جدوجہد آزادی تاریخی پس منظر
بلاشبہ آزادی کا تصور کسی بھی قوم کے لیے تابناک مستقبل کی نوید ہوتی ہے
ISLAMABAD:
اگلے ماہ 14اگست کوپوری قوم اپنا 75واں یوم آزادی منانے کی تیاریاں کررہی ہے، ایسے میں نئی نسل کو ملک کی تاریخ سے روشناس کرنا ضروری ہے، آخروہ کیا حالات تھے کہ برصغیر میں مسلمانان ہند نے اپنے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا اور اسے پانے کے لیے ہمیں کتنی طویل جدوجہد کرنا پڑی۔ اسی تناظر میں زیر نظر کالم نسل نو کی نذر ہے ۔
بیس ویں صدی کی ابتداء میں برصغیر کے مسلمانوں نے سیاست سے کنارہ کشی کی حکمت عملی کو ترک کرکے سیاست میں بھر پور حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔مسلمانوں کے روئیے میں اس تبدیلی کے بعد اکتوبر 1906میں مسلمانوں کا ایک وفد وائسرائے سے ملنے شملہ گیا اور اسی سال دسمبر میں مسلم لیگ معرض وجود میں آگئی ۔اس پس منظر میں قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا ۔1916 میں کانگریس اور لیگ کے درمیان میثاق لکھنوپر دستخط ہوئے اور دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ملک کی آزادی کے لیے جد و جہد کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہندو مسلم اتحاد کے داعی کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہوسکتی تھی لیکن کانگریس اپنے وعدوں میںمخلص نہ تھی، شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں مسلمانوں کے مفاد کے سراسر خلاف تھیں ۔تجاویز دہلی کی صورت میں قائد اعظم نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے ایک مرتبہ پھر کوشش کی لیکن نہرو رپورٹ نے ان کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔وہ ہندو مسلم اتحاد سے مایوس ہوگئے اور ایسی خلیج پیدا ہوگئی جو پھر کبھی پر نہ ہوسکی ۔
23مارچ1940 میں قرارداد لاہور کے ذریعے تحریک پاکستان کا آغاز ہوا ۔3جون 1947 کو تاریخی حیثیت حاصل ہے اس روز ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کے منصوبے کا باقاعدہ اور باضابطہ اعلان کردیا تھا اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ حکومت برطانیہ دو ماہ کے اندراندر اپنی بساط سمیٹ کر یہاں سے چلی جائے گی ۔تقسیم ملک کی یہ اسکیم جب مسلم لیگ اور کانگریس نے منظور کرلی تو دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کو آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے اپنی ،اپنی قوم سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔
چناچہ 3جون 1947 کو تقسیم ہند منصوبے کے حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح نے پہلی بار آل انڈیا ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا اور اپنی تقریر کا اختتام پاکستان زندہ باد کے ولولہ انگیز نعرے پر کیا تھا ۔27رمضان المبارک 1366ھجری بمطابق 13,14اگست 1947 کی درمیانی شب کو ہمارا وطن عزیز پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر 20لاکھ سے زائد انسانی جانوں کا نذرانہ دینے ،جائیداد ،مال و متاع کی قربانی پیش کرنے کے بعد انگریز سامراج کی غلامی اور متعصب ہندوؤں کے ظلم و ستم سے آزاد ہوکر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا ۔
بلاشبہ آزادی کا تصور کسی بھی قوم کے لیے تابناک مستقبل کی نوید ہوتی ہے ، غلام لوگ جب آزادی کی جدو جہد کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں روشن مستقبل کی چمک کانوں میں سکھ چین کی گھنٹیاں اور ذہن میں خوبصورت خواب ہوتے ہیں ۔آزادی کا سفر پستی سے بلندی کی طرف اور اندھیروں سے روشنی کی جانب ہوتا ہے۔آگ اور خون کے دریا عبور کرکے مسلمانان ہند اپنے نئے روحانی وطن پاکستان میں داخل ہوتے ہیں ،ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، مگر افسوس ! قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت ، لیاقت علی خان کی شہادت اور دیگر تحریکی رہنماؤں کی یکے بعد دیگرے جدائی کے بعد تکمیل پاکستان کے مقاصد کو فراموش کردیا گیا اقتدار پر چھینا جھپٹی کا رواج عام ہوا ٹیڑھی ترچھی پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے ہم اپنا راستہ بھول گئے ہیں یہ معلوم ہی نہیں رہا کہ ہماری منزل کہاں ہے ؟
ہم میں کیا کھویا اور کیا پایا ؟ اس کا جائزہ پاکستانی قوم وقتا فوقتا لیتی رہی ہے ۔پاکستان کے ازلی دشمنوں نے مل کر وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوئے کہ باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کو باآسانی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے ، لیکن پاکستان نے 28مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کو حیران کردیا کہ پاکستان ایک کمزور ملک نہیں ہے بلکہ ایک ایٹمی قوت ہے اور متحد قوم ہے لیکن دشمن آج بھی سازشوں میں مصروف دکھائی دے رہا ہے ۔پے در پے شکست کے باوجود وہ اکھنڈ بھارت کا بے تعبیر خواب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔
مادر وطن کی حفاظت کرنا ،اسے ترقی ،خوشحالی اور استحکام بہم پہنچانا ہر پاکستانی شہری کی بنیادی ذمے داری ہے خواہ اس کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو، اسے اپنے عمل و کردار سے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں کام کرنا ہوگا ۔آج ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ ہم (پاکستانی قوم )تمام تر سیاسی ،جماعتی ،گروہی لسانی وابستگی سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف اپنے پیارے وطن کے تحفظ ،سلامتی ،ترقی و خوشحالی اور استحکام کے لیے کام کریں ۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے ؟ بلکہ سوچنا یہ چاہییے کہ ہم نے بحیثیت ایک پاکستانی شہری کے اپنے وطن عزیز کو کیا دیا ہے؟
بلاشبہ ہم سب نے دانستہ و غیر دانستہ طور پر قائد اعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ اقبال اور تحریک پاکستان کے لاکھوں کارکنوں کی خواہشات کے برخلاف کام کیے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور استحکام و تکمیل پاکستان کے لیے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو وقف کردیں اور اپنے آپ کو خود احتسابی کے عمل سے گزار کر وہی کام کریں جو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہو۔
یاد رکھیں ! جب تک ہم سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے ایک رہیں گے ،دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست و ریخت سے دوچار کر نہیں سکتی ۔ہر اندھیری رات کے بعد سورج طلوع ہوتا ہے ،ایک نئے احساس و امید کے ساتھ کہ اس کی کرنیں ہر سو روشنی پھیلادیں گی ۔پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا اور ہمیشہ قائم ودائم رہے گا ۔ اس لیے پاکستان بھی لافانی مملکت ہے اس کے دشمن نیست و نابود ہوجائیں گے اور پاکستان تاقیامت سلامت رہے گا ۔ انشاء اللہ ، پاکستان زندہ باد۔
اگلے ماہ 14اگست کوپوری قوم اپنا 75واں یوم آزادی منانے کی تیاریاں کررہی ہے، ایسے میں نئی نسل کو ملک کی تاریخ سے روشناس کرنا ضروری ہے، آخروہ کیا حالات تھے کہ برصغیر میں مسلمانان ہند نے اپنے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا اور اسے پانے کے لیے ہمیں کتنی طویل جدوجہد کرنا پڑی۔ اسی تناظر میں زیر نظر کالم نسل نو کی نذر ہے ۔
بیس ویں صدی کی ابتداء میں برصغیر کے مسلمانوں نے سیاست سے کنارہ کشی کی حکمت عملی کو ترک کرکے سیاست میں بھر پور حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔مسلمانوں کے روئیے میں اس تبدیلی کے بعد اکتوبر 1906میں مسلمانوں کا ایک وفد وائسرائے سے ملنے شملہ گیا اور اسی سال دسمبر میں مسلم لیگ معرض وجود میں آگئی ۔اس پس منظر میں قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا ۔1916 میں کانگریس اور لیگ کے درمیان میثاق لکھنوپر دستخط ہوئے اور دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ملک کی آزادی کے لیے جد و جہد کرنے کا فیصلہ کیا۔
ہندو مسلم اتحاد کے داعی کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی ہوسکتی تھی لیکن کانگریس اپنے وعدوں میںمخلص نہ تھی، شدھی اور سنگھٹن کی تحریکیں مسلمانوں کے مفاد کے سراسر خلاف تھیں ۔تجاویز دہلی کی صورت میں قائد اعظم نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے ایک مرتبہ پھر کوشش کی لیکن نہرو رپورٹ نے ان کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا ۔وہ ہندو مسلم اتحاد سے مایوس ہوگئے اور ایسی خلیج پیدا ہوگئی جو پھر کبھی پر نہ ہوسکی ۔
23مارچ1940 میں قرارداد لاہور کے ذریعے تحریک پاکستان کا آغاز ہوا ۔3جون 1947 کو تاریخی حیثیت حاصل ہے اس روز ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیم ہند کے منصوبے کا باقاعدہ اور باضابطہ اعلان کردیا تھا اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ حکومت برطانیہ دو ماہ کے اندراندر اپنی بساط سمیٹ کر یہاں سے چلی جائے گی ۔تقسیم ملک کی یہ اسکیم جب مسلم لیگ اور کانگریس نے منظور کرلی تو دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کو آل انڈیا ریڈیو کے ذریعے اپنی ،اپنی قوم سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔
چناچہ 3جون 1947 کو تقسیم ہند منصوبے کے حوالے سے قائد اعظم محمد علی جناح نے پہلی بار آل انڈیا ریڈیو پر قوم سے خطاب کیا اور اپنی تقریر کا اختتام پاکستان زندہ باد کے ولولہ انگیز نعرے پر کیا تھا ۔27رمضان المبارک 1366ھجری بمطابق 13,14اگست 1947 کی درمیانی شب کو ہمارا وطن عزیز پاکستان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر 20لاکھ سے زائد انسانی جانوں کا نذرانہ دینے ،جائیداد ،مال و متاع کی قربانی پیش کرنے کے بعد انگریز سامراج کی غلامی اور متعصب ہندوؤں کے ظلم و ستم سے آزاد ہوکر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا ۔
بلاشبہ آزادی کا تصور کسی بھی قوم کے لیے تابناک مستقبل کی نوید ہوتی ہے ، غلام لوگ جب آزادی کی جدو جہد کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں روشن مستقبل کی چمک کانوں میں سکھ چین کی گھنٹیاں اور ذہن میں خوبصورت خواب ہوتے ہیں ۔آزادی کا سفر پستی سے بلندی کی طرف اور اندھیروں سے روشنی کی جانب ہوتا ہے۔آگ اور خون کے دریا عبور کرکے مسلمانان ہند اپنے نئے روحانی وطن پاکستان میں داخل ہوتے ہیں ،ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے، مگر افسوس ! قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت ، لیاقت علی خان کی شہادت اور دیگر تحریکی رہنماؤں کی یکے بعد دیگرے جدائی کے بعد تکمیل پاکستان کے مقاصد کو فراموش کردیا گیا اقتدار پر چھینا جھپٹی کا رواج عام ہوا ٹیڑھی ترچھی پگڈنڈیوں پر چلتے چلتے ہم اپنا راستہ بھول گئے ہیں یہ معلوم ہی نہیں رہا کہ ہماری منزل کہاں ہے ؟
ہم میں کیا کھویا اور کیا پایا ؟ اس کا جائزہ پاکستانی قوم وقتا فوقتا لیتی رہی ہے ۔پاکستان کے ازلی دشمنوں نے مل کر وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہوئے کہ باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کو باآسانی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے ، لیکن پاکستان نے 28مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کو حیران کردیا کہ پاکستان ایک کمزور ملک نہیں ہے بلکہ ایک ایٹمی قوت ہے اور متحد قوم ہے لیکن دشمن آج بھی سازشوں میں مصروف دکھائی دے رہا ہے ۔پے در پے شکست کے باوجود وہ اکھنڈ بھارت کا بے تعبیر خواب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔
مادر وطن کی حفاظت کرنا ،اسے ترقی ،خوشحالی اور استحکام بہم پہنچانا ہر پاکستانی شہری کی بنیادی ذمے داری ہے خواہ اس کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو، اسے اپنے عمل و کردار سے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں کام کرنا ہوگا ۔آج ملک جن حالات سے گزر رہا ہے اس کا تقاضہ ہے کہ ہم (پاکستانی قوم )تمام تر سیاسی ،جماعتی ،گروہی لسانی وابستگی سے بالاتر ہوکر صرف اور صرف اپنے پیارے وطن کے تحفظ ،سلامتی ،ترقی و خوشحالی اور استحکام کے لیے کام کریں ۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے ؟ بلکہ سوچنا یہ چاہییے کہ ہم نے بحیثیت ایک پاکستانی شہری کے اپنے وطن عزیز کو کیا دیا ہے؟
بلاشبہ ہم سب نے دانستہ و غیر دانستہ طور پر قائد اعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر علامہ اقبال اور تحریک پاکستان کے لاکھوں کارکنوں کی خواہشات کے برخلاف کام کیے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور استحکام و تکمیل پاکستان کے لیے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو وقف کردیں اور اپنے آپ کو خود احتسابی کے عمل سے گزار کر وہی کام کریں جو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہو۔
یاد رکھیں ! جب تک ہم سبز ہلالی پرچم کے سائے تلے ایک رہیں گے ،دنیا کی کوئی طاقت ہمیں شکست و ریخت سے دوچار کر نہیں سکتی ۔ہر اندھیری رات کے بعد سورج طلوع ہوتا ہے ،ایک نئے احساس و امید کے ساتھ کہ اس کی کرنیں ہر سو روشنی پھیلادیں گی ۔پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا اور ہمیشہ قائم ودائم رہے گا ۔ اس لیے پاکستان بھی لافانی مملکت ہے اس کے دشمن نیست و نابود ہوجائیں گے اور پاکستان تاقیامت سلامت رہے گا ۔ انشاء اللہ ، پاکستان زندہ باد۔