گستاخی معاف
مسائل یقینا ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے سب کو ایک ساتھ مل کر ان کا بوجھ بھی اُٹھانا ہوگا
دیکھا جائے تو ہماری سیاست بھی اس روائتی کمبل جیسی ہے جسے آپ چھوڑنا بھی چاہیں تو یہ آپ کو نہیں چھوڑتی۔
ہم نے پی ٹی آئی کی حکومت میں جھوٹے اور سچے ہرطرح کے نقص ڈالے اور نکالے اور پھر اپنے تیئں اُس سے جان بھی چھڑالی لیکن اب گزشتہ دو ماہ سے یہ نجات دہندہ حضرات پوری قوم کے ساتھ صبح و شام جو سنگین مذاق روا رکھے ہوئے ہیں، اُسے کس خانے میں ڈالا جائے بالخصوص وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کی موجودہ قسط بحال کرانے کے دوران جو عجیب وغریب بیانات دیے ہیں،انھیں جلتی پر تیل کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا جس عاجزانہ بے دردی سے وہ ہر دوسرے دن پہلے سے زیادہ بری خبر لے کر ٹی وی پر آتے ہیں اور جس بے معنی تکرار سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا کریڈٹ لیتے ہیں، وہ عام عوام سمیت ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ایک مذاق بن گیا ہے۔
پی ٹی آئی کا بجٹ تک پٹرول کی قیمت نہ بڑھانے کا فیصلہ اور اُس سے ہونے والا مالی نقصان اپنی جگہ لیکن اسے کوئی نام نہاد بارودی سرنگ قرار دینا اور اپنے بعد آنے والی حکومت کے لیے دشواریاں پیدا کرنا، اس اعتبار سے ایک غیر منطقی بات ہے کہ اس اعلان کے وقت نہ تو کوئی تحریکِ عدمِ اعتماد کہیں سامنے تھی اور نہ ہی پی ٹی آئی حکومت کا قبل اَز وقت خاتمہ ، امریکی سازش یا رجیم چینج کا کوئی نشان واضح تھا، اب اگر بجٹ بھی اُسی حکومت کو پیش کرنا تھا اور آئی ایم ایف سے وعدہ خلافی یا حکم عدولی کا حساب بھی انھی کو دینا تھا تو عملی طور پر وہ یہ بارودی سُرنگیں خود اپنے لیے بچھا رہے تھے۔
پنجابی زبان میں ایک محاورہ ہوتا ہے ''موت دکھا کر بخار پر راضی کرنا'' تو لگتا یہی ہے کہ اُس تصوراتی دیوالیہ پن کا شور بھی کچھ اس سے ملتی جلتی چیز ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران حکومت نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں بہت سی غلطیاں کی ہیں لیکن جو غلطیاں اس وقت جواباً کی جارہی ہیں، اُن کی نوعیت، سنگینی اور تعداد عوام پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کے حوالے سے کہیں زیادہ سنگین اور تکلیف دہ ہے۔
ہر جماعت کی طرح مسلم لیگ ن میں بھی کچھ اچھے ''سمجھ دار'' مہذب اور با خبر لوگ یقیناً موجود ہیں بالخصوص مجھے ذاتی طور پر ڈاکٹر مصدق ملک اور موجودہ صوبائی وزیر قانون ملک احمد نے زیادہ متاثر کیا ہے لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ مفتاح اسماعیل کے اقدامات کی وضاحت اور اعانت میں اُن کی زبان بھی لڑکھڑانے لگتی ہے ۔
اس تجزیے سے ہرگز میرا مطلب پی ٹی آئی کی حمائت اور مسلم لیگ ن کی مخالفت نہیں ہے کہ میں پاکستان کے ایک آزاد اور محبِ وطن شہری کی حیثیت سے اپنے ملک کے بگڑتے ہوئے امیج اور اس میں بسنے والی مجبور اور بے بس خلقِ خدا کے حقوق اورشب و روز کی بات کر رہا ہوں اور اس حوالے سے اس بات کا کھل کر اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ملک کسی کی ضد اور انّا اور کسی کے جرائم کو قانونی تحفظ دینے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، ان دونوں کو سب سے پہلے اپنی جماعتوں اور خود کو ملک کی ترقی، نیک نامی اور عزت کے لیے کسی نہ کسی سطح پر مل کر کام کرنا ہوگا کہ ملک کا مفاد بہرحال ان کے ذاتی اور جماعتی مفاد سے بلند ہے اور اسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔
میں یہ بھی نہیں کہتا کہ عام آدمی کی زندگی جس طرح ایک مسلسل عذاب سے گزاری جارہی ہے وہ بالکل غلط یا سراسر نالائقی ہے، مسائل یقینا ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے سب کو ایک ساتھ مل کر ان کا بوجھ بھی اُٹھانا ہوگا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی کے پانچ روپے کی جگہ پٹرول کی قیمت میں 100روپے کا اضافہ کردیں اور اس کے باوجود یہ بھی کہتے رہیں کہ اگر ہم گزشتہ حکومت کی لائن پر چلتے رہتے تو یا تو یہ ٹیکس اور بھی زیادہ ہوتا یا ملک ایک دم دیوالیہ ہوجاتا ۔
کویت سے نعمت والے برادرم شاہد اقبال نے عوام کے جلے کٹے جذبات اور احساسات کے ترجمان چند شعر بھجوائے ہیں جو میں بغیر کسی تبدیلی یا کانٹ چھانٹ کے درج کر رہا ہوں تاکہ اس آواز کو حاکمانِ وقت سمیت ہم سب سُن اور سمجھ سکیں البتہ اس سے اتفاق کرنا یا نہ کرنا ہر شخص کی اپنی صوابدید ہے ۔
ابر کے چاروں طرف باڑ لگا دی جائے
مفت بارش میں نہانے پہ سزا دی جائے
سانس لینے کا بھی تاوان کیا جائے وصول
سبسڈی دھوپ پہ کچھ اور گھٹا دی جائے
رُوح اگر ہے تو اسے بیچا خریدا جائے
ورنہ گودام سے یہ جنس ہٹا دی جائے
قہقہہ جو بھی لگا ئے اُسے بِل بھیجیں گے
پیار سے دیکھنے پہ پرچی تھما دی جائے
تجزیہ کرکے بتاؤ کہ منافع کیا ہو!
بوندا باندی کی ا گر بولی چڑھا دی جائے
آئینہ دیکھنے پہ دُگنا کرایہ ہوگا
بات یہ پہلے مسافر کو بتادی جائے
تتلیوں کا جو تعاقب کرے چالان بھرے
زلف میں پھول سجانے پر سزا دی جائے
یہ اگر پیشہ ہے تواس میں رعائت کیوں ہو
بھیک لینے پہ بھی اب چُنگی لگا دی جائے
کون انسان ہے کھاتوں سے یہ معلوم کرو
بے لگانوں کی تو بستی ہی جلا دی جائے
کچی مٹی کی مہک مفت طلب کرتا ہے
قیس کو دشت کی تصویر دکھا دی جائے
حاکمِ وقت سے قزّاقوں نے سیکھا ہوگا
باج نہ ملتا ہو تو گولی چلا دی جائے
ہم نے پی ٹی آئی کی حکومت میں جھوٹے اور سچے ہرطرح کے نقص ڈالے اور نکالے اور پھر اپنے تیئں اُس سے جان بھی چھڑالی لیکن اب گزشتہ دو ماہ سے یہ نجات دہندہ حضرات پوری قوم کے ساتھ صبح و شام جو سنگین مذاق روا رکھے ہوئے ہیں، اُسے کس خانے میں ڈالا جائے بالخصوص وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے آئی ایم ایف کی موجودہ قسط بحال کرانے کے دوران جو عجیب وغریب بیانات دیے ہیں،انھیں جلتی پر تیل کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا جس عاجزانہ بے دردی سے وہ ہر دوسرے دن پہلے سے زیادہ بری خبر لے کر ٹی وی پر آتے ہیں اور جس بے معنی تکرار سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا کریڈٹ لیتے ہیں، وہ عام عوام سمیت ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ایک مذاق بن گیا ہے۔
پی ٹی آئی کا بجٹ تک پٹرول کی قیمت نہ بڑھانے کا فیصلہ اور اُس سے ہونے والا مالی نقصان اپنی جگہ لیکن اسے کوئی نام نہاد بارودی سرنگ قرار دینا اور اپنے بعد آنے والی حکومت کے لیے دشواریاں پیدا کرنا، اس اعتبار سے ایک غیر منطقی بات ہے کہ اس اعلان کے وقت نہ تو کوئی تحریکِ عدمِ اعتماد کہیں سامنے تھی اور نہ ہی پی ٹی آئی حکومت کا قبل اَز وقت خاتمہ ، امریکی سازش یا رجیم چینج کا کوئی نشان واضح تھا، اب اگر بجٹ بھی اُسی حکومت کو پیش کرنا تھا اور آئی ایم ایف سے وعدہ خلافی یا حکم عدولی کا حساب بھی انھی کو دینا تھا تو عملی طور پر وہ یہ بارودی سُرنگیں خود اپنے لیے بچھا رہے تھے۔
پنجابی زبان میں ایک محاورہ ہوتا ہے ''موت دکھا کر بخار پر راضی کرنا'' تو لگتا یہی ہے کہ اُس تصوراتی دیوالیہ پن کا شور بھی کچھ اس سے ملتی جلتی چیز ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران حکومت نے اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں بہت سی غلطیاں کی ہیں لیکن جو غلطیاں اس وقت جواباً کی جارہی ہیں، اُن کی نوعیت، سنگینی اور تعداد عوام پر پڑنے والے تباہ کن اثرات کے حوالے سے کہیں زیادہ سنگین اور تکلیف دہ ہے۔
ہر جماعت کی طرح مسلم لیگ ن میں بھی کچھ اچھے ''سمجھ دار'' مہذب اور با خبر لوگ یقیناً موجود ہیں بالخصوص مجھے ذاتی طور پر ڈاکٹر مصدق ملک اور موجودہ صوبائی وزیر قانون ملک احمد نے زیادہ متاثر کیا ہے لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ مفتاح اسماعیل کے اقدامات کی وضاحت اور اعانت میں اُن کی زبان بھی لڑکھڑانے لگتی ہے ۔
اس تجزیے سے ہرگز میرا مطلب پی ٹی آئی کی حمائت اور مسلم لیگ ن کی مخالفت نہیں ہے کہ میں پاکستان کے ایک آزاد اور محبِ وطن شہری کی حیثیت سے اپنے ملک کے بگڑتے ہوئے امیج اور اس میں بسنے والی مجبور اور بے بس خلقِ خدا کے حقوق اورشب و روز کی بات کر رہا ہوں اور اس حوالے سے اس بات کا کھل کر اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ملک کسی کی ضد اور انّا اور کسی کے جرائم کو قانونی تحفظ دینے کے لیے نہیں بنایا گیا تھا، ان دونوں کو سب سے پہلے اپنی جماعتوں اور خود کو ملک کی ترقی، نیک نامی اور عزت کے لیے کسی نہ کسی سطح پر مل کر کام کرنا ہوگا کہ ملک کا مفاد بہرحال ان کے ذاتی اور جماعتی مفاد سے بلند ہے اور اسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔
میں یہ بھی نہیں کہتا کہ عام آدمی کی زندگی جس طرح ایک مسلسل عذاب سے گزاری جارہی ہے وہ بالکل غلط یا سراسر نالائقی ہے، مسائل یقینا ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے سب کو ایک ساتھ مل کر ان کا بوجھ بھی اُٹھانا ہوگا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی کے پانچ روپے کی جگہ پٹرول کی قیمت میں 100روپے کا اضافہ کردیں اور اس کے باوجود یہ بھی کہتے رہیں کہ اگر ہم گزشتہ حکومت کی لائن پر چلتے رہتے تو یا تو یہ ٹیکس اور بھی زیادہ ہوتا یا ملک ایک دم دیوالیہ ہوجاتا ۔
کویت سے نعمت والے برادرم شاہد اقبال نے عوام کے جلے کٹے جذبات اور احساسات کے ترجمان چند شعر بھجوائے ہیں جو میں بغیر کسی تبدیلی یا کانٹ چھانٹ کے درج کر رہا ہوں تاکہ اس آواز کو حاکمانِ وقت سمیت ہم سب سُن اور سمجھ سکیں البتہ اس سے اتفاق کرنا یا نہ کرنا ہر شخص کی اپنی صوابدید ہے ۔
ابر کے چاروں طرف باڑ لگا دی جائے
مفت بارش میں نہانے پہ سزا دی جائے
سانس لینے کا بھی تاوان کیا جائے وصول
سبسڈی دھوپ پہ کچھ اور گھٹا دی جائے
رُوح اگر ہے تو اسے بیچا خریدا جائے
ورنہ گودام سے یہ جنس ہٹا دی جائے
قہقہہ جو بھی لگا ئے اُسے بِل بھیجیں گے
پیار سے دیکھنے پہ پرچی تھما دی جائے
تجزیہ کرکے بتاؤ کہ منافع کیا ہو!
بوندا باندی کی ا گر بولی چڑھا دی جائے
آئینہ دیکھنے پہ دُگنا کرایہ ہوگا
بات یہ پہلے مسافر کو بتادی جائے
تتلیوں کا جو تعاقب کرے چالان بھرے
زلف میں پھول سجانے پر سزا دی جائے
یہ اگر پیشہ ہے تواس میں رعائت کیوں ہو
بھیک لینے پہ بھی اب چُنگی لگا دی جائے
کون انسان ہے کھاتوں سے یہ معلوم کرو
بے لگانوں کی تو بستی ہی جلا دی جائے
کچی مٹی کی مہک مفت طلب کرتا ہے
قیس کو دشت کی تصویر دکھا دی جائے
حاکمِ وقت سے قزّاقوں نے سیکھا ہوگا
باج نہ ملتا ہو تو گولی چلا دی جائے