گوادر اور سی پیک کے مثبت پہلو
اگر مستقل میں گوادر میں صنعتیں لگنی ہیں تو گوادر کو پاکستان کی اپنی بجلی کی ضرورت ہے
گوادر اور سی پیک پر میرا تین کالم ہی لکھنے کا ارادہ تھا۔ تاہم برادرم شازل رفیع کا بہت ہی غصہ والا فون آیا۔ انھوں نے مجھے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ کچھ نہیں ہوا۔ گوادر اور سی پیک کے تناظر میں بہت کام ہوا بھی ہے۔
آپ جہاں اب تک کی ناکامیاں اور کوتاہیاں لکھ رہے ہیں۔ وہاں آپ کا فرض ہے کہ آپ اب تک ہونے والے کام اور کامیابیاں بھی لکھیں۔ برادرم شازل رفیع کا موقف ہے کہ ہم صحافی ناامیدی پھیلاتے ہیں۔ ان کے مطابق صحافیوں کو امید بھی دکھانی چاہیے۔شازل رفیع کے مطابق جہاں میں نے M 8 کے نہ بننے کے بارے میں لکھا ہے۔
اس کے نہ بننے سے سی پیک اور گوادر کو ہونے والے نقصان کے بارے میں لکھا ہے وہاں مجھے یہ بھی لکھنا چاہیے تھا کہ بالاآخر M 8کا ٹینڈر ہوگیا ہے۔ ایک چینی کمپنی نے شفاف طریقے سے یہ ٹینڈر جیت لیا ہے اور جلد اس پر کام شروع ہو جائے گا۔ اس لیے M 8 کے بننے کی امید پیدا ہو گئی ہے۔ کام جلد شروع ہونے والا ہے۔
اسی طرح سی پیک کے تحت کئی منصوبوں پر کام مکمل ہوا ۔ چین سی پیک پر بہت بڑی سرمایہ کاری بھی کر چکا ہے۔ صرف گوادر میں چین کی اب تک 1.62بلین ڈ الر کی سرمایہ کاری ہوچکی ہے۔ اس میں گوادر پورٹ فری زون کا قیام ہوا ہے۔ 60ایکڑ کے اس منصوبے پر چین نے 300ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ گوادرا سمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان پر بھی چین نے چار ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
گوادر میں پاک چین ووکیشنل اینڈ ٹریننگ سینٹر پر بھی چین نے 10ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس ووکیشنل سینٹر میں گوادر کے نوجوانوں کو خصوصی ٹریننگ دی جا رہی ہے تا کہ وہ روزگار کما سکیں۔ مستقبل میں گوادر میں روزگار کے جو موقع پیدا ہونے ہیں ان کی خصوصی ٹریننگ دی جائے گی۔ اس ووکیشنل ٹریننگ میں زیر تعلیم طلبا چین میں بھی ٹریننگ اور پڑھنے کے لیے جائیں گے۔
گوادر میں ایسٹ ایکسپریس وے بھی بنا دی گئی ہے۔ یہ ایکسپریس وے مکمل ہو چکی ہے۔ یہ ایکسپریس وے چین کی 179ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایکسپریس وے گوادر کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ لیکن میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اس ایکسپریس وے پر ٹریفک کی مکمل آزادی نہیں۔ اس پر ناکے اور چیک پوسٹ ہیں۔ جب تک اس کو مکمل کھول نہیں دیا جاتا اس کے ثمرات نہیں مل سکتے۔
گوادر میں ایک نیا ائیرپورٹ بن رہا ہے۔ اس ائیر پورٹ پر کافی کام مکمل ہو چکا ہے۔ اسی سال میں یہ ائیر پورٹ کھل جائے گا جس کے بعد گوادر نہ صرف پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا کے ساتھ جڑ جائے گا۔ میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں لکھا ہے کہ ابھی تو ہم گوادر کو پاکستان کے ساتھ نہیں جوڑ سکے ہیں۔ دنیا کے ساتھ کیا جوڑیں گے۔ بہر حال نیا ائیر پورٹ بن رہا ہے۔ چین نے اس نئے ائیر پورٹ پر 230ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
یہ درست ہے کہ نیا ائیر پورٹ گوادر کی زندگی بدل دے گا۔ میں نے اپنے کالموں میں لکھا ہے کہ گوادر میں پانی کا مسئلہ ہے۔ گوادر میں پانی کے مسئلہ کے حل کے لیے واٹر ٹریٹ منٹ اور واٹر سپلائی کی اسکیم کے لیے بھی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ جس کے بعد گوادر میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ گوادر کے عوام کے لیے چین نے پاک چین دوستی اسپتال کا بھی تحٖفہ دیا ہے۔
اس اسپتال پر دو سال سے کام جاری ہے۔ دو سال سے صرف چالیس فیصد کام مکمل ہوا ہے۔ لیکن چین نے تحفہ دے دیا ہے اور کام شروع ہے۔ اگر سست ہے تو چین کا قصور نہیں ہے۔ لیکن کام ہو رہا ہے۔اس کو مثبت نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
سی پیک کے تحت چین گوادر کی بجلی کی ضروریات کے لیے تین سو میگاواٹ کے کول پاور پلانٹ کے منصوبے پر سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس ضمن میں چین کی جانب سے اعلان ہو چکا ہے۔ لیکن اس نئے پلانٹ کو لگانے کے لیے تیار نہیں ۔ چین کا موقف ہے کہ گوادر کو ابھی ایران سے بجلی آرہی ہے۔ اگر مستقل میں گوادر میں صنعتیں لگنی ہیں تو گوادر کو پاکستان کی اپنی بجلی کی ضرورت ہے۔ ہم کسی دوسرے ملک کی بجلی پر گوادر کو کیسے رکھ سکتے ہیں۔