آپ نے میرے تڑپنے کا سلیقہ دیکھا

جلوس کا ہر فرد سفید لباس میں تھا اور کسی بھی فرد کی زبان پر کسی قسم کا کوئی نعرہ یا فقرہ نہیں تھا

FRANKFURT:
کوئی چھ برس قبل یہی جون کا مہینہ تھا جب بھارت کے شہر احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی سانحے پرمجسٹریٹ کا فیصلہ سنا تھا تو نجانے کیا کچھ یاد آیا تھا کوئی پچیس برس قبل کا زمانہ اور ہماری مشاعرے بازی۔ احمد آباد میں رحمت ؔ امروہوی، جمالؔ قریشی سے تو ہم پہلے ہی سے واقف تھے مگر احسان جعفری سے ملایا تھا ،ہمارے جانی دوست عدیل صدیقی مرحوم نے، انڈو سوویت سو سائٹی کا وہ خود ایک سرگرم کردار تھا اور اگر ہمارا حافظہ خطا نہیں کررہا ہے تو احسان جعفری سوسائٹی ہٰذا کے بانی تھے۔

انڈو سوویت سوسائٹی(احمد آباد) کے مشاعرے ہی نہیں ہمارے لیے احسان جعفری بھی ناقابل ِفراموش ہیں۔ مرحوم جس طرح پہلے دن ملے تھے وہ گرم جوشی اور اُن کا اخلاق و اخلاص آخری ملاقات تک باقی رہا۔ جب اُن کا شعری مجموعہ''قندیل'' زیور طباعت سے آراستہ ہو کر منظر عام پر آیا تو انھوں نے اس کی ایک کاپی ہمارے نام گھرکے پتے پر بھجوائی تھی۔2016 جون میں خصوصی میٹرو پلیٹن مجسٹریٹ کے فیصلے کی خبر پڑھی اور اس پر بھابی ذکیہ جعفری کا یہ کہنا کہ

''مجھے نصف انصاف ملا ہے، یہ جنگ جاری رہے گی۔''

ایک ایقان نے احساس دِلایا کہ انسانی فیصلے اور انسانی عمل کے پیچھے بھی کوئی عمل کار فرما رہتا ہے۔ بیگم ذکیہ جعفری کے جملے کا آخری ٹکڑا''یہ جنگ جاری رہے گی۔'' نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دِیا کہ احسان جعفری مرحوم نے اپنے شعری مجموعے کا نام''قندیل'' جو بھی سوچ کر رکھا ہوگا مگراس وقت اور گلبرگ سوسائٹی کا جاں سوز حادثہ اور چودہ برس بعد بقول ذکیہ بھابی ''نصف انصاف ملا ہے'' اور پھر ان کا یہ کہنا کہ''جنگ جاری رہیگی'' اس لفظ قندیل کی معنوی وسعت کی ایک دلیل بھی محسوس ہوا۔ قندیل روشنی دینے وا لا ایک چھوٹا سا ذریعہ ہوتا ہے مگر یہ اپنے معنوی پندار میں اُجالے کا ایک بڑا استعارہ بھی ہے۔

احسان جعفری نے قندیل کے سرورق پر لکڑی کا کھمبا اور اس پر لالٹین بنوائی تھی۔مرحوم احسانؔ جعفری کے ذہن میں یہ رہا ہو گا یا نہیں کہ آنے والے وقت میں یہ آرٹ ورک کس قدر اہم معنویت اختیار کر لے گا اور حالات پر کس قدر منطبق ہوگا۔

احسان جعفری نہ صرف خود ایک اچھے شاعر تھے بلکہ انھیں دوسروں کے اشعار بھی خوب یاد تھے جس سے ان کا اعلیٰ ذوقِ شعری بھی جھلکتا تھا۔

ہم جب اُن سے ملے تھے تواُس سے پہلے وہ پارلیمان کی سیڑھیاں اُتر چکے تھے مگر ''رکن ِپارلیمان'' کا سابقہ اُن کالاحقہ بنا ہوا تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ فرقہ پرستوں نے ایک ایسے شخص کو بھی نہیں چھوڑا جو اپنے لوگوں میں بھی پھیلی ہوئی فرقہ واریت کا دشمن تھا۔جب 28 فروری 2002 کے دوسرے دِن یہ سنا کہ احمد آباد کے چمن پورہ کی گلبرگ سوسائٹی کو نذر آتش کردیا گیا اور اس آتش زنی میں 68 افراد کے ساتھ جلنے والوں میں احسان جعفری بھی شامل ہیں۔

اس آگ کی تپش اس وقت تو جو محسوس ہوئی تھی وہ اپنی جگہ مگر آج بھی جب اس کی یاد آتی ہے تو اس کے شعلے جیسے ہمارے پورے وجود کو نگلنے کے لیے سامنے ہی نظر آتے ہیں۔ احسان جعفری سے دور قریب کی بھی ہماری کوئی رشتے داری نہیں تھی، لیکن تھی، وہی جسے انسانی رشتہ کہتے ہیں۔ محترمہ ذکیہ تو ان کی شریک حیات رہی ہیں اور انھوں نے وہ شعلے دیکھے ہیں جس نے احسان جعفری کو راکھ کردیا تھا۔ یہ سوچتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ محترمہ تو آج بھی ان شعلوں کی یادوں میں پل پل سلگ رہی ہیں۔ بے شک انھیں اپنی آخری سانس تک اپنے شوہر پر ہونے والے ظلم کے خلاف جنگ لڑنی ہی چاہیے تھی۔


گزشتہ جمعے (24 جون 2022)کو بھارتی سپریم کورٹ نے 2002 میں ہونے والے احسان جعفری معاملے میں نریندر مودی کو کلین چٹ دے دی، ہم جیسے فراموش طبع قارئین کے لیے عرض ہے کہ بدنام زمانہ گودھرا واقعہ جس میں ٹرین ''سابرمتی ایکسپریس'' کے ایک ڈبے (کوچ) کو نذر آتش کردیا گیا تھا جس میں بابری مسجد کی جگہ بننے والے رام مندر کے کارسیوک سوار تھے، مبینہ طور پر اس ٹرین کی آتش زنی میں 59 انسانی جانیں تلف ہوگئی تھیں اور اس کے دوسرے ہی دن احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی کو نذرآتش کردیا گیا جس میں احسان جعفری سمیت 68 انسان تعصب اور نفرت کے شعلوں کی نذر ہوگئے۔

یاد رہے کہ اس وقت ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی ہی تھے جو اب ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں۔ گودھرا ٹرین حادثے کا ریاست گجرات بھر میں جیسے انتقام لیا گیا تھا (وزیر داخلہ امیت شا کا یہ بیان تو ہمیں آج بھی یاد ہے کہ گجرات کے دنگے گودھرا کا غصہ ہیں۔) کیسی کیسی دل سوز روداد سنی سنائی گئیں کہ آج بھی جن کا تصور دہلا دیتا ہے۔ ان مظالم کے خلاف گجرات انتظامیہ اور وہاں کی پولیس نے کوئی کارروائی کی یا نہیں مگر اس کے دامن پر بڑے گہرے داغ لگے تھے بلکہ وہ داغ دنیا بھر کے مظلوم دوستوں کے ذہنوں میں اب تک تازہ ہیں۔

احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری پورے بیس برس سے اپنے شوہر پر ہونے والے ظلم کے خلاف سرگرم ہیں بلکہ یہ معمر اور جری خاتون اب بھی گلبرگ سوسائٹی (احمد آباد) کے سنگین سانحے کے ظالموںکے خلاف علم لیے کھڑی ہیں ہرچندکہ گزشتہ جمعہ کو ہندوستانی سپریم کورٹ نے ذکیہ جعفری کی عرضی کو خارج کردیا ہے اور یہی نہیں گجرات فسادات کے مجرموں کے خلاف لڑنے والی ایک اور دبنگ خاتون ٹیستا ستیلواد جوکہ ذکیہ جعفری کے شانہ بہ شانہ لڑ رہی تھیں، انھیں گرفتار کرکے گجرات فسادات کے مجرموں کو بچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ ایک نوٹ کرنے کی بات ہے کہ گجرات فسادات کے خلاف لڑنے والوں میں ابتدا ہی سے ذکیہ جعفری اور ٹیستا جیسی خواتین آگے آگے تھیں۔

ممبئی میں بوہر فرقے کے پیشوا (سیدنا) کی گاڑی کے نیچے کسی شری نے کوئی پٹاخہ جیسا دھماکا کردیا تھا، تین دہائی قبل اس شر انگیزی کے خلاف ممبئی کے بوہریوں نے منترالیہ (سیکریٹریٹ) کی طرف احتجاجی جلوس نکالا جب وہ جلوس ممبئی وکٹوریہ ٹرمنس کے سامنے سے گزر رہا تھا، واضح رہا کہ یہ یہاں کا مرکزی لوکل ریلوے اسٹیشن ہے جہاں اکثر اوقات مختلف مذاہب کے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں تو ہم نے دیکھا کہ جلوس میں انتہائی درجے کی خاموشی چھائی ہوئی تھی جو بوہریوں کے غم و غصے کا اظہار محسوس ہو رہی تھی۔

اس جلوس کی دوسری اہم بات یہ تھی کہ جلوس کا ہر فرد سفید لباس میں تھا اور کسی بھی فرد کی زبان پر کسی قسم کا کوئی نعرہ یا فقرہ نہیں تھا، یہ بھی نوٹ کرنے کی بات تھی کہ وہ جلوس چل نہیں رہا تھا بلکہ پانچ پانچ فرد کی ایک ایک قطار تھی جو آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہی تھی جیسے مارچ کی حالت میں ہو اور ہر فرد کے ہاتھ میں ایک پلے کارڈ تھا جس پر درج ان کے غم و غصے کے لفظیات تھے۔ مسلمانوں کے اس اقلیتی فرقے کی پانچ پانچ فرد کی قطار اور اس کی سنجیدگی کے ساتھ لباس کی سفیدی، دیکھنے والوں پر ایک ہیبت جیسی فضا بنا رہی تھی۔

راقم السطور ممبئی میں نصف صدی سے زائد مدت سے مقیم ہے اور یہاں مختلف مواقعوں پر عام مسلمانوں کے ایک نہیں سیکڑوں جلوس دیکھ چکا ہے مگر جیسا سنجیدہ احتجاج بوہریوں کے اس جلوس میں دیکھا وہ پھر کبھی نظر نہیں آیا بلکہ ہم مسلمانوں کے اکثریتی فرقے کے جو جلوس نکلتے ہیں ان میں عام طور پر نظم و نسق اور سنجیدگی کا فقدان ہوتا ہے۔ بوہریوں کا متذکرہ جلوس دیکھتے وقت اور یہ سطریں رقم کرتے ہوئے بھی تاج بھوپالی کا شعر ذہن میں گونجتا رہا۔

ایک چھینٹا بھی کہیں دامن قاتل پہ نہیں

آپ نے میرے تڑپنے کا سلیقہ دیکھا
Load Next Story