دائرے
حکومتی دعوؤں کے ساتھ کہ موجودہ کٹھن حالات میں عوام کو ریلیف دینے والا بجٹ پیش کیا گیا ہے
BEIJING:
اپوزیشن کی عدم موجودگی کے باعث شہباز حکومت 2022-23 کا قومی میزانیہ کثرت رائے سے اسمبلی سے پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی وفاقی بجٹ پر دستخط کردیے ہیں۔
10 جون کو پیش کیا جانے والا بجٹ اپوزیشن کی غیر موجودگی کے باعث بغیرکسی قابل ذکر بحث و مباحثے کے محض 21 دنوں میں قومی اسمبلی سے پاس ہوگیا۔ قائد ایوان بجٹ کی منظوری کے وقت ایوان میں موجود نہ تھے۔
حکومتی دعوؤں کے ساتھ کہ موجودہ کٹھن حالات میں عوام کو ریلیف دینے والا بجٹ پیش کیا گیا ہے ، بالخصوص تنخواہ دار طبقے کی مشکلات کم کرنے کے لیے انھیں انکم ٹیکس میں آسانیاں دی گئی ہیں، مگر حکومتی دعوے اس وقت نقش برآب ثابت ہوئے جب عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے اتحادی حکومت کے بجٹ پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اعتراضات اٹھائے اور اپنی کڑی شرائط کو بجٹ کا حصہ بنائے جانے تک قرض کی قسط دینے سے انکار کردیا۔
حکومت کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ پیش کردہ بجٹ پر نظرثانی کرے اور اسے آئی ایم ایف کی شرائط اور ہدایت کی روشنی میں ضروری ترامیم کے ساتھ منظور کرائے، سو حکومت نے اپنے دعوؤں کے برعکس آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور آئی ایم ایف کی تمام شرائط کے مطابق ضروری ترامیم بجٹ میں شامل کرکے 30 جون کو بجٹ منظور کرایا جس کے نتیجے میں تنخواہ دار طبقے کو دیا جانے والا ریلیف نہ صرف ختم کردیا گیا بلکہ نئی شرح سے ٹیکس عائد کردیا گیا۔
اب پچاس ہزار سے زائد ماہانہ آمدنی پر مختلف شرح سے ٹیکس لگا کر تنخواہ دار طبقے کی مشکلات میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ نان فائلر کی ٹیکس کی شرح 100 سے بڑھا کر دو سو فیصد کردی گئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی شرح 30 روپے سے بڑھا کر 50 روپے کردی گئی ہے۔ ایل پی جی (لیکویفائیڈ پٹرولیم گیس) کی پیداوار پر 30 ہزار روپے فی میٹرک ٹن لیوی عائد کردی گئی۔
آئی ایم ایف کے دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اسی باعث حکومت نے یکم جولائی سے ایک مرتبہ پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے، پٹرول 248.74 ، ڈیزل 276.54 اور مٹی کا تیل 230.26 روپے فی لیٹر ہو گیا ہے جس میں لیوی بھی شامل ہے جو مرحلہ وار 50 روپے فی لیٹر تک عائد کی جائے گی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے منفی اثرات معاشی زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کرتے ہیں۔ غیر پیداواری اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور مہنگائی کا ایک نیا طوفان عام آدمی کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔
آپ موجودہ اتحادی حکومت کی صرف گزشتہ دو ماہ کی کارکردگی دیکھ لیں اس دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 100 روپے سے زائد کا اضافہ کیا جاچکا ہے۔ اس پہ مستزاد بجلی و گیس کی قیمتیں بھی بڑھائی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عوام کی قوت خرید جواب دے گئی ہے۔ عام آدمی کے لیے آٹا، چاول، چینی، دالیں، گھی، سبزی، انڈے اور دودھ وغیرہ خریدنا اور اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں اپوزیشن اتحاد نے عوام کو سنہرے خواب دکھائے تھے کہ عمران خان نے گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں ہوش ربا مہنگائی کر دی ہے۔ اس کی پالیسیوں کے نتیجے میں قومی معیشت تباہ ہوگئی ہے، ملک آئی ایم ایف کا غلام بن گیا ہے، پاکستان بجائے آگے جانے کے پچاس سال پیچھے چلا گیا ہے اور ترقی کا سفر رک گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اپوزیشن عوام سے مطالبہ کرتی تھی کہ وہ اپوزیشن کے ہاتھ مضبوط کریں، ان کا ساتھ دیں تو عمران حکومت کو گھر بھیج دیں گے، عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت سے نجات دلائیں گے۔
بلاول بھٹو اور مریم نواز نے عمران حکومت کے خلاف مہنگائی مارچ کیے، عوام نے تو اپوزیشن کا ساتھ کیا دینا تھا ہاں! ''دینے والوں'' نے اپوزیشن کا ''ساتھ'' دیا اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت رخصت کردی گئی۔
آج دو ماہ کی موجودہ حکومت کی کارکردگی سے نہ صرف عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں بلکہ مہنگائی و گرانی میں عمران دور کے مقابلے میں برق رفتار اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، عوام مزید غریب و بدحال ہو رہے ہیں اور ان کے لیے زندگی کی گاڑی کھینچنا عذاب جاں بن گیا ہے۔ بعینہ تاجر و صنعت کار طبقہ بھی حکومت سے نالاں اور شکوہ طراز ہے کہ 13 صنعتوں پر سپر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔
مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق سپر ٹیکس سے تجارتی و صنعتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوں گی۔ (اول) سرمایہ دار طبقہ اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے کو ترجیح دے گا۔ (دوم) وہ اپنی پیداواری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کرکے بالواسطہ طور پر عوام سے سپر ٹیکس وصول کرے گا، یوں سپر ٹیکس کے منفی اثرات بھی عوام کی طرف ہی منتقل ہوں گے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ ہم سپر ٹیکس کے منفی اثرات عوام کی جانب منتقل نہیں ہونے دیں گے اور صنعت کاروں کو پابند کیا جائے گا کہ اپنے منافع سے سپر ٹیکس کی ادائیگی کریں نہ کہ اسے اپنی پروڈکٹ پر منتقل کریں۔ان حکومتی اقدامات، فیصلوں اور پالیسی پر نہ صرف معاشی ماہرین و تجزیہ کار تنقید کر رہے ہیں بلکہ (ن) لیگ کے ہی سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی مفتاح صاحب کے حالیہ فیصلوں پر ناخوش ہیں اور برملا تنقید کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں مفتاح اسماعیل نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں میزبان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اعتراف بھی کیا کہ جی ہاں اسحاق ڈار کی اپنی سوچ ہے لیکن میں جو فیصلے کرتا ہوں ان پر اپنے وزیر اعظم کو پوری طرح اعتماد میں لیتا ہوں اور وہ میرے ہر اقدام کی تائید کرتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکس نیٹ محدود ہے، بڑے بڑے صنعت کاروں، تاجروں، زمین داروں اور ارب و کھرب پتی لوگوں سے ٹیکس وصول کرنے کی کوئی روش اور قابل ذکر مثالیں موجود نہیں ہیں۔ قومی آمدنی محدود اور مسائل لامحدود ہوتے جا رہے ہیں۔ ترقی یافتہ اور مہذب و باشعور معاشروں میں ہر آدمی ٹیکس دیتا ہے اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کے ٹیکس کی رقم اسے سہولیات و آسانیاں فراہم کرنے پر خرچ کی جائے گی اور وہاں ایسا ہی ہوتا ہے ، لیکن ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے یہاں قومی وسائل کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں نتیجتاً عوام کے لیے کچھ نہیں بچتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی آمدنی میں اضافے کے لیے ٹیکس کا دائرہ ضرور بڑھایا جائے لیکن عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کرنے کے فول پروف انتظامات بھی کیے جائیں ورنہ دائرے پر دائرے، بڑھاتے چلے جائیں نتیجہ دھاک کے تین پات ہی نکلے گے۔
اپوزیشن کی عدم موجودگی کے باعث شہباز حکومت 2022-23 کا قومی میزانیہ کثرت رائے سے اسمبلی سے پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بھی وفاقی بجٹ پر دستخط کردیے ہیں۔
10 جون کو پیش کیا جانے والا بجٹ اپوزیشن کی غیر موجودگی کے باعث بغیرکسی قابل ذکر بحث و مباحثے کے محض 21 دنوں میں قومی اسمبلی سے پاس ہوگیا۔ قائد ایوان بجٹ کی منظوری کے وقت ایوان میں موجود نہ تھے۔
حکومتی دعوؤں کے ساتھ کہ موجودہ کٹھن حالات میں عوام کو ریلیف دینے والا بجٹ پیش کیا گیا ہے ، بالخصوص تنخواہ دار طبقے کی مشکلات کم کرنے کے لیے انھیں انکم ٹیکس میں آسانیاں دی گئی ہیں، مگر حکومتی دعوے اس وقت نقش برآب ثابت ہوئے جب عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے اتحادی حکومت کے بجٹ پر سخت ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اعتراضات اٹھائے اور اپنی کڑی شرائط کو بجٹ کا حصہ بنائے جانے تک قرض کی قسط دینے سے انکار کردیا۔
حکومت کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ پیش کردہ بجٹ پر نظرثانی کرے اور اسے آئی ایم ایف کی شرائط اور ہدایت کی روشنی میں ضروری ترامیم کے ساتھ منظور کرائے، سو حکومت نے اپنے دعوؤں کے برعکس آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور آئی ایم ایف کی تمام شرائط کے مطابق ضروری ترامیم بجٹ میں شامل کرکے 30 جون کو بجٹ منظور کرایا جس کے نتیجے میں تنخواہ دار طبقے کو دیا جانے والا ریلیف نہ صرف ختم کردیا گیا بلکہ نئی شرح سے ٹیکس عائد کردیا گیا۔
اب پچاس ہزار سے زائد ماہانہ آمدنی پر مختلف شرح سے ٹیکس لگا کر تنخواہ دار طبقے کی مشکلات میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ نان فائلر کی ٹیکس کی شرح 100 سے بڑھا کر دو سو فیصد کردی گئی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی شرح 30 روپے سے بڑھا کر 50 روپے کردی گئی ہے۔ ایل پی جی (لیکویفائیڈ پٹرولیم گیس) کی پیداوار پر 30 ہزار روپے فی میٹرک ٹن لیوی عائد کردی گئی۔
آئی ایم ایف کے دباؤ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اسی باعث حکومت نے یکم جولائی سے ایک مرتبہ پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے، پٹرول 248.74 ، ڈیزل 276.54 اور مٹی کا تیل 230.26 روپے فی لیٹر ہو گیا ہے جس میں لیوی بھی شامل ہے جو مرحلہ وار 50 روپے فی لیٹر تک عائد کی جائے گی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے منفی اثرات معاشی زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کرتے ہیں۔ غیر پیداواری اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور مہنگائی کا ایک نیا طوفان عام آدمی کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔
آپ موجودہ اتحادی حکومت کی صرف گزشتہ دو ماہ کی کارکردگی دیکھ لیں اس دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 100 روپے سے زائد کا اضافہ کیا جاچکا ہے۔ اس پہ مستزاد بجلی و گیس کی قیمتیں بھی بڑھائی جا رہی ہیں جس کے نتیجے میں روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عوام کی قوت خرید جواب دے گئی ہے۔ عام آدمی کے لیے آٹا، چاول، چینی، دالیں، گھی، سبزی، انڈے اور دودھ وغیرہ خریدنا اور اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا بندوبست کرنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں اپوزیشن اتحاد نے عوام کو سنہرے خواب دکھائے تھے کہ عمران خان نے گزشتہ ساڑھے تین سالوں میں ہوش ربا مہنگائی کر دی ہے۔ اس کی پالیسیوں کے نتیجے میں قومی معیشت تباہ ہوگئی ہے، ملک آئی ایم ایف کا غلام بن گیا ہے، پاکستان بجائے آگے جانے کے پچاس سال پیچھے چلا گیا ہے اور ترقی کا سفر رک گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اپوزیشن عوام سے مطالبہ کرتی تھی کہ وہ اپوزیشن کے ہاتھ مضبوط کریں، ان کا ساتھ دیں تو عمران حکومت کو گھر بھیج دیں گے، عوام کو مہنگائی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت سے نجات دلائیں گے۔
بلاول بھٹو اور مریم نواز نے عمران حکومت کے خلاف مہنگائی مارچ کیے، عوام نے تو اپوزیشن کا ساتھ کیا دینا تھا ہاں! ''دینے والوں'' نے اپوزیشن کا ''ساتھ'' دیا اور تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران حکومت رخصت کردی گئی۔
آج دو ماہ کی موجودہ حکومت کی کارکردگی سے نہ صرف عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں بلکہ مہنگائی و گرانی میں عمران دور کے مقابلے میں برق رفتار اضافہ ہو رہا ہے۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں، عوام مزید غریب و بدحال ہو رہے ہیں اور ان کے لیے زندگی کی گاڑی کھینچنا عذاب جاں بن گیا ہے۔ بعینہ تاجر و صنعت کار طبقہ بھی حکومت سے نالاں اور شکوہ طراز ہے کہ 13 صنعتوں پر سپر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے۔
مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق سپر ٹیکس سے تجارتی و صنعتی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہوں گی۔ (اول) سرمایہ دار طبقہ اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرنے کو ترجیح دے گا۔ (دوم) وہ اپنی پیداواری اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کرکے بالواسطہ طور پر عوام سے سپر ٹیکس وصول کرے گا، یوں سپر ٹیکس کے منفی اثرات بھی عوام کی طرف ہی منتقل ہوں گے۔
وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ ہم سپر ٹیکس کے منفی اثرات عوام کی جانب منتقل نہیں ہونے دیں گے اور صنعت کاروں کو پابند کیا جائے گا کہ اپنے منافع سے سپر ٹیکس کی ادائیگی کریں نہ کہ اسے اپنی پروڈکٹ پر منتقل کریں۔ان حکومتی اقدامات، فیصلوں اور پالیسی پر نہ صرف معاشی ماہرین و تجزیہ کار تنقید کر رہے ہیں بلکہ (ن) لیگ کے ہی سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی مفتاح صاحب کے حالیہ فیصلوں پر ناخوش ہیں اور برملا تنقید کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں مفتاح اسماعیل نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں میزبان کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اعتراف بھی کیا کہ جی ہاں اسحاق ڈار کی اپنی سوچ ہے لیکن میں جو فیصلے کرتا ہوں ان پر اپنے وزیر اعظم کو پوری طرح اعتماد میں لیتا ہوں اور وہ میرے ہر اقدام کی تائید کرتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکس نیٹ محدود ہے، بڑے بڑے صنعت کاروں، تاجروں، زمین داروں اور ارب و کھرب پتی لوگوں سے ٹیکس وصول کرنے کی کوئی روش اور قابل ذکر مثالیں موجود نہیں ہیں۔ قومی آمدنی محدود اور مسائل لامحدود ہوتے جا رہے ہیں۔ ترقی یافتہ اور مہذب و باشعور معاشروں میں ہر آدمی ٹیکس دیتا ہے اسے یقین ہوتا ہے کہ اس کے ٹیکس کی رقم اسے سہولیات و آسانیاں فراہم کرنے پر خرچ کی جائے گی اور وہاں ایسا ہی ہوتا ہے ، لیکن ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے یہاں قومی وسائل کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں نتیجتاً عوام کے لیے کچھ نہیں بچتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی آمدنی میں اضافے کے لیے ٹیکس کا دائرہ ضرور بڑھایا جائے لیکن عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کرنے کے فول پروف انتظامات بھی کیے جائیں ورنہ دائرے پر دائرے، بڑھاتے چلے جائیں نتیجہ دھاک کے تین پات ہی نکلے گے۔