ایک ریاضی داں جس نے جنگ کا نقشہ بدل دیا
یہ ایک ایسا مشن تھا جس میں لاجک ایکسپرٹس اور ریاضی داں جرمنی کے سیکرٹ میسجز کو ڈی کرپٹ کرنے کا کام کرتے تھے
یہ کہانی ہے جنگ عظیم دوئم کی جب ایک ریاضی داں نے جنگ کا نقشہ بدل دیا، وہ وقت تھا جب جرمنی نازی جرمنی کے نام سے جانا جاتا تھا، ہٹلر کی آمریت کے بعد جرمنی کو نازی جرمنی کہا جانے لگا تھا، اگر آپ سے پوچھا جائے کہ جنگ کس بنیاد پر جیتی جاتی ہے تو آپ کہیں گے کہ جس کے پاس زیادہ افرادی قوت اور اسلحہ ہو گا وہ جنگ جیت جائے گا، اگر میں کہوں کہ جنگ عظیم دوئم کا ہیرو ایک ریاضی داں تھا تو کیا آپ میری بات پر یقین کریں گے؟
1939 کا سال تھا جب جنگ عظیم دوئم شروع ہوئی، جرمنی نے اس جنگ میں ایک مشین کا استعمال کیا جس کا نام انگما enigma تھا، یہ ایک ایسی مشین تھی جسے سمجھنا بہت مشکل تھا، کسی بھی جنگ میں ملٹری مشن کے دوران باہمی کمیونیکیشن کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے، اگر آپ کا پیغام دوران جنگ کسی دشمن کے ہاتھ لگ جائے تو اس سے ہونے والے کا نقصان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
اسی چیز کو روکنے کے لیے جرمنی نے انگما کا استعمال کیا، انگما ایک encryption مشین تھی جس کا کام عام پیغامات کو سیکرٹ کوڈڈ میسیجز میں تبدیل کرنا تھا، انگما میں cipher streamکا استعمال ہوتا تھا جس کی مدد سے پیغام کو ان کرپٹ کیا جاتا تھا، چلیے آپ کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں کہ انگما مشین کیسے کام کرتی تھی، مان لیجیے آپ اپنے کسی دوست کو انگما مشین کے ذریعے میسج کرنا چاہتے ہیں اور وہ میسیج ہے LOL۔ اس میسیج کو جب انگما مشین میں ٹائپ کیا گیا تو اس نے LOL کو Voh میسیج میں بدل دیا۔
اگر آپ فائنل ان کرپٹ میسیج Voh پر دھیان دیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ دونوں بار حرف ایل مختلف حرف میں تبدیل ہوا، یہ زیرو رینڈم مشین کی وجہ سے ممکن ہوا جس کی وجہ سے انگما کو توڑنا بہت مشکل تھا، کیوںکہ کسی بھی حرف کے ان کرپٹ ہونے کے کمبینیشنز لاکھوں میں تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ پیغام، وصول کرنے والا کیسے پڑھ پائے گا؟ یہ تب ممکن ہوگا جب وصول کنندہ کے پاس بھی انگما مشین ہو اور اس میں وہی سیٹنگز ہوں گی جو دوسری انگما مشین میں ہوں گی۔
ایلن میتھیسن ٹیورنگ ایک ریاضی داں، ماہرحیاتیات اور فلسفی تھے۔ ایلن کیمبرج یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر تھے۔ اُس وقت جنگ عظیم دوئم اپنے عروج پر تھی اور بہت سارے ممالک جرمنی کی انگما مشین کا توڑ نکالنے کی سر توڑ کوشش میں مصروف تھے، اگر جرمن ملٹری کے سیکرٹ میسجز کو ڈی کرپٹ کرلیا جاتا تو یہ جنگ کا رخ موڑ سکتا تھا۔ اس مقصد کے لیے برٹش ملٹری انٹیلی جنس نے ایک سیکرٹ مشن کا آغاز کیا جیسے "الٹرا" کا نام دیا گیا۔
یہ ایک ایسا مشن تھا جس میں لاجک ایکسپرٹس اور ریاضی داں جرمنی کے سیکرٹ میسجز کو ڈی کرپٹ کرنے کا کام کرتے تھے۔ اس خفیہ مشن کا ہیڈ کوارٹر بلیچلی پارک(Bletechly Park) میں واقع گورنمنٹ کوڈ اینڈ سائفر اسکول تھا۔
اس خفیہ مشین کے لیے برٹش ملٹری انٹیلی جنس نے اپنے ملک کے ذہین ترین ریاضی دانوں کو اکھٹا کیا ان میں سے ایک نام ایلن ٹیورنگ کا تھا ایلن کے سامنے انگما کے لاکھوں کمبینیشنز کو ڈی کرپٹ کرنے کا ایک نا ممکن چیلینج تھا، یہ تب ممکن ہوا جب انہوں نے 1939 میں ایک مشین بنائی جس کا نام بومب (Bombe) تھا یہ ایک الیکٹرو مکینیکل مشین تھی جو ایک ساتھ کئی انگما مشینز کے ایکشن کو ریپلی کیٹ کرتی تھی۔
اس اکیلی مشین سے جرمن میسجز کو ڈی کرپٹ کرنا کبھی ممکن نہ ہوتا اگر ایلن ٹیورنگ دوران پیغام رسانی جرمنز کی ایک خاص عادت کو نوٹ نہ کرتے اور وہ عادت تھی وہ دو الفاظ جو جرمنز اپنے ہر پیغام کے اختتام پر لکھتے تھے اور وہ الفاظ تھے Hitler" Heil " ایلن نے انہی دو الفاظ کو استعمال کرکے انگما کے کومبینیشن کو توڑا اور جرمن میسیجز کو ڈی کرپٹ کیا جس نے پوری جنگ کا نقشہ بدل کے رکھ دیا۔
جرمنز کی خفیہ معلومات اب خفیہ نہ رہی تھیں، اس مشین کی بدولت جرمنی کے بہت سے حملوں کو روکا گیا۔ اس کے اگلے ہی سال برطانوی حکومت نے اس بومب مشین کے ڈاکومنٹس امریکا کو دیے جس کی مدد سے امریکا نے اپنی بومب مشین بنائی، اس مشین کی وجہ سے اگلے چند سالوں میں اس جنگ کا اختتام ہو گیا۔
1951 میں ایلن نے اپنی ماسٹر پیس کتابThe Chemical Basis of Morphogenesis شایع کروائی۔ ایلن نے برٹش اولمپک ٹیم میں میرا تھون رنر کے طور پر بھی حصہ لیا جس میں وہ ایک انجری کی وجہ سے کام یاب نہ ہوسکے۔ ایلن نے اپنے ساتھ الٹرا مشن میں کام کرنے والی ایک فیلو ریاضی داں سے شادی کی مگر یہ شادی زیادہ عرصہ تک نہ چل سکی، ایلن ہم جنس پرست تھے، انہوں نے اپنی بیوی کے سامنے یہ تسلیم کیا اور یوں دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ اس کے بعد انہوں نے انیس سال کے ایک لڑکے آرنلڈ سے تعلق بنایا۔
اس زمانے میں برطانیہ میں ہم جنس پرست ہونا جرم تھا، لہٰذا اس تعلق کی بنا پر ایلن پر مقدمہ چلایا گیا اور سزا کے طور پر ایلن کا ہارمونل ٹریٹمنٹ کیا گیا، جسے انہوں نے خود چنا۔ اس علاج نے ان کی زندگی پر بہت برا اثر ڈالا۔ ہم جنس پرستی کی وجہ سے انہیں ان کے کام سے بھی نکالا گیا، ان سب چیزوں کا ایلن کے حواس پر گہرا اثر ہوا اور وہ خودکشی پر مجبور ہو گئے۔
وہ آٹھ جون انیس سو چون کا دن تھا جب ان کا ہاؤس کیپر ان کے کمرے میں گیا تو اس نے دیکھا کہ ایلن ٹیورنگ یہ دنیا چھوڑ کے جا چکے تھے۔ ان کی میز پر ایک ادھ کھایا ہوا سیب ملا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ ایلن کی موت سائنائڈ زہر سے ہوئی جسے انہوں نے سیب کے ساتھ کھایا، ایلن ٹیورنگ کو جدید کمپیوٹنگ اور آرٹی فیشل انٹیلی کا بانی بھی مانا جاتا ہے۔
1939 کا سال تھا جب جنگ عظیم دوئم شروع ہوئی، جرمنی نے اس جنگ میں ایک مشین کا استعمال کیا جس کا نام انگما enigma تھا، یہ ایک ایسی مشین تھی جسے سمجھنا بہت مشکل تھا، کسی بھی جنگ میں ملٹری مشن کے دوران باہمی کمیونیکیشن کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے، اگر آپ کا پیغام دوران جنگ کسی دشمن کے ہاتھ لگ جائے تو اس سے ہونے والے کا نقصان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
اسی چیز کو روکنے کے لیے جرمنی نے انگما کا استعمال کیا، انگما ایک encryption مشین تھی جس کا کام عام پیغامات کو سیکرٹ کوڈڈ میسیجز میں تبدیل کرنا تھا، انگما میں cipher streamکا استعمال ہوتا تھا جس کی مدد سے پیغام کو ان کرپٹ کیا جاتا تھا، چلیے آپ کو ایک مثال سے سمجھاتا ہوں کہ انگما مشین کیسے کام کرتی تھی، مان لیجیے آپ اپنے کسی دوست کو انگما مشین کے ذریعے میسج کرنا چاہتے ہیں اور وہ میسیج ہے LOL۔ اس میسیج کو جب انگما مشین میں ٹائپ کیا گیا تو اس نے LOL کو Voh میسیج میں بدل دیا۔
اگر آپ فائنل ان کرپٹ میسیج Voh پر دھیان دیں تو آپ کو نظر آئے گا کہ دونوں بار حرف ایل مختلف حرف میں تبدیل ہوا، یہ زیرو رینڈم مشین کی وجہ سے ممکن ہوا جس کی وجہ سے انگما کو توڑنا بہت مشکل تھا، کیوںکہ کسی بھی حرف کے ان کرپٹ ہونے کے کمبینیشنز لاکھوں میں تھے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ پیغام، وصول کرنے والا کیسے پڑھ پائے گا؟ یہ تب ممکن ہوگا جب وصول کنندہ کے پاس بھی انگما مشین ہو اور اس میں وہی سیٹنگز ہوں گی جو دوسری انگما مشین میں ہوں گی۔
ایلن میتھیسن ٹیورنگ ایک ریاضی داں، ماہرحیاتیات اور فلسفی تھے۔ ایلن کیمبرج یونیورسٹی میں ریاضی کے پروفیسر تھے۔ اُس وقت جنگ عظیم دوئم اپنے عروج پر تھی اور بہت سارے ممالک جرمنی کی انگما مشین کا توڑ نکالنے کی سر توڑ کوشش میں مصروف تھے، اگر جرمن ملٹری کے سیکرٹ میسجز کو ڈی کرپٹ کرلیا جاتا تو یہ جنگ کا رخ موڑ سکتا تھا۔ اس مقصد کے لیے برٹش ملٹری انٹیلی جنس نے ایک سیکرٹ مشن کا آغاز کیا جیسے "الٹرا" کا نام دیا گیا۔
یہ ایک ایسا مشن تھا جس میں لاجک ایکسپرٹس اور ریاضی داں جرمنی کے سیکرٹ میسجز کو ڈی کرپٹ کرنے کا کام کرتے تھے۔ اس خفیہ مشن کا ہیڈ کوارٹر بلیچلی پارک(Bletechly Park) میں واقع گورنمنٹ کوڈ اینڈ سائفر اسکول تھا۔
اس خفیہ مشین کے لیے برٹش ملٹری انٹیلی جنس نے اپنے ملک کے ذہین ترین ریاضی دانوں کو اکھٹا کیا ان میں سے ایک نام ایلن ٹیورنگ کا تھا ایلن کے سامنے انگما کے لاکھوں کمبینیشنز کو ڈی کرپٹ کرنے کا ایک نا ممکن چیلینج تھا، یہ تب ممکن ہوا جب انہوں نے 1939 میں ایک مشین بنائی جس کا نام بومب (Bombe) تھا یہ ایک الیکٹرو مکینیکل مشین تھی جو ایک ساتھ کئی انگما مشینز کے ایکشن کو ریپلی کیٹ کرتی تھی۔
اس اکیلی مشین سے جرمن میسجز کو ڈی کرپٹ کرنا کبھی ممکن نہ ہوتا اگر ایلن ٹیورنگ دوران پیغام رسانی جرمنز کی ایک خاص عادت کو نوٹ نہ کرتے اور وہ عادت تھی وہ دو الفاظ جو جرمنز اپنے ہر پیغام کے اختتام پر لکھتے تھے اور وہ الفاظ تھے Hitler" Heil " ایلن نے انہی دو الفاظ کو استعمال کرکے انگما کے کومبینیشن کو توڑا اور جرمن میسیجز کو ڈی کرپٹ کیا جس نے پوری جنگ کا نقشہ بدل کے رکھ دیا۔
جرمنز کی خفیہ معلومات اب خفیہ نہ رہی تھیں، اس مشین کی بدولت جرمنی کے بہت سے حملوں کو روکا گیا۔ اس کے اگلے ہی سال برطانوی حکومت نے اس بومب مشین کے ڈاکومنٹس امریکا کو دیے جس کی مدد سے امریکا نے اپنی بومب مشین بنائی، اس مشین کی وجہ سے اگلے چند سالوں میں اس جنگ کا اختتام ہو گیا۔
1951 میں ایلن نے اپنی ماسٹر پیس کتابThe Chemical Basis of Morphogenesis شایع کروائی۔ ایلن نے برٹش اولمپک ٹیم میں میرا تھون رنر کے طور پر بھی حصہ لیا جس میں وہ ایک انجری کی وجہ سے کام یاب نہ ہوسکے۔ ایلن نے اپنے ساتھ الٹرا مشن میں کام کرنے والی ایک فیلو ریاضی داں سے شادی کی مگر یہ شادی زیادہ عرصہ تک نہ چل سکی، ایلن ہم جنس پرست تھے، انہوں نے اپنی بیوی کے سامنے یہ تسلیم کیا اور یوں دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ اس کے بعد انہوں نے انیس سال کے ایک لڑکے آرنلڈ سے تعلق بنایا۔
اس زمانے میں برطانیہ میں ہم جنس پرست ہونا جرم تھا، لہٰذا اس تعلق کی بنا پر ایلن پر مقدمہ چلایا گیا اور سزا کے طور پر ایلن کا ہارمونل ٹریٹمنٹ کیا گیا، جسے انہوں نے خود چنا۔ اس علاج نے ان کی زندگی پر بہت برا اثر ڈالا۔ ہم جنس پرستی کی وجہ سے انہیں ان کے کام سے بھی نکالا گیا، ان سب چیزوں کا ایلن کے حواس پر گہرا اثر ہوا اور وہ خودکشی پر مجبور ہو گئے۔
وہ آٹھ جون انیس سو چون کا دن تھا جب ان کا ہاؤس کیپر ان کے کمرے میں گیا تو اس نے دیکھا کہ ایلن ٹیورنگ یہ دنیا چھوڑ کے جا چکے تھے۔ ان کی میز پر ایک ادھ کھایا ہوا سیب ملا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ ایلن کی موت سائنائڈ زہر سے ہوئی جسے انہوں نے سیب کے ساتھ کھایا، ایلن ٹیورنگ کو جدید کمپیوٹنگ اور آرٹی فیشل انٹیلی کا بانی بھی مانا جاتا ہے۔