ہم روز گل سٹر رہے ہیں
ایسے صابرین دنیامیں ڈھونڈیں نہیں ملیں گے جنھوں نے اپنی خوشی سے اپنی مرضی سے گدھوں کویہ سب کچھ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے
''ایک گدھ اپنی چونچ سے میر ے پیروں سے گوشت نوچ رہاتھا، اس نے میرے جوتوں کو چیر پھاڑ دیا اور جرابوں کو کھسوٹ لیا تھا اور اب میرے پیروں کا گو شت نو چ رہا تھا باربار و ہ پیروں پر چو نچ مارتا بے چینی سے بار بار میرے گر د چکر کا ٹتا اور پھر واپس اپنے کام میں جت جاتا۔
ایک معزز شخص میرے قریب سے گذرا ،کچھ دیر یہ منظر دیکھا ۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ میں کیوں اس گدھ کو برداشت کر رہا تھا، ''میں بے بس ہوں ''میں نے کہا'' جب یہ آیا اور مجھ پر حملہ کرنے لگا تو میں نے واقعی اس پر ے دھکیلنے کی کوشش کی تھی اس کا گلا گھونٹنے کی بھی کو شش کی تھی لیکن یہ بہت طاقتور جانور ہوتے ہیں یہ میرے چہرے پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا تھا لیکن میں نے اپنے پیروں کی قربانی دینے کو ترجیح دی۔ اب تو قریب قریب یہ کٹ پھٹ ہی گئے۔''
حیرت ہے تم گدھ کی زیادتی برداشت کررہے ہو معزز شخص نے کہا، لو یہ گولی اور یہ گدھ ختم ہوجائے گا۔ کیا واقعی! میں نے حیرت سے پو چھا ''کیا تم ایسا کرو گے؟'' '' بخو شی'' معزز شخص بولا'' مجھے گھر تک جانا ہوگا تاکہ اپنی بندو ق لے آئوں کیا تم آدھا گھنٹہ انتظار کرسکتے ہو؟'' میں اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا ۔میں نے کہا اور کچھ دیر درد سے کراہتا رہا پھر بولا ''براہ کرم پھر بھی جلدی آنے کی کو شش کرنا۔''
بہت اچھا معزز شخص بولاممکنہ حدتک جلدی آنے کی کوشش کروں گا گفتگو کے دوران میں گدھ نہایت اطمینان سے سن رہا تھا نظریں میرے اور معزز شخص کے درمیان پھر اتے ہوئے اب مجھے احساس ہوا کہ وہ ہر بات سمجھ گیا تھا۔ اس نے اپنے پر پھیلا ئے طاقت حاصل کرنے کے لیے گردن پیچھے گرائی اور پھرنیزہ پھینکنے والے کی طرح اپنی چو نچ میرے منہ میں گھسیڑ دی میرے بہت اندر تک ۔ پھر اس نے گردن پیچھے کھینچی تو اسے میرے خون میں غرق محسو س کرکے مجھے دلی طمانیت ہوئی جو ہر گہرائی میں گررہا اور ہر ساحل کو بھگو رہا تھا۔ ''
یہ کافکاکی لکھی ہوئی کہانی ''گدھ '' ہے، اسے پڑھتے ہی یکایک ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف ایک کہانی ہی نہیں ہے بلکہ ایک پورا سچ ہے ہمار اپنا سچ ۔جو 22 کروڑ پاکستانی ایک ساتھ ایک زبان بیان کررہے ہیں ۔فرق صرف اتنا سا ہے کہ کافکا کی اس کہانی میں ایک گدھ ہے جب کہ22 کروڑ پاکستانیوں کی کہانی میں بہت سارے گدھ ہیں جو ایک ساتھ مل کر 22 کروڑ پاکستانیوں کا گوشت نو چ نو چ رہے ہیں، بس ان گدھوں نے نقاب کوئی اور پہن رکھے ہیں، کسی نے نقاب جاگیر دار کاپہن رکھا ہے کسی نے سر مایہ دارکا کسی نے سیاست دان کا کسی نے بیورو کریٹ کا کسی نے بزنس مین کا تو کسی نے مذہب کا۔ لیکن ہر گدھ اپنا اصل کام بخو بی سر انجام دے رہاہے اورہم 22کروڑ انسان چپ چاپ اپنا اپنا گوشت نچوارہے ہیں بغیر کسی مزاحمت کے بغیرکسی احتجاج اور چیخے چلائے بغیر۔
آپ کو ایسے صابرین دنیا میں ڈھونڈیں نہیں ملیں گے جنھوں نے اپنی خوشی سے اپنی مرضی سے گدھوں کو یہ سب کچھ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔22 کروڑ انسانوں کا اجازت نامہ ان کے پاس ہے کہ آپ جب چاہیں جس وقت چاہیں ہمارا گو شت نو چ سکتے ہیں ہمیں ادھیڑ سکتے ہیں۔ شو پہنار کہتا ہے ''انسان کی بدترین خاصیت دوسروںکی تکالیف سے مزا لینا ہے۔'' ظلم وزیادتی کی آج پاکستان سب سے زیادہ وحشت زدہ تصویر ہے جسے دیکھ کر انسان دہشت زدہ ہو جاتا ہے ۔یاد رہے اپنی ذات کا درد کسی دور دراز کے ملک کے اس قحط سے زیادہ تکلیف دہ ہوتاہے ، جو لاکھوں افراد کی موت کا باعث ہوتاہے ،اپنی گردن کا پھوڑا افریقہ کے چالیس زلزلوں سے زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوتاہے لیکن نہ نجانے کیوں ہمیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا ہے ،رحم نہیں آتاہے۔
کیا ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہوگئی ہے جو ہم ہر ظلم و زیادتی پر خاموش ہیں، کیوں تمام ذلتوں کو چپ چاپ سہہ رہے ہیں ہماری حیثیت فقط ان غلاموں کی سی ہوگئی ہے جو ذرا سی رو گردانی کریں تو ہماری پیٹھ پر کوڑے برسنے لگتے ہیں۔ہم روز گل سٹر رہے ہیں۔ روز قتل کیے جاتے ہیں اور پھر روز زندہ کیے جاتے ہیں ۔ ہر طرف مردار خور گدھوں کی اڑانیں ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ انسان نماگدھ لوگ اپنے نامہ اعمال پر شرمندہ کیوں نہیں ہوتے انھیں انسانیت کا سامنا کرنے کی جرأت کیسے ہوتی ہے ،یہ اپنا چہر ہ آئینے میں دیکھ کر ڈرتے کیوں نہیں ہیں، انھیں اپنے آپ سے گھن کیوں نہیں آتی ہے۔ دوسری طرف اس بات پر زیادہ حیرت ہوتی ہے کہ لوگ سارے عذابوں کے سامنے چپ چاپ کیوں ہیں؟ وہ اپنے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہونے دے رہے ہیں اینڈی وار ھول کہتا ہے '' وہ کہتے ہیں کہ وقت چیزوں کو بدل دیتا ہے لیکن اصل میں آپ کو انھیں خود بدلنا پڑتا ہے ۔''
شیزو فرینیا ایک شدید نوعیت کا ذہنی مرض ہے جس کی کئی علامتیں ہیں جن میں حقیقت کا احساس نہ رہنا بے ہنگم طرز عمل ، غیر منظم انداز میں سو چنا ، جذبات کے اظہار سے معذوری شامل ہیں۔شیزو فرینیا کی اصطلاح یونانی الفاظ سے مشتق ہے جن کا مطلب بٹا ہوا ذہن بنتاہے ایک مرتبہ یہ بیماری لاحق ہوجائے تو باقی ساری زندگی اس کے اثر میں رہتی ہے اس بیماری میں مبتلا شخص حقیقی اور غیر حقیقی تجربات منطقی اور غیر منطقی سو چوں یا موزوں اور غیر موزوں رویے میں تمیز کرنے کے قابل نہیں ہوتا، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم سب یعنی 22کروڑ لوگ شیزو فرینیا کے مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
اسی لیے ہم ہر ظلم و زیادتی و ناانصافی کے خلاف چپ سادھے بیٹھے ہیں ہماری سمجھنے بوجھنے کی تمام صلاحیتیں اس بیماری کی وجہ سے ناکارہ ہوچکی ہیں ، ورنہ ہم ان تمام گدھوں کو جو ہمارا گو شت نو چ رہے ہیںما رنہ بھگاتے ۔ اٹھ کھڑے نہ ہوتے خدارا اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے اٹھو، اپنی آزادی اور اپنی خو شحالی اپنی ترقی کے لیے اٹھو، اپنے ساتھ ہونے والے تما م عذابوں کو ختم کرنے کے لیے اٹھو ظالموں ، لٹیر وں ، قاتلوں کو مار بھگائو لیکن اگر تم میں اٹھنے کی ہمت نہیں ہے تو پھر اپنے ساتھ یہ سب کچھ ہونے دو۔
ایک معزز شخص میرے قریب سے گذرا ،کچھ دیر یہ منظر دیکھا ۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ میں کیوں اس گدھ کو برداشت کر رہا تھا، ''میں بے بس ہوں ''میں نے کہا'' جب یہ آیا اور مجھ پر حملہ کرنے لگا تو میں نے واقعی اس پر ے دھکیلنے کی کوشش کی تھی اس کا گلا گھونٹنے کی بھی کو شش کی تھی لیکن یہ بہت طاقتور جانور ہوتے ہیں یہ میرے چہرے پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا تھا لیکن میں نے اپنے پیروں کی قربانی دینے کو ترجیح دی۔ اب تو قریب قریب یہ کٹ پھٹ ہی گئے۔''
حیرت ہے تم گدھ کی زیادتی برداشت کررہے ہو معزز شخص نے کہا، لو یہ گولی اور یہ گدھ ختم ہوجائے گا۔ کیا واقعی! میں نے حیرت سے پو چھا ''کیا تم ایسا کرو گے؟'' '' بخو شی'' معزز شخص بولا'' مجھے گھر تک جانا ہوگا تاکہ اپنی بندو ق لے آئوں کیا تم آدھا گھنٹہ انتظار کرسکتے ہو؟'' میں اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا ۔میں نے کہا اور کچھ دیر درد سے کراہتا رہا پھر بولا ''براہ کرم پھر بھی جلدی آنے کی کو شش کرنا۔''
بہت اچھا معزز شخص بولاممکنہ حدتک جلدی آنے کی کوشش کروں گا گفتگو کے دوران میں گدھ نہایت اطمینان سے سن رہا تھا نظریں میرے اور معزز شخص کے درمیان پھر اتے ہوئے اب مجھے احساس ہوا کہ وہ ہر بات سمجھ گیا تھا۔ اس نے اپنے پر پھیلا ئے طاقت حاصل کرنے کے لیے گردن پیچھے گرائی اور پھرنیزہ پھینکنے والے کی طرح اپنی چو نچ میرے منہ میں گھسیڑ دی میرے بہت اندر تک ۔ پھر اس نے گردن پیچھے کھینچی تو اسے میرے خون میں غرق محسو س کرکے مجھے دلی طمانیت ہوئی جو ہر گہرائی میں گررہا اور ہر ساحل کو بھگو رہا تھا۔ ''
یہ کافکاکی لکھی ہوئی کہانی ''گدھ '' ہے، اسے پڑھتے ہی یکایک ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف ایک کہانی ہی نہیں ہے بلکہ ایک پورا سچ ہے ہمار اپنا سچ ۔جو 22 کروڑ پاکستانی ایک ساتھ ایک زبان بیان کررہے ہیں ۔فرق صرف اتنا سا ہے کہ کافکا کی اس کہانی میں ایک گدھ ہے جب کہ22 کروڑ پاکستانیوں کی کہانی میں بہت سارے گدھ ہیں جو ایک ساتھ مل کر 22 کروڑ پاکستانیوں کا گوشت نو چ نو چ رہے ہیں، بس ان گدھوں نے نقاب کوئی اور پہن رکھے ہیں، کسی نے نقاب جاگیر دار کاپہن رکھا ہے کسی نے سر مایہ دارکا کسی نے سیاست دان کا کسی نے بیورو کریٹ کا کسی نے بزنس مین کا تو کسی نے مذہب کا۔ لیکن ہر گدھ اپنا اصل کام بخو بی سر انجام دے رہاہے اورہم 22کروڑ انسان چپ چاپ اپنا اپنا گوشت نچوارہے ہیں بغیر کسی مزاحمت کے بغیرکسی احتجاج اور چیخے چلائے بغیر۔
آپ کو ایسے صابرین دنیا میں ڈھونڈیں نہیں ملیں گے جنھوں نے اپنی خوشی سے اپنی مرضی سے گدھوں کو یہ سب کچھ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔22 کروڑ انسانوں کا اجازت نامہ ان کے پاس ہے کہ آپ جب چاہیں جس وقت چاہیں ہمارا گو شت نو چ سکتے ہیں ہمیں ادھیڑ سکتے ہیں۔ شو پہنار کہتا ہے ''انسان کی بدترین خاصیت دوسروںکی تکالیف سے مزا لینا ہے۔'' ظلم وزیادتی کی آج پاکستان سب سے زیادہ وحشت زدہ تصویر ہے جسے دیکھ کر انسان دہشت زدہ ہو جاتا ہے ۔یاد رہے اپنی ذات کا درد کسی دور دراز کے ملک کے اس قحط سے زیادہ تکلیف دہ ہوتاہے ، جو لاکھوں افراد کی موت کا باعث ہوتاہے ،اپنی گردن کا پھوڑا افریقہ کے چالیس زلزلوں سے زیادہ تکلیف دہ معلوم ہوتاہے لیکن نہ نجانے کیوں ہمیں اپنے آپ پر ترس نہیں آتا ہے ،رحم نہیں آتاہے۔
کیا ہمیں اپنے آپ سے نفرت ہوگئی ہے جو ہم ہر ظلم و زیادتی پر خاموش ہیں، کیوں تمام ذلتوں کو چپ چاپ سہہ رہے ہیں ہماری حیثیت فقط ان غلاموں کی سی ہوگئی ہے جو ذرا سی رو گردانی کریں تو ہماری پیٹھ پر کوڑے برسنے لگتے ہیں۔ہم روز گل سٹر رہے ہیں۔ روز قتل کیے جاتے ہیں اور پھر روز زندہ کیے جاتے ہیں ۔ ہر طرف مردار خور گدھوں کی اڑانیں ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ یہ انسان نماگدھ لوگ اپنے نامہ اعمال پر شرمندہ کیوں نہیں ہوتے انھیں انسانیت کا سامنا کرنے کی جرأت کیسے ہوتی ہے ،یہ اپنا چہر ہ آئینے میں دیکھ کر ڈرتے کیوں نہیں ہیں، انھیں اپنے آپ سے گھن کیوں نہیں آتی ہے۔ دوسری طرف اس بات پر زیادہ حیرت ہوتی ہے کہ لوگ سارے عذابوں کے سامنے چپ چاپ کیوں ہیں؟ وہ اپنے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہونے دے رہے ہیں اینڈی وار ھول کہتا ہے '' وہ کہتے ہیں کہ وقت چیزوں کو بدل دیتا ہے لیکن اصل میں آپ کو انھیں خود بدلنا پڑتا ہے ۔''
شیزو فرینیا ایک شدید نوعیت کا ذہنی مرض ہے جس کی کئی علامتیں ہیں جن میں حقیقت کا احساس نہ رہنا بے ہنگم طرز عمل ، غیر منظم انداز میں سو چنا ، جذبات کے اظہار سے معذوری شامل ہیں۔شیزو فرینیا کی اصطلاح یونانی الفاظ سے مشتق ہے جن کا مطلب بٹا ہوا ذہن بنتاہے ایک مرتبہ یہ بیماری لاحق ہوجائے تو باقی ساری زندگی اس کے اثر میں رہتی ہے اس بیماری میں مبتلا شخص حقیقی اور غیر حقیقی تجربات منطقی اور غیر منطقی سو چوں یا موزوں اور غیر موزوں رویے میں تمیز کرنے کے قابل نہیں ہوتا، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم سب یعنی 22کروڑ لوگ شیزو فرینیا کے مرض میں مبتلا ہوگئے ہیں۔
اسی لیے ہم ہر ظلم و زیادتی و ناانصافی کے خلاف چپ سادھے بیٹھے ہیں ہماری سمجھنے بوجھنے کی تمام صلاحیتیں اس بیماری کی وجہ سے ناکارہ ہوچکی ہیں ، ورنہ ہم ان تمام گدھوں کو جو ہمارا گو شت نو چ رہے ہیںما رنہ بھگاتے ۔ اٹھ کھڑے نہ ہوتے خدارا اپنے لیے اپنے پیاروں کے لیے اٹھو، اپنی آزادی اور اپنی خو شحالی اپنی ترقی کے لیے اٹھو، اپنے ساتھ ہونے والے تما م عذابوں کو ختم کرنے کے لیے اٹھو ظالموں ، لٹیر وں ، قاتلوں کو مار بھگائو لیکن اگر تم میں اٹھنے کی ہمت نہیں ہے تو پھر اپنے ساتھ یہ سب کچھ ہونے دو۔