پاکستان زوال کی طرف

حکمران اور بیورو کریٹ افسر بغیر اے سی کے صرف ایک دن نہیں ایک گھنٹہ شدید گرمی میں رہ کر دیکھیں

nasim.anjum27@gmail.com

ISLAMABAD:
جب سے نئی حکومت آنے کے بعد مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے لوگوں کی زندگی مشکل میں آگئی ہے، پی ٹی آئی والوں کا موقف ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے شکستہ اداروں کو مثبت تبدیلی کی طرف موڑ دیا تھا، پاکستان کے عوام ہی خوش نہیں تھے بلکہ غیر ملکی حکومتیں بھی خوش تھیں اور پاکستان کی عزت بڑھی تھی۔

دیار غیر میں بسنے والوں کو ان کے حقوق کی ادائیگی کی طرف گامزن کرنے کی کوشش میں ووٹ ڈالنے کو اولین ترجیح دی تھی کہ یہ ان کا حق تھا وہ اپنے ملک پاکستان کی کسی نہ کسی شکل میں مالی امداد میں پیش پیش تھے، زکوٰۃ، خیرات اور امداد کی شکل میں فلاحی اداروں کو اپنی رقوم آن لائن منتقل کرتے تھے کہ پاکستانی ان کے بھائی ہیں اور یہ ان کا ملک ہے، یہاں ان کے پرکھوں کی قبور ہیں۔

وہ رزق کی تلاش میں باہر جانے پر مجبور ہوئے، ورنہ اپنا وطن، اپنے لوگ، اپنی ثقافت کسے اچھی نہیں لگتی ہے، اپنی جنم بھومی سے قدرتی محبت ہوتی ہے اور تدفین کی بھی خواہش اپنی ہی زمین کے لیے پروان چڑھتی ہے ، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انھیں ان کا حق استعمال کرنے سے محض اس لیے روک دیا کہ کہیں عمران خان دوبارہ پاور میں نہ آجائیں۔

مہنگائی اور آئی ایم ایف سے معاہدوں نے بچی کچھی امید بھی خاک میں ملا دی۔ اب ہر شخص کھلے عام تنقید کرتا اور وہ حق بجانب بھی ہے۔ پاکستان میں اکثریت غربا کی ہے ان کی تنخواہیں ہی کتنی ہوتی ہیں؟ پندرہ ، بیس ، پچیس ہزار۔ مزدوروں کے پاس اوزار خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے، ٹھیلا بھی وہ کرائے پر لے کر سبزی پھل اور دوسری اشیا فروخت کرتے ہیں۔ شام کو جو بھی محنت کی کمائی حاصل کرتے ہیں وہ کرایہ ادا کرنے میں چلے جاتے ہیں جو رقم بچتی ہے گھر کے خرچ میں کام آجاتی ہے۔

کرایہ دینے کی رقم سے بھی وہ محروم ہوتے ہیں، مکان مالکان ہر چار چھ ماہ بعد انھیں چھوٹی چھوٹی کھولیوں سے بے دخل کردیتے ہیں مجبوراً یہ فٹ پاتھ پر آجاتے ہیں یا کہیں سر چھپانے کے لیے جھونپڑی بنا لیتے ہیں وہ بھی کمزور سی جو اسے موسموں کی سنگینی سے محفوظ رکھنے کے قابل نہیں ہوتی، دھوپ، برسات، سردی اور گرمی کے موسم انھیں اور ان کے بچوں کے ہر سکھ سے دور کردیتے ہیں، ان کی زندگیاں حشرات الارض سے بدتر ہوتی ہیں۔


کتنے خاندان ایسے ہیں جو ٹوٹے پھوٹے، نالوں اور پلوں کے نیچے آشیانہ بنا لیتے ہیں ان میں سے اکثر ریلوے ٹریک کے نزدیک چادریں بچھا کر رات گزارتے ہیں ان کے بچے دوسرے بچوں ہی کی طرح ناسمجھ ہوتے ہیں اکثر بچے بھاگ دوڑ میں مصروف ہوجاتے ہیں، انھیں نہیں معلوم کہ انھوں نے موت کی وادی میں قدم رکھ دیا ہے۔ اب یہ اللہ کی دی ہوئی زندگی ہے کہ وہ آواز سن کر ہی اپنے ماں باپ کے پاس فوراً دوڑ لگا دیتے ہیں اور اگر موت لکھی ہے تب اس ظالم اور ناانصاف بادشاہ کی حکومت سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو جاتے ہیں۔

ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے حکمران اور ان کا خاندان محلوں میں زندگی گزارتا ہے ہر موسم ان کے لیے عیش کے سامان مہیا کرتا ہے۔ عوام کے پیسوں کی بدولت جھوٹی شان دکھانے کے لیے گاڑیوں کا قافلہ اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں، دوسرے ملکوں کا سفر حکومت کے خرچ پر کرتے ہیں حتیٰ کہ حج اور عمرہ بھی رعایا کے ٹیکسوں کی مد میں ملنے والی رقوم سے خود بھی کرتے ہیں اور اپنی حکومت میں شامل اراکین کو بھی مقامات مقدسہ کی زیارت کرواتے ہیں، میں اکثر سوچتی ہوں کہ کس طرح اور کس منہ سے روضہ رسولؐ پر حاضری دیتے ہیں جب کہ زندگی کے سارے کام اللہ اور اس کے حبیبؐ کے احکامات کے منافی ہوتے ہیں۔

اگر حج اور عمرے کا شوق اور لگن ہے تو ضروری ہے اپنے اعمال کو درست کریں، اللہ نے بڑا اچھا موقعہ دیا مخلوق خدا کی خدمت کرنے کا۔ تھانے اور جیلوں سے لے کر عدالتی نظام کی درستگی کی ضرورت ہے، پولیس ڈپارٹمنٹ اور قانون کی بالادستی کے لیے سیمینار، قرآنی تعلیم کا اہتمام اگر ہر ہفتے یا ہر ماہ پابندی سے کیا جائے تو اصلاح معاشرہ کا حق ادا ہو سکتا ہے۔ ہم الحمدللہ آزاد ملک میں زندگی بسر کر رہے ہیں، آزادی یقیناً بہت بڑی نعمت ہے، اسے اللہ کے واسطے داؤ پر لگانے کی کوشش نہ کریں۔

یہ لوگ عوام کو روٹی اور بجلی کی مار مار رہے ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں سپر ٹیکس ضایع نہیں ہوگا۔ عمران خان کی طرح غریب خاندانوں کو 14 ہزار کی رقم عزت کے ساتھ دیں۔ 2 ہزار میں کیا ہوگا، دو ہزار سے مہینہ بھر کی گھی یا آٹے کی ضرورت پوری نہیں ہوتیہے۔ حکمران گاڑیوں کے پروٹوکول میں باہر نکلتے ہیں، کتنا پٹرول خرچ ہوتا ہوگا، یہی پٹرول سستا کرکے عوام کے لیے مختص کردیا جائے۔

حکمران اور بیورو کریٹ افسر بغیر اے سی کے صرف ایک دن نہیں ایک گھنٹہ شدید گرمی میں رہ کر دیکھیں، دن میں تارے نظر آجائیں گے جس طرح گوشت پوست سے اللہ نے آپ کو بنایا ہے بالکل ایسے ہی جسم و جاں سے اللہ نے ہر شخص کی تخلیق کی ہے۔ آپ آئی ایم ایف کی ہر شرط ماننے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔ طویل لوڈ شیڈنگ کے باعث بچے، بڑے احتجاج کرنے کے لیے باہر آگئے ہیں، آپ پولیس کو حکم دیں کہ ان مظلوموں کے ساتھ نرم رویہ رکھیں، یہ چور، ڈاکو نہیں ہیں جن پر شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا جائے، ہائے افسوس صد افسوس۔ بے چاری ایک خاتون بھی ناحق جان سے گئی۔

بقول عمران خان سابق حکمرانوں کو اپنا پیسہ باہر سے لا کرملک کا قرض اتارنا چاہیے ، تاکہ آیندہ ''برکس '' اجلاس میں پاکستان کو مضبوط دیکھ کر مودی کی گھٹیا حرکت کرنے کی ہمت نہ ہو، اور برکس اجلاس میں پاکستان کی شمولیت کو لازمی قرار دیا جائے۔
Load Next Story