’’ہاتھ بول اٹھتے ہیں‘‘
ہمارے دشمن بھی بہت زیادہ ہیں۔ کچھ کو ہم نے خود ہی اپنا دشمن ڈیکلیر کردیا ہے
کراچی:
ہم انسان جو ہوں گے، وہ تو الگ سی بات ہے، مگر پشکن کی زبان میں ہم دو ٹانگوں والے جانور(biped animal) تھے۔ آج کے عہد کا بڑا فلاسفر، جو کارل مارکس کہتا ہے کہ شروع دن سے جب انسان homosepain ہی تھا، اس کے اندر دماغ کا وزن دوسرے جانوروں کی نسبت زیادہ تھا اور اب تو بہت زیادہ ہے، اس دماغ کا وزن مزید بڑھے گا۔
عین اس زمانے میں جب کمپیوٹر انسان کی دماغ سے نکلا ،یہ مشین اس اوزار کا ارتقا ہے جو ہمیں غاروں سے ملے ہیں، تانبے سے بنے ،دفاع کے ہتھیار اس سے پہلے پتھر سے بنے اوزار۔ ان اوزاروں نے ایک دم چھلانگ لگائی انسان کے ہاتھوں جو کل تک کھڈی چلتی تھی وہ اب ایندھن سے چلنے لگی، پہلے کوئلہ تھا، پھر تیل نکلا ، پھر بات شمسی توانائی تک آ پہنچی ہے۔کھیتی باڑی سے وہ اناج میں خودکفیل ہوچلا تھا۔ اسے بھو ک مٹانے کے لیے روزو شب، شام و سحر گرداں نہیں پھرنا پڑتا۔
کمپیوٹر جو انسان نے اپنے وجود سے جمع و منفی کرنے کا کام outsource کیا تھا، اب بالکل انسانی دماغ کی طرح کام کرتا ہوا، بالکل جس طرح ذہن جو نیوران کا تسلسل ہے، اسی طرح اک دماغ جو ''مصنوعی ذہانت''artificial intelligence کہا جاتا ہے ،وہ اب الیکٹرک گاڑیوں کے بننے سے لے کے گوگل تک اپنا کام شروع کرچکا ہے اور اس کے اندر بھی جو انقلابی تبدیلی آئی یعنی جو مصنوعی ذہن جس ''foundation mode '' پر کھڑا تھا۔ اس کا فائونڈیشن ماڈل انسانی ذماغ کی طرح ہے، فرق اتنا ہے کہ وہ انسانی جسم کی طرحcellsپر نہیں بنا ہوا۔
اب اس کے اندر بھی اتنی ذہانت آگئی ہے کہ وہ خود بہ خود فیصلے بھی کرسکتا ہے، سمجھ بوجھ بھی تجربہ کے ساتھ حاصل کرسکتا ہے جس کو اب بھی وسیع و بلیغ یاdeep learning بھی کہہ سکتے ہیں۔
مختصر یہ کہ یو ولکی کی ہوئی باتیں 2012 کے بعد جو خود artificial intelligence میں انقلاب آیا ہے، درست ثابت کررہا ہے کہ یہ کرۂ ارض جس کو انسان نے کالونائیز کیا ،باقی سب فطرت کی بنائی چیزوں کو کم کیا، جنگل و ماحولیات ایک طرف تباہ بھی تو دوسری صرف کائنات کی وسعتوں کو بھی چھونے لگا ،یہ دس ہزار سال کی انسان کی حکومت اس دنیا میں اب خطرے میں پڑ گئی ہے کیونکہ کمپیوٹر مشین، مصنوعی ذہانت کا حامل روبوٹ خود انسان کو پیچھے چھوڑتا جارہا ہے، اپنی حاکمیت کا لوہا منوانے جارہا ہے، مگر کیسی ہوگی وہ دنیا، اس کی حکومت، دل و جذبات و پیار کے بغیر ہوگی، کیا وہ انصاف کرسکے گی؟
انسان تو ایسا نہیں کرسکا، مگر اس نے قانون کا ڈھانچہ ضرور تیار کیا ہے لیکن وہ مکمل انصاف نہ کرسکا۔ نہ آیندہ حاکم یعنی ''مصنوعی دماغ'' دے پائے مگر ارتقا کے زینے انسان چڑھتا گیا، اس کے باوجود اس کی حاکمیت میں دنیا مسلسل جنگوں میں رہی۔ انسان کی انسان سے، جو بہت سے مذاہب و افکار ہیں زبان و ثقافت میںتقسیم تھا، طبقات میں، رنگ و نسل میں تقسیم تھا اس کے باوجود کہ یہ homosepaian کی کوکھ سے پیدا ہوا تھا۔
اس انسان کی حاکمیت جاتے جاتے، یوکرین کی دہلیز پر جو آج پوسٹ ماڈرن جنگ ہو رہی ہے ،عین اس وقت جب دنیا کے اندر بہت بڑی ماحولیاتی تبدیلیاں آرہی ہیں، جب دنیا میں خوراک کم ہونے جارہی ہے، عین اس وقت جب یہ ثابت ہوچکا کہ اب کے دنیا میں ریاستیں اتنی آزاد نہیں رہ سکتیں۔ عین اس وقت جب آمریت اور جمہوریت کی آپس گتھم گتھا ہوگئی ہے، ایک طرف پیوٹن ہے تو دوسری طرف بائیڈن ہے۔
دنیا میں اب مادری زبان کے علاوہ صرف انگریزی ہوگی، جب خود کمپیوٹر پر یا اس مصنوعی ذہن والے کمپیوٹر پر انگریزی ہوگی۔ جب دنیا کا تمام زبانوں کا لٹریچر انگریزی میں ترجمہ ہوچکا ہوگا۔ یہ صدی اپنے آخر زینے پر جب داخل ہوگی تو کتنی تبدیل ہوچکی ہوگی، ہاں اگر کوئی ایٹمی جنگ نہ چھڑ جائے یا کوئی خطرناک ماحولیاتی تبدیلی نہ آجائے، اگر خوراک اتنی پیدا یہ دھرتی نہ کرپائے۔
آج سے پانچ ہزار سال پہلے جب پہلا سماجی معاہدہ ہوا تھا ۔ تب دنیا میں بنی نوع انسان صرف پانچ لاکھ کی تعداد میں رہتے تھے۔ یہ موئن جو دڑو والا زمانہ تھا۔ساتویں صدی میں معلوم دنیا میں انسان کی آبادی سوا دو کروڑ تھی۔ جب رومی کے والد مزار شریف سے ہجرت کرکے کونیہ جارہے تھے، اس وقت دنیا میں انسانوں کی آبادی ڈھائی کروڑ تھی۔ 1900 میں بیسویں صدی میںداخل ہوتے وقت ڈیرہ ارب اور اب کے آٹھ ارب ہے۔
ماحولیاتی آلودگی نے کرۂ عرض کے وجود کو خطرات ہیں۔ ایک کشتی ہے کہ یہ کائنات میں چلتی ہے۔ اب تک شاید واحد یہ کشتی ہے جہاں ارتقا کے زینوں سے ایک انٹیلی جنس پیدا ہوگئی ہے جو خود غرضی، لالچ، نفسا نفسی کے عالم میں پھنسی ہوئی ہے مگر ایک امید کی کرن ہے کہ وہ اس سے بھی آزاد ہوجائے گی۔ یوکرین میں لگی جنگ کی کوکھ سے جو ایک اور بڑی تبدیلی آئی ہے وہ ہر عظیم جنگ کے بعد آتی ہے، توانائی کے ذرایع کی نئی سوچ۔
یہ جو نفسا نفسی ہے، خود غرضی ہے، آدمی اب بھی وحشی ہے۔ کاربن ماحولیات اور زمین کی حدت کو خطرناک حد تک لے آرہا ہے جہاں برف پگھل رہی ہے، انٹارکٹیکا اور الاسکا میں ہمارے گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ ہجرتیں در ہجرتیں ہماری دہلیز پر آن پڑی ہیں، یوکرین، شام، صومالیہ میں لگی جنگوں سے، ماحولیات کی تبدیلی سے۔ سندھ میں اس بار کہنے والے کہتے ہیں پانی کی کمی کی وجہ سے پچاس فیصد آموں کی پیداوار کم ہوئی ہے۔
بائیس کروڑ عوام کا پاکستان، جس کی تاریخ مسخ شدہ ہے لیکن وہ جغرافیائی طور پر وفاق ہے، اس کی حقیقت آئین بھی مانتا ہے لیکن یہاں اقتدار پر قابض اشرافیہ خود دو نمبر، جہاں ستر سال گزرنے کے بعد اس ریاست کے سویلین ادارے کمزور ہیں بلکہ کچھ تو ختم ہوچکے ہیں۔ اتنے بڑے چیلنجز درپیش ہیں، ہمیں بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
ہمارے دشمن بھی بہت زیادہ ہیں۔ کچھ کو ہم نے خود ہی اپنا دشمن ڈیکلیر کردیا ہے۔ خدا خدا کرکے ہم نے ایف اے ٹی ایف کو کسی حد تک منوا لیا ہے، ہمیں بہت محنت کرنی ہے، سب کو ساتھ لے کے چلنا ہوگا۔ ورنہ ن م راشد اپنی یہ نظم انھی ہاتھوں کے لیے کہہ گئے ہیں کہ جس کے آزاد ہونے سے انسان ارتقا کے اس زینے پر پہنچا ہے۔
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں، راہ کا نشان بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اٹھتے ہیں، صبح کی اذان بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں
ہم انسان جو ہوں گے، وہ تو الگ سی بات ہے، مگر پشکن کی زبان میں ہم دو ٹانگوں والے جانور(biped animal) تھے۔ آج کے عہد کا بڑا فلاسفر، جو کارل مارکس کہتا ہے کہ شروع دن سے جب انسان homosepain ہی تھا، اس کے اندر دماغ کا وزن دوسرے جانوروں کی نسبت زیادہ تھا اور اب تو بہت زیادہ ہے، اس دماغ کا وزن مزید بڑھے گا۔
عین اس زمانے میں جب کمپیوٹر انسان کی دماغ سے نکلا ،یہ مشین اس اوزار کا ارتقا ہے جو ہمیں غاروں سے ملے ہیں، تانبے سے بنے ،دفاع کے ہتھیار اس سے پہلے پتھر سے بنے اوزار۔ ان اوزاروں نے ایک دم چھلانگ لگائی انسان کے ہاتھوں جو کل تک کھڈی چلتی تھی وہ اب ایندھن سے چلنے لگی، پہلے کوئلہ تھا، پھر تیل نکلا ، پھر بات شمسی توانائی تک آ پہنچی ہے۔کھیتی باڑی سے وہ اناج میں خودکفیل ہوچلا تھا۔ اسے بھو ک مٹانے کے لیے روزو شب، شام و سحر گرداں نہیں پھرنا پڑتا۔
کمپیوٹر جو انسان نے اپنے وجود سے جمع و منفی کرنے کا کام outsource کیا تھا، اب بالکل انسانی دماغ کی طرح کام کرتا ہوا، بالکل جس طرح ذہن جو نیوران کا تسلسل ہے، اسی طرح اک دماغ جو ''مصنوعی ذہانت''artificial intelligence کہا جاتا ہے ،وہ اب الیکٹرک گاڑیوں کے بننے سے لے کے گوگل تک اپنا کام شروع کرچکا ہے اور اس کے اندر بھی جو انقلابی تبدیلی آئی یعنی جو مصنوعی ذہن جس ''foundation mode '' پر کھڑا تھا۔ اس کا فائونڈیشن ماڈل انسانی ذماغ کی طرح ہے، فرق اتنا ہے کہ وہ انسانی جسم کی طرحcellsپر نہیں بنا ہوا۔
اب اس کے اندر بھی اتنی ذہانت آگئی ہے کہ وہ خود بہ خود فیصلے بھی کرسکتا ہے، سمجھ بوجھ بھی تجربہ کے ساتھ حاصل کرسکتا ہے جس کو اب بھی وسیع و بلیغ یاdeep learning بھی کہہ سکتے ہیں۔
مختصر یہ کہ یو ولکی کی ہوئی باتیں 2012 کے بعد جو خود artificial intelligence میں انقلاب آیا ہے، درست ثابت کررہا ہے کہ یہ کرۂ ارض جس کو انسان نے کالونائیز کیا ،باقی سب فطرت کی بنائی چیزوں کو کم کیا، جنگل و ماحولیات ایک طرف تباہ بھی تو دوسری صرف کائنات کی وسعتوں کو بھی چھونے لگا ،یہ دس ہزار سال کی انسان کی حکومت اس دنیا میں اب خطرے میں پڑ گئی ہے کیونکہ کمپیوٹر مشین، مصنوعی ذہانت کا حامل روبوٹ خود انسان کو پیچھے چھوڑتا جارہا ہے، اپنی حاکمیت کا لوہا منوانے جارہا ہے، مگر کیسی ہوگی وہ دنیا، اس کی حکومت، دل و جذبات و پیار کے بغیر ہوگی، کیا وہ انصاف کرسکے گی؟
انسان تو ایسا نہیں کرسکا، مگر اس نے قانون کا ڈھانچہ ضرور تیار کیا ہے لیکن وہ مکمل انصاف نہ کرسکا۔ نہ آیندہ حاکم یعنی ''مصنوعی دماغ'' دے پائے مگر ارتقا کے زینے انسان چڑھتا گیا، اس کے باوجود اس کی حاکمیت میں دنیا مسلسل جنگوں میں رہی۔ انسان کی انسان سے، جو بہت سے مذاہب و افکار ہیں زبان و ثقافت میںتقسیم تھا، طبقات میں، رنگ و نسل میں تقسیم تھا اس کے باوجود کہ یہ homosepaian کی کوکھ سے پیدا ہوا تھا۔
اس انسان کی حاکمیت جاتے جاتے، یوکرین کی دہلیز پر جو آج پوسٹ ماڈرن جنگ ہو رہی ہے ،عین اس وقت جب دنیا کے اندر بہت بڑی ماحولیاتی تبدیلیاں آرہی ہیں، جب دنیا میں خوراک کم ہونے جارہی ہے، عین اس وقت جب یہ ثابت ہوچکا کہ اب کے دنیا میں ریاستیں اتنی آزاد نہیں رہ سکتیں۔ عین اس وقت جب آمریت اور جمہوریت کی آپس گتھم گتھا ہوگئی ہے، ایک طرف پیوٹن ہے تو دوسری طرف بائیڈن ہے۔
دنیا میں اب مادری زبان کے علاوہ صرف انگریزی ہوگی، جب خود کمپیوٹر پر یا اس مصنوعی ذہن والے کمپیوٹر پر انگریزی ہوگی۔ جب دنیا کا تمام زبانوں کا لٹریچر انگریزی میں ترجمہ ہوچکا ہوگا۔ یہ صدی اپنے آخر زینے پر جب داخل ہوگی تو کتنی تبدیل ہوچکی ہوگی، ہاں اگر کوئی ایٹمی جنگ نہ چھڑ جائے یا کوئی خطرناک ماحولیاتی تبدیلی نہ آجائے، اگر خوراک اتنی پیدا یہ دھرتی نہ کرپائے۔
آج سے پانچ ہزار سال پہلے جب پہلا سماجی معاہدہ ہوا تھا ۔ تب دنیا میں بنی نوع انسان صرف پانچ لاکھ کی تعداد میں رہتے تھے۔ یہ موئن جو دڑو والا زمانہ تھا۔ساتویں صدی میں معلوم دنیا میں انسان کی آبادی سوا دو کروڑ تھی۔ جب رومی کے والد مزار شریف سے ہجرت کرکے کونیہ جارہے تھے، اس وقت دنیا میں انسانوں کی آبادی ڈھائی کروڑ تھی۔ 1900 میں بیسویں صدی میںداخل ہوتے وقت ڈیرہ ارب اور اب کے آٹھ ارب ہے۔
ماحولیاتی آلودگی نے کرۂ عرض کے وجود کو خطرات ہیں۔ ایک کشتی ہے کہ یہ کائنات میں چلتی ہے۔ اب تک شاید واحد یہ کشتی ہے جہاں ارتقا کے زینوں سے ایک انٹیلی جنس پیدا ہوگئی ہے جو خود غرضی، لالچ، نفسا نفسی کے عالم میں پھنسی ہوئی ہے مگر ایک امید کی کرن ہے کہ وہ اس سے بھی آزاد ہوجائے گی۔ یوکرین میں لگی جنگ کی کوکھ سے جو ایک اور بڑی تبدیلی آئی ہے وہ ہر عظیم جنگ کے بعد آتی ہے، توانائی کے ذرایع کی نئی سوچ۔
یہ جو نفسا نفسی ہے، خود غرضی ہے، آدمی اب بھی وحشی ہے۔ کاربن ماحولیات اور زمین کی حدت کو خطرناک حد تک لے آرہا ہے جہاں برف پگھل رہی ہے، انٹارکٹیکا اور الاسکا میں ہمارے گلیشیئر پگھل رہے ہیں۔ ہجرتیں در ہجرتیں ہماری دہلیز پر آن پڑی ہیں، یوکرین، شام، صومالیہ میں لگی جنگوں سے، ماحولیات کی تبدیلی سے۔ سندھ میں اس بار کہنے والے کہتے ہیں پانی کی کمی کی وجہ سے پچاس فیصد آموں کی پیداوار کم ہوئی ہے۔
بائیس کروڑ عوام کا پاکستان، جس کی تاریخ مسخ شدہ ہے لیکن وہ جغرافیائی طور پر وفاق ہے، اس کی حقیقت آئین بھی مانتا ہے لیکن یہاں اقتدار پر قابض اشرافیہ خود دو نمبر، جہاں ستر سال گزرنے کے بعد اس ریاست کے سویلین ادارے کمزور ہیں بلکہ کچھ تو ختم ہوچکے ہیں۔ اتنے بڑے چیلنجز درپیش ہیں، ہمیں بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔
ہمارے دشمن بھی بہت زیادہ ہیں۔ کچھ کو ہم نے خود ہی اپنا دشمن ڈیکلیر کردیا ہے۔ خدا خدا کرکے ہم نے ایف اے ٹی ایف کو کسی حد تک منوا لیا ہے، ہمیں بہت محنت کرنی ہے، سب کو ساتھ لے کے چلنا ہوگا۔ ورنہ ن م راشد اپنی یہ نظم انھی ہاتھوں کے لیے کہہ گئے ہیں کہ جس کے آزاد ہونے سے انسان ارتقا کے اس زینے پر پہنچا ہے۔
لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں
ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں، راہ کا نشان بن کر
نور کی زباں بن کر
ہاتھ بول اٹھتے ہیں، صبح کی اذان بن کر
روشنی سے ڈرتے ہو
روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں