کراچی میں 5 ہزار افراد ناریل فروخت کرنے کے پیشے سے وابستہ ہیں ایکسپریس سروے

موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی مختلف علاقوں میں ناریل کی فروخت شروع ہوگئی، سیزن ماہ مارچ سے نومبرتک جاری رہتا ہے


عامر خان March 10, 2014
آرام باغ میںفٹ پاتھ پر ناریل فروش تھال میں ناریل کی گری ترتیب سے رکھ رہا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی میں موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی مختلف علاقوں میں ناریل کی فروخت شروع ہو گئی ہے ، ناریل گرمیوں میں نہ صرف جسم کو توانا رکھتا ہے بلکہ اس کے استعمال سے جسم میں ٹھنڈک کا احساس بھی ہوتا ہے۔

گرمیوں میں بے روزگار افراد کی بڑی تعداد اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے ناریل کی فروخت کے پیشے سے وابستہ ہو جاتی ہے،کراچی میں 4 سے 5 ہزار افراد ناریل کی فروخت کے پیشے سے وابستہ ہیں، ایکسپریس نے ناریل فروخت کرنے والوں کے پیشے کے حوالے سے سروے کیا ، سروے کے دوران ناریل فروخت کرنے والے سراج طفیل نے بتایا کہ ناریل کا سیزن مارچ میں شروع ہوتا ہے جو نومبر کے پہلے ہفتے تک جاری رہتا ہے ، ناریل فروخت کرنے والوں کی بڑی تعداد کا تعلق جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع سے ہے، انھوں نے بتایا کہ ان علاقوں سے بڑی تعداد میں بے روزگار افراد فروری کے آخری ہفتے میں کراچی آ جاتے ہیں اور پھر 10 ہزار روپے کی چھوٹی سرمایہ کاری سے ناریل کی فروخت کا کام شروع کر دیتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے 60 فیصد پنجابی اور سرائیکی کمیونٹی جبکہ40 فیصد اردو اور دیگر کمیونٹی کے لوگ وابستہ ہیں، انھوں نے بتایا کہ کراچی کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی بے روزگاری کی وجہ سے اس پیشے سے وابستہ ہو رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ یہ محنت طلب کام تو ہے لیکن 12 سے 14گھنٹے محنت کرنے کے بعد 500 روپے کی بچت ہو جاتی ہے ،انھوں نے بتایا کہ ناریل جون، جولائی اور اگست کے مہینے میں زیادہ فروخت ہوتا ہے کیونکہ ان مہینوں میں گرمی زیادہ ہوتی ہے اور لوگ گرمی سے بچنے کے لیے ناریل کا استعمال کرتے ہیں اور اس کا پانی پیتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ اندرون ملک سے آئے ہوئے لوگ8سے9ماہ کراچی میں رہنے کے بعد واپس اپنے آبائی علاقوں میں چلے جاتے ہیں اور وہاں 3 مہینے گزار کر دوبارہ کراچی آ جاتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں امن وامان کی خراب صورت حال کے منفی اثرات ناریل کی فروخت کے کام پر بھی پڑ رہے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ یہ ہوائی روزی ہے ، روزانہ محنت کرکے کمانا پڑتا ہے ، جب شہر میں ہڑتال ہوتی ہے تو ناریل فروخت کرنے والے افراد فاقہ کشی کا شکار ہو جاتے ہیں،انھوں نے بتایا کہ کراچی میں اندرون ملک سے آئے ہوئے لوگ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت کرائے پر رہائش حاصل کرتے ہیں اور ایک ہی گاؤں سے تعلق رکھنے والے افراد مشترکہ رہائش اختیار کرکے ہوٹل پر کھانا کھاتے ہیں یا پھر خود کھانا پکاتے ہیں،انھوں نے بتایا کہ کراچی میں 4 سے 5 ہزار افراد ناریل کی فروخت کے پیشے سے وابستہ ہیں، انھوں نے بتایا کہ کراچی میں پھیری لگا کر ناریل کی فروخت ٹھیکیداری نظام کے تحت بھی ہوتی ہے، ٹھیکیدار مختلف افراد کو ٹھیلے اور ناریل فراہم کرتا ہے، اس ٹھیلے پر 4X6 فٹ کی چوکی لگائی جاتی ہے جس کے اوپر پلاسٹک کی شیٹ لگی ہوتی ہے،اس شیٹ پر ناریل کو کاٹ کر رکھا جاتا ہے اور پھر ان کو فروخت کیا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ناریل کی 2 اقسام ہوتی ہیں ،کچے ناریل سے اس کا پانی حاصل کیا جاتا ہے جبکہ پکے ناریل سے کھوپرا حاصل کیا جاتاہے، علاوہ ازیں پاکستان میں ناریل کی پیداوار کراچی، ٹھٹھہ ، کیٹی بندر اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ہوتی ہے جبکہ ناریل سری لنکا ، بھارت ، نیپال اور دیگر ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے تاہم زیادہ ترناریل سری لنکا سے درآمد ہوتا ہے، کراچی میں ناریل کی پیداوار ملیر میں ہوتی ہے جہاں ناریل کے بڑے باغات ہیں ، مقامی ناریل فروش نے بتایا کہ ناریل کو درخت سے اتارنے کے خصوصی کاریگر ہوتے ہیں جو انتہائی مہارت کے ساتھ درختوں پر چڑھتے ہیں اور پھر ناریل کو ٹکی کی مدد سے توڑا جاتا ہے،کراچی میں ناریل کی فروخت کا بڑا مرکز جوڑیا بازار ہے جہاں 100 سے زائد ناریل کے بیوپاری ہیں،یہاں مقامی ناریل فروش سمیت اندرون ملک کے بیوپاری بھی ناریل خریدتے ہیں،ناریل کی فروخت بوری کی صورت میں ہوتی ہے،60 دانے کی بوری 4500 جبکہ80دانے کی بوری 4800 روپے تک ملتی ہے،ناریل کی بوری کے ریٹ روزانہ کی بنیاد پر تبدیل ہوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔