ڈاکٹر عامر لیاقت حسین… آخری حصہ
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے سیاست میں بھی مستقل مزاجی سے گریز کیا،ان کے والد شیخ لیاقت حسین ایم کیو ایم سے وابستہ تھے
ڈاکٹرعامر لیاقت حسین نے 2014 میں ایکسپریس ٹی وی جوائن کرلیا۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جس چینل سے رمضان نشریات کرتے وہ چینل اشتہارات کا 70فیصد حصہ لے جاتا، باقی چینلز مل جل کر 30فیصد بزنس حاصل کرپاتے۔ پھر ایک سال کے لیے بول ٹی وی پر چلے گئے۔ کچھ عرصہ پی ٹی وی سے وابستہ رہے۔ 2022 میں کوشش کے باوجود کسی بھی چینل نے ان سے رابطہ نہیں کیا،انھیں اس بات کا شدید دکھ تھا کہ وہ کسی بھی چینل سے رمضان ٹرانسمیشن نہیں کرسکے۔
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے سیاست میں بھی مستقل مزاجی سے گریز کیا،ان کے والد شیخ لیاقت حسین ایم کیو ایم سے وابستہ تھے ، جب کہ وہ کبھی ایم کیوایم کے عام کارکن نہیں رہے، ان کا رجحان مہاجر سیاست سے جڑا ہوا تھا، لیکن وہ ایم کیو ایم میں کبھی عام کارکن نہیں رہے۔ اپنی خداداد صلاحیتوں کی بنیاد پر الطاف حسین بھی انھیں پسند کرتے تھے۔
1996 میں ایم کیو ایم کے بانی چیئرمین الطاف حسین نے کہا کہ'' قومی اسمبلی کے انتخابات کی تیاری کرو ''مگر عامر لیاقت حسین نے درخواست کی کہ'' میرے والد صاحب کو ٹکٹ دے دیں، یوں شیخ لیاقت حسین قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے'' لیکن 2002 میں عامر لیاقت حسین نے NA 249 کی نشست سے ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ عامر لیاقت حسین پر بہت مہربان تھے، وہ کم عمری میں ہی وفاقی کابینہ کا حصہ بنے اور مذہبی امور کے اسٹیٹ منسٹر کا عہدہ سنبھال لیا، اسی زمانے میں انھوں نے عظیم صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں اپنی اور اپنے اہل خانہ کی قبروں کے لیے ایک حصہ الاٹ کرالیا تھا۔
سب سے پہلے ان کی والدہ بیگم محمودہ سلطانہ کو دربار میں جگہ نصیب ہوئی۔ 2007 میں ممتاز نعت خواں خورشید احمد شدید علیل تھے اور ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا، اس موقع پر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے ان کے بیٹے حسان کو پیشکش کی کہ ان کی تدفین کا فریضہ میں انجام دوں گا اور اس طرح ممتاز نعت خواں خورشید احمد کو عبداللہ شاہ غازیؒ کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔ بعد ازاں عامر لیاقت حسین کی پہلی اہلیہ بشریٰ کے والد اقبال صاحب اور ان کے قریب شیخ لیاقت حسین کی قبر ہے۔
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین سے میری 25سال سے یاد اللہ ہے، ہمیشہ نیاز مندی سے ملتا رہا۔ انھوں نے نجی چینلز کے لیے جتنے آئوٹ ڈور پروگرام کیے، ان میں تقریباً تمام پروگرام کی کمپیئرنگ میرے حصے میں آئی۔ مجھے یاد آتا ہے کہ ایک پروگرام ڈاکٹر جمیل راٹھور صاحب نے بھی کیا تھا۔
محمد علی سوسائٹی کی چورنگی پر واقع ایک اسکول کے میدان میں کسی بڑی مذہبی رات کے موقع پر ایک محفل نعت منعقد ہوئی تھی جس میں شہر کے اہم نعت خوانوں کے علاوہ ڈاکٹرعامر لیاقت حسین کا خطاب اور دعا کرانا ان کی ذمے داری تھی، اس محفل کی نظامت کے فرائض میرے سپرد تھے۔ اسٹوڈیو سے باہر کسی کھلی جگہ میں یہ پروگرام تھا جسے رات ساڑھے دس بجے سے صبح ساڑھے تین بجے تک براہ راست نشر کیا گیا تھا۔
4فروری 2012 بمطابق گیارہ ربیع الاول شب ساڑھے دس بجے سے صبح چار بجے تک داتا دربار لاہور سے براہ راست محفل نشر ہوئی اور تقریباً 5 گھنٹے کے اس پروگرام کی میزبانی بھی میرے ذمے تھی۔ نعت خوانی کے ساتھ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی سیرت طیبہ پر تقریر اور رقت آمیز دعا۔ آیندہ برس 24جنوری 2013 کو جشن بہاراں کے عنوان سے گیارہ ربیع الاول کی شب داتا دربار سے پروگرام براہ راست نشر کیا گیا۔ اس پروگرام میں بھی میزبان کی حیثیت سے اس فقیر کا انتخاب کیا گیا۔
اپنے گزشتہ بیس سالہ تعلقات میں، میں نے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے بارے میں ایسا نہیں سوچا تھا جیسا گزشتہ تین چار سالوں کے دوران ان کے بارے میں سنا۔ سوشل میڈیا پر تبصرے اور وڈیوز دیکھ کر بہت دکھی ہوا اور کڑھتا رہا۔ میرے وہ احباب جو یہ جانتے ہیں کہ ڈاکٹرعامر لیاقت حسین سے میرا ایک تعلق رہا ہے وہ کرید کرید کر عامر کے بارے میں پوچھتے تھے، میں لاعلمی کا اظہار کرتا۔
عامر لیاقت چلا گیا اور اب منوں مٹی تلے دفن ابدی نیند سورہا ہے، لیکن وہ جاتے جاتے لوگوں کو بہت سے سبق دے گیا ہے۔
جیسا کہ پہلے بتایا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت مختلف اخبارات میں کالم لکھتے رہے تھے، جن میں روزنامہ ایکسپریس بھی شامل ہے، لیکن بہت کم لوگو ںکو علم ہے کہ ان کی پانچ کتابیں شایع ہوئیں۔ ان میں ایک شعری مجموعہ بھی شامل ہے ،امہات المومنین کے موضوع پر، دو ضخیم کتابیں تحریر کیں جن میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ اور حضرت عائشہ صدیقہؓ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ آثار قدیمہ کے نام سے ایک کتاب اور کالموں کا مجموعہ ''لائوڈ اسپیکر'' کے نام سے شایع ہوئیں۔
ہائے، ہائے کیسا خوبصورت ذہن، فتین، دانش سے آراستہ، فراست سے پیراستہ، کمال کا حافظہ، منصب نعت خوانی کا شہزادہ، حاضرجوابی کا بادشاہ، خطابت کا شہنشاہ، دعا کرے تو سننے والوں کی آنکھیں وضو کریں۔ سیرتِ مصطفیٰ ﷺ بیان کرے تو ٹوٹے دلوں کو رفو کرے، محفل میلادﷺ میں سلام پیش کرے تو فضا میں خوشبوئیں مہک اٹھیں، حدیث مبارکہ سنائے تو ذہن میں عقیدت کے تارے چمک اٹھیں، سبحان اللہ، سبحان اللہ...میں نے لوگوں کو ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے ہاتھوں کو چومتے دیکھا اور خواتین کو اپنی بھیگی پلکیں اوڑھنی کے پلّو میں چھپاتے ہوئے عامر لیاقت کے سر پر ہاتھ رکھتے دیکھا۔ ایک زمانے تک عقیدت اور مقبولیت کا وہ عالم کہ ہمہ شمہ کے تصور سے بھی پرے۔ یوں عامر لیاقت حسین نیلام گھر طرز پر پروگرام کرتے۔ انعامات تقسیم کرتے تو کشادہ دستی کا یہ عالم کہ تم بھی لو۔ تم لو...
چینلز نے ڈاکٹرعامر لیاقت حسین کی خوابیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کیا، یوں ایک چاند طلوع ہوا۔ لوگوں نے اسے نصف النہار پر بھی دیکھا اور پھر زوال شروع ہوا تو زندگی کے آخری لمحات میں بے یار و مددگار بھی دیکھا۔ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا کردار زندگی کا باب ہے۔ عروج و زوال کی داستان۔ اسے پڑھو اور سبق سیکھو۔
ٹیلی ویژن پر خبر سنی تو بے اختیار ناصر کاظمی کا شعر یاد آگیا۔
شور برپا ہے خانہ دل میں
ایک دیوار سی گری ہے ابھی