتھی مردوں اور مالکان کی جانب سے امتیازی اور تکلیف دہ رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ہتک آمیز رویے سے جنسی طور پر ہراساں کرنے جیسے افعال، وہ شرم ناک رویے ہیں، جو انہیں شدید پریشانی اور اذیت سے دوچار کرتے ہیں۔ کئی بار وہ اسی وجہ سے اپنی ملازمت چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ ایسے ناموافق حالات میں یہ چپ سادھنے میں ہی عافیت سمجھتی ہیں، کیوں کہ ان کی نظر میں کوئی بھی چیز ان کی عزت سے بڑھ کر نہیں۔ یہ چیز ایسے بیمار ذہن مردوں کا حوصلہ بڑھانے کا باعث بھی بن جاتی ہے۔

 photo Pic3_zps2c0871e8.jpg

دفاتر میں ان گھٹیا رویوں کا براہ راست اثر نہ صرف خواتین کی کارکردگی پر پڑتا ہے، بلکہ پورے ادارے کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے، کیوں کہ ایسے گھٹن زدہ ماحول میں ان کی تخلیقی صلاحیتیں کھل کر سامنے نہیں آ پاتیں، یوں ان کے لیے ترقی کی راہیں بھی مسدوس ہو جاتی ہیں۔ اکثر اونچے عہدوں پر براجمان مرد اپنے مقابلے میں خواتین کو آگے بڑھتا ہوا نہیں دیکھ پاتے اور انہیں نفسیاتی طور پر تکلیف دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے محنت اور لگن سے کیے ہوئے کام کو سراہنے میں پس وپیش سے کام لیتے ہیں۔ انہیں اپنے بے ہودہ قسم کے مذاق سے تضحیک کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی ذہنیت کے مطابق صرف گھروں میں بیٹھنے والی خواتین ہی شریف ہوتی ہیں، باقی ملازمت کی شوق میں گھروں سے نکلنے والی تمام خواتین ان کے اسی سلوک کا نشانہ بننے کی مستحق ہیں۔

 photo Pic4_zps77bc58c3.jpg

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کی اَن تھک جدوجہد کے نتیجے میں 2010ء کے اوائل میں کام کرنے کی جگہوں پر خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون بن چکا ہے، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ جب قانون کی عمل داری ہی نہ ہو تو پھر وہ محض کاغذی پرزے سے زیادہ نہیں رہ جاتا۔ اس قانون کو بھی کچھ اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے۔ اس قانون کے مطابق تمام سرکاری وغیر سرکاری اور سول سوسائٹی کے اداروں پر لازم ہے کہ وہ اس قانون میں موجود ضابطہ اخلاق مِن وعَن اپنے اداروں میں نافذ کریں۔ اس کے ساتھ ہر ادارے میں تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی (جس میں ایک خاتون کی نمائندگی لازمی ہو) قائم کی جائے، جو کسی ساتھی مرد کی جانب سے ہراساں کیے جانے والی خاتون کی جانب سے شکایت موصول ہونے پر متاثرہ خاتون اور مرد دونوں کے روزمرہ معمولات کا خاموشی سے مشاہدہ کر کے ایک غیرجانب دار رپورٹ متعلقہ حکام کو روانہ کرے، تاکہ جرم ثابت ہونے پر اس میں ملوث شخص کو قرار واقعی سزا سنائی جا سکے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے یہاں شاذ ہی کسی ادارے نے اسے توجہ کے قابل سمجھا اور باقی تمام اداروں نے اسے درخور اعتنا ہی نہ جانا۔ اس قانون کی بے وقعتی کی ایک بڑی وجہ حکومت کی ڈھیل بھی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اداروں کو اس قانون میں موجود ضابطہ اخلاق کا پابند بنائے اور خلاف ورزی کے مرتکب اداروں کے خلاف فوری کارروائی کرے، تاکہ خواتین اپنے فرائض بلاخوف و خطر محفوظ ماحول میںا نجام دے سکیں۔

 photo Pic5_zps0c4c54c7.jpg

کالج، جامعات اور تعلیمی ادارے بھی اس قانون سے مبرا نہیں۔ یہاں بھی طالبات کو تنگ کرنے کے سنگین واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ لہٰذا وہاں بھی تحقیقاتی کمیٹیوں کا قیام عمل میں لانا چاہیے، تاکہ طالبات کو اساتذہ اور ساتھیوں کے نامناسب رویوں کے باعث اپنی تعلیم کو خیرباد نہ کہنا پڑے، بلکہ وہ قانونی طور پر اس کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکیں۔

حال ہی میں حیدرآباد کے 22 سرکاری ونجی اداروں میں ملازمت پیشہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ محتسب اعلا کے شکایتی مراکز کراچی اور حیدرآباد میں بھی قایم کیے گئے، جو کہ اس قانون کی عمل داری میں ایک اہم پیش رفت ہے۔ 12 فروری کو خواتین کے قومی دن کے موقع پر سندھ کی وزیر ترقی نسواں روبینہ سعادت قائم خانی کی جانب سے بھی خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے ہیلپ لائن 111-623-937 کا آغاز کیا گیا۔ یہ بلاشبہ ایک احسن قدم ہے۔

 photo Pic6_zps63ca0560.jpg

ہمارے آئین میں کسی قسم کی صنفی تفریق کی کوئی گنجایش نہیں۔ پاکستان کے آئین کی دفعہ 25,26 اور 27 سرعام اور کام کی جگہوں پر صنفی امتیاز کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ 29 جنوری 2010ء میں حکومت نے تعزیرات پاکستان کے سیکشن 509 میں ترمیم کے ذریعے نہ صرف کام کرنے کی جگہوں پر بلکہ ہر جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کو جرم قرار دیا ہے، لہٰذا اگرکسی ادارے میں تحقیقاتی کمیٹی نام کی کوئی چیز نہیں اور اس قانون پر عمل درآمد نہیں ہو رہا تو خاتون براہ راست بھی اس جرم کے خلاف دفعہ 509 کے تحت مقدمہ درج کرا سکتی ہے، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین کی اکثریت اس قانون سے لاعلم ہے۔ اس لیے خواتین کو چاہیے کہ وہ نہ اس قانون سے نہ صرف خود آگاہ ہوں، بلکہ اپنے اردگرد موجود تمام خواتین کو بھی اس قانون سے آگاہی دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں