غزوۂ احزاب یا غزوۂ خندق

’’اے اہل ایمان! اﷲ کا وہ احسان یاد کرو جب تم پر فوجیں چڑھ آئیں، پھر ہم نے ان پر ہوا اور....


غزوۂ احزاب کے ذریعے اﷲ کو اہل ایمان کا امتحان لینا مقصود تھا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ منافق کون ہیں اور اہل ایمان کون ہیں۔. فوٹو: رائٹرز

غزوۂ احزاب کو غزوۂ خندق یا جنگ خندق بھی کہتے ہیں۔

یہ جنگ شوال کے آخر میں شروع ہوئی اور ذی قعدہ میں ختم ہوئی۔ سرکار دوعالم ﷺ نے اس جنگ میں مدینہ منورہ کے دفاع کے لیے طویل خندق کا حصار قائم فرمایا۔

اسی لیے یہ غزوۂ خندق یا جنگ خندق کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس جنگ میں مشرکین اور یہود قبائل نے مل کر مدینے پر چڑھائی کی۔ یہ لشکر 21 ہزار کا تھا۔

عرب میں اس سے قبل اتنا بڑا لشکر کبھی جمع نہیں ہوا تھا۔ اس میں جنوب سے قریش اور مشرقی جانب سے کئی قبائل شامل تھے۔ انہوں نے مدینۂ منورہ کو گھیرے میں لے لیا۔ بلاشبہہ یہ سخت امتحان تھا۔ اس میں دشمنوں کے دلوں کی کدورت واضح ہوگئی۔ اس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے جس میں منافقوں کے دلوں کے روگ کی بات کی گئی ہے کہ وہ کس طرح کی باتیں کرتے ہیں اور اﷲ اور اس کے رسول کے وعدے کو جھوٹ قرار دیتے ہیں۔

وہ شکوے بھی کررہے تھے کہ ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے، فاقے پڑ رہے ہیں، بلا کی سردی نے الگ جینا محال کر رکھا ہے۔ گویا منافقین کی یہ وہ باتیں تھیں جو ان کے دلوں سے نکل کر زبان پر آگئی تھیں۔
دوسری طرف مومنین کی یہ کیفیت تھی کہ جب انہوں نے دشمنوں کے لشکر کو دیکھا تو بے ساختہ پکار اٹھے کہ جس کا اﷲ اور اس کے رسول کریم ﷺ نے ہم سے وعدہ کیا تھا، وہ بات پوری ہوگئی۔

جنگ خندق یا جنگ احزاب 5 ہجری میں ہوئی۔ اس سے پہلے جنگ احد میں ابو سفیان نے مسلمانوں کو بدر کے مقام پر آئندہ سال پھر معرکہ آرا ہونے کی دھمکی دی تھی۔ چناں چہ حضور پاک ذی قعدہ 4 ہجری میں مسلمانوں کی ایک جماعت لے کر بدر کے مقام پر پہنچے۔ مکے میں اس وقت قحط تھا، اس لیے ابو سفیان واپس لوٹ گیا۔ آٹھ دن تک بدر میں قیام کے بعد اﷲ کے رسول ﷺ بھی واپس لوٹ گئے۔

ابو سفیان کی اس پر بہت بے عزتی ہوئی۔ چناں چہ اس نے آس پاس کے قبائل کو بلایا۔ 4 ہجری میں بنو نضیر کا اخراج بھی مسلمانوں سے بدلہ لینے کا سبب بنا۔ بنو نضیر کے سلام اور کنانہ نے ابو سفیان کو اپنی مدد کا یقین دلایا اور جنگ پر اکسایا۔ یوں سب نے مل کر ایک لشکر کی شکل اختیار کرلی۔

غزوۂ احد کے موقع پر شہر سے باہر نکلنے کا تجربہ اچھا نہیں رہا تھا، اس لیے یہ طے ہوا کہ شہر کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ اس طرح کیا جائے کہ عورتوں اور بچوں کو مختلف قلعوں میں بھیج دیا جائے اور مرد مل کر شہر کا دفاع کریں۔

اس موقع پر حضرت سلمان فارسی ؓ نے خندق کھودنے کی تجویز پیش کی جسے حضور پاک ﷺ نے پسند فرمایا اور خندق کھودنے کا حکم دیا۔ اس خندق کی چوڑائی اوسطاً تیس فٹ اور گہرائی پندرہ سے تیس فٹ تھی۔ دس دس صحابہ کو بیس بیس گز لمبی خندق کھودنے کا حکم دیا گیا۔ اﷲ کے محبوب ﷺ نے خود معمولی مزدور کی طرح کام کیا اور صحابہ کے ساتھ کئی وقت کے فاقے بھی کیے۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کو ٹوکریاں نہ مل سکیں تو انہوں نے اپنے کپڑوں میں ہی مٹی ڈھونا شروع کردی۔ یہ کام تین ہفتے میں مکمل ہوگیا۔ شوال کے آخری ہفتے میں کفار کی آمد کی اطلاع ملی تو تجویز کے مطابق عورتوں اور بچوں کو قلعوں میں بھیج کر ان کی حفاظت کے لیے چھوٹے دستے مقرر کردیے گئے۔

سرکار دوعالم ﷺ تین ہزار صحابہ کے ہمراہ جبل سلع پر مقیم ہو گئے۔ آپؐ نے ابن مکتوم ؓ کو مدینہ میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا اور اہم مقامات پر فوجی دستے متعین فرما دیے۔ صحابہ کی ایک جماعت کو بنو قریظہ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کا حکم ملا۔ اس جنگ کی مدت چوبیس دن تھی۔ کفار کی آمد27شوال 5ہجری کو ہوئی۔ جب دونوں لشکر اپنے اپنے مورچوں پر جم گئے تو انہوں نے ایک دوسرے پر تیر برسانے شروع کردیے۔

کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخر ایک دن کفار کے مشہور شہ سوار مسلمانوں کی طرف بڑھے تو خندق دیکھ کر حیران رہ گئے۔ عرب خندق کے فن سے ناواقف تھے، اس لیے کہنے لگے کہ ہم نے یہ نیا مکر دیکھا ہے، ایسا مکر عرب میں کوئی نہیں جانتا۔ انہوں نے خندق کو پار کرنا چاہا تو مسلمانوں نے تیر اندازی کرکے انہیں روک دیا۔ لیکن ایک جگہ خندق کی چوڑائی کم تھی جہاں سے انہوں نے خندق عبور کرلی۔

اس موقع پر حضرت علیؓ نے آگے بڑھ کر خندق پار کرنے والے عمرہ بن عبدو کو موت کی نیند سلا دیا جس کے بعد کوئی بھی خندق پار کرنے کی ہمت نہ کر سکا۔ دونوں طرف سے تیروں کی بارش ہوتی رہی۔ حضرت سعد بن معاذ ؓ کی کلائی میں ایک تیر لگا اور اسی کی وجہ سے ایک ماہ بعد ان کی شہادت ہوگئی۔ اس جنگ میں منافقین بھی کھل کر سامنے آگئے۔

نہ انہوں نے خندق کھودنے میں کوئی دل چسپی لی اور نہ ہی دوران جنگ کوئی نمایاں کام کیا۔ انہی کے اکسانے پر بنو حارثہ نے بھی اپنے گھروں کی حفاظت کا بہانہ بنا کر اپنی جان بچانا چاہی۔ بنو قریظہ کا یہودی قبیلہ بنو نضیر کے بہکاوے میں آکر معاہدہ شکنی پر آمادہ ہو گیا۔ جب یہ اطلاع نبی کریم ﷺ کو ملی تو آپؐ نے سعد بن عبادہؓ، سعد بن معاذ اور عبداﷲ بن رواحہ ؓ کو حالات جاننے کے لیے بھیجا، ان حضرات نے وہاں مخالفت کی لہر دیکھی تو واپس آکر نبی پاکؐ کو اصل حالات سے آگاہ کیا۔ یہ وقت مسلمانوں کے لیے سخت آزمائش کا تھا۔

خطرات نے منافقین کو طعنے تشنے کا موقع دیا۔ انہوں نے کھلم کھلا کہنا شروع کردیا کہ محمدﷺ تو قیصر و کسریٰ کے ملک اور خزانے دلوانے کا وعدہ کرتے تھے، مگر یہاں تو ہم برعکس حالات دیکھ رہے۔ ہیں ہم پر عرصہ حیات بہت تنگ ہوگیا۔ دوسری طرف مسلمانوں کے ایمان میں ان سختیوں کی وجہ سے مزید اضافہ ہوگیا۔

حضور پاک ﷺ نے صورت حال دیکھ کر بنوغطفان کو مخالف لشکر سے توڑنے کے بارے میں سوچا، تاکہ محاصرے کی شدت کچھ کم ہوسکے۔ چناں چہ آپؐ نے صحابہ سے مشورہ کیا کہ اس قبیلے کو مدینے کی کھجور کا ایک تہائی حصہ دے کر میدان جنگ میں بھیجنے پر راضی کیا جاسکتا ہے۔

اس پر حضرت سعد بن معاذ ؓ اور سعد بن عبادہ ؓ نے عرض کیا:''اگر یہ اﷲ کی مرضی اور آپؐ کی خواہش ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں، لیکن اگر آپؐ سیاسی مصلحت کی بنا پر ایسا کررہے ہیں تو یہ ٹھیک نہیں۔ جب ہم حالت کفر میں تھے، اس وقت بھی وہ ہم سے ایک کھجور بھی نہیں لے سکتے تھے، لیکن اب جب کہ ہم آپؐ کے ذریعے راہ ہدایت پاچکے ہیں تو یہ کیسے گوارہ کر لیں؟''
چناں چہ یہ ارادہ ختم کردیا گیا۔

بنو قریظہ کے خطرے کا ازالہ ایک نو مسلم نعیم بن مسعود کے ذریعے اﷲ نے اس طرح کرایا کہ انہوں نے اس قبیلے کے لوگوں سے کہا:''تم قریش اور بنوغطفان کے ساتھ مل کر اپنے لیے دشواری کیوں پیدا کررہے ہو؟ یہ قبیلے تو چند دن بعد اپنے گھر چلے جائیں گے، لیکن تمہیں یہیں رہنا ہے، اس لیے مسلمانوں سے دوستی کرلو، دشمنی سے تمہارا نقصان ہوگا۔ تم قریش سے کہو کہ وہ تمہیں بے یار و مددگار چھوڑ کر نہ جائیں، بلکہ اپنے چند آدمی بطور یرغمال چھوڑ جائیں۔''

نعیم بن مسعود کے مسلمان ہونے کی کسی کو خبر نہ تھی، اس لیے کفار کو ان پر شک نہیں ہوا اور وہ ان کی تجویز پر عمل کرنے کو تیار ہو گئے۔

بنو قریظہ سے رخصت ہوکر نعیم قریش مکہ اور بنو غطفان کے پا س گئے اور ان سے کہا کہ مسلمانوں کا بنو قریظہ سے خفیہ معاہدہ ہو گیا ہے جس کے تحت بنو قریظہ تمہارے کچھ آدمیوں کو بہانے سے بلاکر مسلمانوں کے حوالے کردیں گے۔ تم ہوشیار رہنا۔ قریش اور بنو غطفان نے بھی ان کی بات کا یقین کرلیا اور بنو قریظہ کو آزمانے کے لیے انہیں پیغام بھیجا کہ ہم یہاں پریشان ہو گئے ہیں، کل مسلمانوں پر حملہ کرنا ہے، تم بھی تیار رہنا۔

بنو قریظہ نے جواب میں کہلوایا کہ کل ہفتہ ہے اور ہم اس دن نہیں لڑسکتے۔ اگر تم ہمارے پاس کچھ آدمی بطور یرغمال بھیج دو تو ہم محمدؐ سے جنگ کریں گے ورنہ نہیں۔ یہ جواب پاکر بنو غطفان اور قریش کو یقین ہو گیا کہ نعیم بن مسعود کی بات سچ تھی۔ چناں چہ وہ خطرناک اتحاد ٹوٹا اور اﷲ نے اہل ایمان کی اس طرح مدد فرمائی کہ ایک دن ایسی آندھی چلی کہ سارے خیمے اکھڑگئے، ہانڈیاں الٹ گئیں اور کھانے پینے کا سامان خراب ہو گیا۔

بڑے چولہوں پر چٹرھی ہوئی بڑی دیگیں تک الٹ گئیں اور خیموں میں آگ لگ گئی۔ پھر سردی اتنی بڑھی کہ کفار کا وہاں رہنا مشکل ہو گیا۔ پھر قریش واپس چلے گئے، جب یہ اطلاع بنو غطفان کو ملی تو وہ بھی چلے گئے۔ اس طرح خطرے کے تمام بادل چھٹ گئے۔

قرآن کریم کی سورۃ الاحزاب میں اس کا ذکر آیا ہے:''اے اہل ایمان! اﷲ کا احسان یاد کرو جو تم پر ہوا جب تم پر فوجیں چڑھ آئیں، پھر ہم نے ان پر ہوا (آندھی) اور (فرشتوں کی) وہ فوجیں بھیجیں جو تم نے نہیں دیکھیں، اور اﷲ تمہارے اعمال کو دیکھنے والا ہے۔''

غزوۂ احزاب کے ذریعے اﷲ کو اہل ایمان کا امتحان لینا مقصود تھا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ منافق کون ہیں اور اہل ایمان کون ہیں۔

آندھی طوفان کے بعد صبح ہوئی تو مسلمانوں نے دیکھا کہ میدان خالی تھا۔ اس موقع پر رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''اب دشمن تم پر حملہ آور نہیں ہوسکتے، بلکہ اب تم ان پر چڑھائی کرو گے۔''n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔