رحمت باری کا حصول

’’بے شک! میرا رب بڑا بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘


Doctor Farhat Jamshaid September 13, 2012
سورۂ مومنون آیت 118: ’’اے میرے رب! درگزر فرما اور رحم فرما، تو سب رحیموں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘ فوٹو : ایکسپریس

ISLAMABAD: نیک اعمال کی قبولیت بلاشبہہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت کا اظہار ہے۔

قرآن حکیم فرقان مبین کے مطابق:''اﷲ کی رحمت اور مغفرت کے حصول کے لیے ایمان کے ساتھ عمل صالحہ بھی ضروری ہے۔''

سورۃ الاعراف آیت43 میں ارشاد ہوتا ہے:''وہ لوگ کہیں گے کہ اﷲ کا لاکھ لاکھ احسان ہے جس نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے، اور اگر اﷲ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہماری (یہاں تک) کبھی رسائی نہ ہوتی۔''

فرمان نبی کریم ﷺ ہے:''جنت میں کوئی بھی اﷲ کی رحمت کے بغیر نہیں جائے گا، یہاں تک کہ میں بھی نہیں جا سکوں گا، اگر اﷲ کی رحمت مجھے نہ ڈھانپے۔''

اس رحمت باری سے مراد آخرت کی وہ نعمتیں ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لیے تیار کررکھی ہیں۔

٭طلب رحمت کی دعائیں:
رب رحیم کی رحمت تمام مخلوقات کے لیے ہے، لیکن رحمت کی ارزانی خاص طور پر ان لوگوں پر ہوتی ہے جو اس کی آرزو کرتے ہیں اور اس کے طالب ہوتے ہیں۔
سورۃ البقرہ آیت 60میں ارشاد ہوتا ہے:''مجھے پکارو، میں دوں گا۔''

اسی سورۂ بقرہ کی آیت 152میں آیا ہے:''تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہیں یاد کروں گا۔''
قرآن میں اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمت حاصل کرنے کے لیے اس طرح سے ہدایات دی گئی ہیں:

٭ سورۂ مومنون آیت 118:
''اے میرے رب! درگزر فرما اور رحم فرما، تو سب رحیموں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔''

٭ سورۂ مومنون آیت109:
''اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے، ہمیں معاف کردے۔ ہم پر رحم کر۔ تو کُل رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحیم ہے۔''

٭سورۂ کہف آیت10:
''اے ہمارے رب! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں راستہ پانے کو آسان کردے۔''

٭ سورۃ الاعراف آیت23:
''اے ہمارے رب! ہم نے اپنے آپ پر بڑا ظلم کیا ہے ۔ اب اگر تو نے ہم سے درگزر نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو ہم یقیناً تباہ ہوجائیں گے۔''

٭سورۂ ہود آیت41:
''اﷲ ہی کے نام سے اس کا چلنا اور ٹھہرنا ہے ۔ بے شک! میرا رب بڑا بخشنے والا ہے اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔''

٭ سورۃ الاعراف آیت151:
''اے میرے رب! میری خطا معاف فرما اور میرے بھائی کی بھی اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔''

٭ سورۃ الاعراف آیات 155,156:
''تو ہی ہمارا کارساز ہے۔ پس ہمیں معاف فرما اور رحم فرما اور تو معافی دینے والوں میں سب سے زیادہ اچھا ہے۔ ہم لوگوں کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی لکھ دے۔ ہم تیری طرف رجوع کرتے ہیں۔''

٭ سورۂ نمل آیت19 :
''اے رب! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر، اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہیں۔ اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے۔ مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر لے۔''

٭ سورۃ الانبیاء آیت83 :
''اے رب! مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔''

٭ سورۂ یوسف آیت64 :
''اﷲ ہی بہترین حفاظت کرنے والا ہے۔ وہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔''

٭سورۂ یونس آیت85,86:
''ہم نے اﷲ ہی پر توکل کیا، اے ہمارے رب! ہم کو ان ظالموں کا تختۂ مشق نہ بنا اور ہم کو اپنی رحمت سے ان کافر لوگوں سے نجات دلادے۔''

٭ سورۂ عمران آیت8 :
''پروردگار! جب تو ہمیں سیدھے راستے پر لگا چکا ہے تو پھر کہیں ہمارے دلوں کو کجی میں مبتلا نہ کردینا، ہمیں اپنے خزانۂ فیض سے رحمت عطا کر کہ تو ہی فیضان حقیقی ہے۔''

٭ سورۂ بقرہ آیت286:
''اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہوجائیں، مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جو تو نے ہم سے پہلوں پر ڈالے تھے۔ اے ہمارے رب! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ ڈال۔ ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے درگزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولا ہے۔ کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر!''

٭رحمت باری تعالیٰ کی پہچان:
رحمت الٰہی کے بارے میں جاننے کے لیے آیات الٰہی کا یعنی اﷲ تعالیٰ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرنا اور ان کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔

یہ آیات یا نشانیاں اﷲ تعالیٰ کے علم و قدرت، شان خلاقی، شانِ ربوبیت، شان رزاقی اور شان رحم و رحمت کے مظاہرے ہیں۔ ان مظاہروں سے کوئی نتیجہ اخذ کرنے کے لیے اﷲ تعالیٰ کی جانب سے عطا کردہ سب سے بڑے انعام، یعنی علم و استعداد سے کام لینے کی ضرورت ہے جس کا تقاضا نظر و فکر، تجربہ ، مشاہدہ و تحقیق کے ساتھ طلب اور جستجو بھی ہے۔علم و ہدایت انسان کی سب سے بڑی ضرورت اور خالق و مالک حقیقی کی طرف سے سب سے بڑی رحمت ہے جس سے وہ اپنی دنیا کو سجا سکتا ہے اور آخرت کو سنوار سکتا ہے۔

علم حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ کلام الٰہی یعنی قرآن مجید ہے۔ اس میں دی گئی ہدایات کے مطابق عمل کرنے اور اس کی نشانیوں کی تحقیق کرنے پر ہی ان تمام سوالات کے جوابات مل سکتے ہیں۔
مختصراً قرآن مجید کی تشریحات کی روشنی میں رحمت کے معنیٰ ہیں دینی اور دنیاوی بھلائیاں۔

٭دینی بھلائیاں:
دینی بھلائیوں سے مراد، قرب الٰہی، ترقی درجات، مغفرت و بخشش، جنت اور اس کی بے اندازہ نعمتیں ہیں۔

سورۂ آل عمران آیت 107 میں ارشاد ہوتا ہے:
''(روز حشر) سفید چہرے والے اﷲ کی رحمت میں داخل ہوں گے۔''

سورۃ النور آیت 21 میں آیا ہے:''اگر اﷲ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی پاک و صاف نہ ہوتا۔''
سورۃ المومن آیت9 میں ارشاد ہوتا ہے:''جسے تو نے برائیوں سے بچالیا، اس پر تو نے رحمت کردی۔''

ان آیات مبارکہ کے مطابق یہ آخرت کی نعمتیں اور بھلائیاں ہیں جو اﷲ کی رحمت ہے۔ دوسرے الفاظ میں صدق دل اور نیک نیتی کے ساتھ کیے گئے اعمال کا اجر دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی ملے گا۔

٭دنیاوی رحمتیں اور بھلائیاں:
دنیاوی رحمتوں اور بھلائیوں سے مراد ہر وہ شے ہے جو انسان کے لیے باعث اطمینان اور خوشی و مسرت کا ذریعہ ہو مثلاً کامیابی، خوش حالی، مال و دولت، صحت و تن درستی، آل اولاد، علم و ہنر وٖغیرہ۔ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا نزول و حصول۔ انسان کو خوف و حزن کے کرب و عذاب سے بچانے والی ہوں۔

امن و امان۔ عادل و منصف حاکم۔
اﷲ تعالیٰ نے دنیاوی رحمتوں کو ہر ایک کے لیے عام کررکھا ہے۔ یہ غیر مشروط پر سب کے لیے یکساں ہیں، یعنی اس میں مومن و کافر اور نیک و بد کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا گیا ہے۔

یہ خوبیاں، یہ بھلائیاں اور یہ نعمتیں سب کے لیے ہیں اور ہر وقت جاری ہیں۔ یہ ازل سے ہیں اور ابد تک اسی طرح سے قائم رہیں گی، یعنی رب کائنات اپنے بندوں کے گناہوں، ان کی کوتاہیوں اور ان کی غلطیوں و لغزشوں پر ناراض ہو کر ان نعمتوں کو واپس نہیں لیتا ہے۔

ہمارا رب رحمن اور رحیم ہے۔ اس نے رحم و رحمت کا جذبہ انسان کو بھی عطا کیا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت و شفقت، ہمدردی و غم گساری، ایثار و قربانی، فیاضی و سخاوت، لطف و کرم، عدل و انصاف اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں۔

انسانوں میں رحمت کے اعلیٰ ترین درجے اور مقام کے حامل ہمارے نبی کریم ﷺ تھے۔ اﷲ رب العزت نے رسول مکرم ؐؐ کو رحمت کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز کیا۔ سورۃ الانبیاء آیت 107میں ارشاد ہوتا ہے:''اور ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا ہے۔'' اس آیت مبارکہ کے مطابق نبی کریمﷺ کو رحمۃ للعالمین کا لقب اور درجہ عطا کیا گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں