عورت کوئی شو پیس نہیں ہے
ہراسانی کے خلاف قوانین کے باوجود گھر سے باہر نکلنے والی عورت کو لوگ اپنی ہوسناک نگاہوں کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے
کراچی:
وہ اپنی ڈیوٹی شروع کرنے کےلیے جیسے ہی ہوٹل میں داخل ہوئی دو ٹھرکی ٹائپ پاکستانی بھائی اس کے پیچھے آدھمکے اور اسے یوں دیکھنے لگے جیسے بھوکا روٹی کو۔ اس ملک کے سخت قوانین کی وجہ سے انہیں ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ اپنے جذبات کی تسکین کےلیے وہ سب کچھ کر گزریں جس کی انہیں تمنا تھی، لیکن وہ بس اسے گھورنے پر ہی اکتفا کررہے تھے۔ اچانک انہیں احساس ہوا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں۔ مجھ سے نظریں چار ہونے پر وہ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے اسے چائے کا آرڈر دے کر آپس میں گفتگو کرنے لگے۔
میں انہیں صرف جرم کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا تو وہ نہ صرف اپنی حرکت سے باز آگئے بلکہ شرمندہ بھی ہوئے، اگر انہیں یہ یقین ہوجائے کہ اللہ نہ صرف دیکھ رہا ہے بلکہ ان کی ہر لمحے کی ویڈیو بھی بن رہی ہے جو ایک دن ان کی شرمندگی اور ہمیشہ کی ناکامی کا باعث بنے گی تو غالب گمان ہے کہ یہ لوگ ایسی حرکت کرنے سے پہلے ایک نہیں ہزار بار سوچیں گے۔ گزشتہ دنوں ہوٹل میں کھانے کے دوران جو منظر میں نے دیکھا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اب یہ عام ہوتا جارہا ہے۔
اس تحریر کے ذریعے وطن عزیز کے علما سے انتہائی ادب سے ملتمس ہوں کہ براہِ کرم اپنے خطبوں میں اس موضوع پر مسلسل گفتگو کریں تاکہ خواتین کو تحفظ ملے۔ کیونکہ حکومتی قوانین جیسے تعزیراتِ پاکستان (پی پی سی) کی دفعہ 365 بی، پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 354 (عورت کی شائستگی کو مجروح کرنے کے ارادے سے اس پر حملہ یا مجرمانہ طاقت کے استعمال)، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376، 506، 509، ٹیلی گراف ایکٹ، صدر پاکستان کی جانب سے خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنے سے متعلق بل، جو پارلیمنٹ سے 2010، سینیٹ سے 2012 میں منظور ہوچکا ہے، سمیت دیگر قوانین خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔
ہمارے ہاں قوانین کی کمی مسئلہ نہیں بلکہ قوانین پر عمل نہ ہونا مسئلہ ہے۔ جو بظاہر ممکن نہیں، کیونکہ ہمارا قانونی نظام رکھوالوں، قانون بنانے والوں کی جانب سے اس قدر کمزور کردیا گیا ہے کہ اکثر مقدمات خارج کردیے جاتے ہیں۔ سال 2021 کے دوران ایک محتاط اندازے کے مطابق 5900 کے قریب مقدمات قانونی اسقام کی وجہ سے خارج ہوئے۔ اس لیے اس مسئلے کا فوری اور آسان حل یہی ہے کہ علمائے اکرام میدان عمل میں اتریں، روایتی تقاریر چھوڑیں، سماجیات کو موضوع بیاں بنائیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب تک لوگوں کے دل کا یقین نہیں بدلے گا، جب تک انہیں اس بات کا یقین نہیں ہوگا کہ آج میں جو بو رہا ہوں کل مجھے یا میری اولاد کو کاٹنا پڑے گا، اس وقت تک ہمارے ہاں حقوق نسواں کے حوالے حالت دگرگوں رہے گی۔ ہم یہی سمجھتے رہیں گے ہر وہ لڑکی جو گھر سے کام کی غرض سے باہر نکلتی ہے وہ بری ہے۔ ہم اسے بیکری کے شوکیس میں رکھا ہوا رنگین کیک ہی سمجھتے رہیں گے۔ ہماری ہوس پرستی ہمیں یہ سوچنے ہی نہیں دے گی کہ ہوسکتا ہے یہ لڑکی اپنے دل کے مریض باپ کے علاج کےلیے ملازمت کررہی ہے، ہوسکتا ہے اس کا بھائی انہیں بے سہارا چھوڑ کر نشے کا عادی ہوچکا ہو۔ ہم ہرگز یہ نہیں سوچیں گے کہ ہمارے آفس میں کام کرنے والی آنٹی ایک ایسی مجبور خاتون ہیں جنہیں شوہر دوسری شادی کی غرض سے چھوڑ چکا ہے اور بچوں کی فیس، کپڑے اور دیگر اخراجات پورے کرنے کےلیے وہ گھر کی دہلیز چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
آج ہم اخلاقی طور پر اس قدر گر چکے ہیں کہ کسی بھی لڑکی، آنٹی کو برا سمجھتے ہوئے، شکار سمجھتے ہوئے ہمارے ذہن میں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ یہ مجبور لڑکیاں ہیں، یہ بیچاری گھر کی ضروریات، ماں باپ، بہن بھائی، شوہر اور بچوں کی خوشی کی خاطر دہری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو کون عورت یہ چاہے گی کہ پورا دن دفتر میں مغز ماری بھی کرے اور پھر گھر کے کام کاج بھی نمٹائے، گویا ڈبل نوکری۔
میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ گورنمنٹ اپنا کام نہ کرے بلکہ عرض صرف اتنی سی ہے کہ قوانین پر سختی کے ساتھ عمل ہو اور علمائے اکرام بھی اپنا کردار ادا کریں اور مسلسل اس مکروہ کام کے نقصانات بیان کریں تو عین ممکن ہے ہم اس مسئلے پر قابو پالیں گے۔ ورنہ ہم میں سے کسی کی بہن، بیٹی محفوظ نہیں رہے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
وہ اپنی ڈیوٹی شروع کرنے کےلیے جیسے ہی ہوٹل میں داخل ہوئی دو ٹھرکی ٹائپ پاکستانی بھائی اس کے پیچھے آدھمکے اور اسے یوں دیکھنے لگے جیسے بھوکا روٹی کو۔ اس ملک کے سخت قوانین کی وجہ سے انہیں ہمت نہیں ہورہی تھی کہ وہ اپنے جذبات کی تسکین کےلیے وہ سب کچھ کر گزریں جس کی انہیں تمنا تھی، لیکن وہ بس اسے گھورنے پر ہی اکتفا کررہے تھے۔ اچانک انہیں احساس ہوا کہ میں انہیں دیکھ رہا ہوں۔ مجھ سے نظریں چار ہونے پر وہ کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے اسے چائے کا آرڈر دے کر آپس میں گفتگو کرنے لگے۔
میں انہیں صرف جرم کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا تو وہ نہ صرف اپنی حرکت سے باز آگئے بلکہ شرمندہ بھی ہوئے، اگر انہیں یہ یقین ہوجائے کہ اللہ نہ صرف دیکھ رہا ہے بلکہ ان کی ہر لمحے کی ویڈیو بھی بن رہی ہے جو ایک دن ان کی شرمندگی اور ہمیشہ کی ناکامی کا باعث بنے گی تو غالب گمان ہے کہ یہ لوگ ایسی حرکت کرنے سے پہلے ایک نہیں ہزار بار سوچیں گے۔ گزشتہ دنوں ہوٹل میں کھانے کے دوران جو منظر میں نے دیکھا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اب یہ عام ہوتا جارہا ہے۔
اس تحریر کے ذریعے وطن عزیز کے علما سے انتہائی ادب سے ملتمس ہوں کہ براہِ کرم اپنے خطبوں میں اس موضوع پر مسلسل گفتگو کریں تاکہ خواتین کو تحفظ ملے۔ کیونکہ حکومتی قوانین جیسے تعزیراتِ پاکستان (پی پی سی) کی دفعہ 365 بی، پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 354 (عورت کی شائستگی کو مجروح کرنے کے ارادے سے اس پر حملہ یا مجرمانہ طاقت کے استعمال)، تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376، 506، 509، ٹیلی گراف ایکٹ، صدر پاکستان کی جانب سے خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ فراہم کرنے سے متعلق بل، جو پارلیمنٹ سے 2010، سینیٹ سے 2012 میں منظور ہوچکا ہے، سمیت دیگر قوانین خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔
ہمارے ہاں قوانین کی کمی مسئلہ نہیں بلکہ قوانین پر عمل نہ ہونا مسئلہ ہے۔ جو بظاہر ممکن نہیں، کیونکہ ہمارا قانونی نظام رکھوالوں، قانون بنانے والوں کی جانب سے اس قدر کمزور کردیا گیا ہے کہ اکثر مقدمات خارج کردیے جاتے ہیں۔ سال 2021 کے دوران ایک محتاط اندازے کے مطابق 5900 کے قریب مقدمات قانونی اسقام کی وجہ سے خارج ہوئے۔ اس لیے اس مسئلے کا فوری اور آسان حل یہی ہے کہ علمائے اکرام میدان عمل میں اتریں، روایتی تقاریر چھوڑیں، سماجیات کو موضوع بیاں بنائیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب تک لوگوں کے دل کا یقین نہیں بدلے گا، جب تک انہیں اس بات کا یقین نہیں ہوگا کہ آج میں جو بو رہا ہوں کل مجھے یا میری اولاد کو کاٹنا پڑے گا، اس وقت تک ہمارے ہاں حقوق نسواں کے حوالے حالت دگرگوں رہے گی۔ ہم یہی سمجھتے رہیں گے ہر وہ لڑکی جو گھر سے کام کی غرض سے باہر نکلتی ہے وہ بری ہے۔ ہم اسے بیکری کے شوکیس میں رکھا ہوا رنگین کیک ہی سمجھتے رہیں گے۔ ہماری ہوس پرستی ہمیں یہ سوچنے ہی نہیں دے گی کہ ہوسکتا ہے یہ لڑکی اپنے دل کے مریض باپ کے علاج کےلیے ملازمت کررہی ہے، ہوسکتا ہے اس کا بھائی انہیں بے سہارا چھوڑ کر نشے کا عادی ہوچکا ہو۔ ہم ہرگز یہ نہیں سوچیں گے کہ ہمارے آفس میں کام کرنے والی آنٹی ایک ایسی مجبور خاتون ہیں جنہیں شوہر دوسری شادی کی غرض سے چھوڑ چکا ہے اور بچوں کی فیس، کپڑے اور دیگر اخراجات پورے کرنے کےلیے وہ گھر کی دہلیز چھوڑنے پر مجبور ہیں۔
آج ہم اخلاقی طور پر اس قدر گر چکے ہیں کہ کسی بھی لڑکی، آنٹی کو برا سمجھتے ہوئے، شکار سمجھتے ہوئے ہمارے ذہن میں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ یہ مجبور لڑکیاں ہیں، یہ بیچاری گھر کی ضروریات، ماں باپ، بہن بھائی، شوہر اور بچوں کی خوشی کی خاطر دہری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو کون عورت یہ چاہے گی کہ پورا دن دفتر میں مغز ماری بھی کرے اور پھر گھر کے کام کاج بھی نمٹائے، گویا ڈبل نوکری۔
میرا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ گورنمنٹ اپنا کام نہ کرے بلکہ عرض صرف اتنی سی ہے کہ قوانین پر سختی کے ساتھ عمل ہو اور علمائے اکرام بھی اپنا کردار ادا کریں اور مسلسل اس مکروہ کام کے نقصانات بیان کریں تو عین ممکن ہے ہم اس مسئلے پر قابو پالیں گے۔ ورنہ ہم میں سے کسی کی بہن، بیٹی محفوظ نہیں رہے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔