گردن میں ہلکی بجلی کی بدولت فالج زدہ بندر کے بازو میں زندگی لوٹ آئی
تین بندروں کے حرام مغز پر برقیرے لگاکر جب برقی رو پہنچائی گئی تو نیم معذور جانور ہاتھ ہلانے لگے
RAWALPINDI:
جزوی فالج کے شکار تین ایسے بندروں کی گردن پر الیکٹروڈ لگا کر ان کے ہاتھوں کی جنبش بحال کی گئی ہے جو اس سے قبل ہاتھ ہلانے سے معذور تھے۔
ماہرین نے حرام مغز میں موجود ان اعصابی خلیات کی سرگرمی کو بڑھایا (ایمپلیفائی) کیا ہے جو اپاہج ہونے کے باوجود اپنی سرگرمی برقرار رکھے ہوئے تھے۔
پینسلوینیا میں جامعہ پٹس برگ سے تعلق رکھنے والے مارکو کیپوگروسو نے یہ تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق فالج کے بعد ٹانگ کے مقابلے میں بازو کی حرکت بحال کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہاتھ اور بازو کا معاملہ بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔
اگرچہ معذورافراد میں برقی سرگرمی سے بے جان بازوؤں کو بحال کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں تاہم اس میں بہت کامیابی نہیں مل سکی۔ دوم سرجری ایک مشکل عمل ہوتا ہے اور پیچیدہ مشین لرننگ پر طویل تربیت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ برقی سنگلوں کو حرکات میں بدلنے میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔
اب ڈاکٹر مارکو نے اس عمل کو مؤثر اور سادہ بناتے ہوئے یہ دکھایا ہے کہ حرام مغز پر الیکٹروڈ لگا کر برقی سرگرمی سے دھڑ کے اوپری حصے یعنی بازو میں حرکت پیدا کی جاسکتی ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح اعصابی برقی سگنلوں کو حرکات میں بدلنے والے کمپیوٹر کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اس کے لیے درست برقیرے (الیکٹروڈ) بنانے کے لیے سائنسدانوں نے تینوں بندروں کے حرام مغز کے تفصیلی ایم آر آئی اسکین لیے اور رگوں کا غور سے مطالعہ کیا جو ہاتھ اور بازو قابو کرتے ہیں۔
پھر انہوں نے شعوری طور پر بندروں کو بے ہوش کرکے ان کا الٹا بازو مفلوج کیا۔ اس کے کئی دن بعد انہوں نے حرام مغز میں برقیرے لگائے اور ہلکی بجلی فراہم کی۔ الیکٹروڈ سے مدھم برقی سگنلوں کو بھی بڑھایا گیا۔ عین یہی کیفیت انسانوں میں بھی ہوتی ہے جہاں اضافی اعصاب اور ان کے رابطے موجود ہوتے ہیں۔
جب حرام مغز کے برقیروں کو بجلی دی گئی تو ایک ہفتے بعد ایک بندر نے کسی شے کی جانب ہاتھ تو بڑھایا لیکن اسے تھام نہ سکا۔ باقی دو بندروں نے نہ صرف ایک شے (مثلاً گلاس) کی جانب ہاتھ بڑھایا اور اسے تھام بھی لیا لیکن اس میں انہیں ایک ہفتے کا وقت لگا۔
اس عمل کو چھ ہفتوں تک دہرایا گیا لیکن انگلیوں میں انفرادی حرکت پیدا نہیں ہوسکی۔ یعنی اگر انسانوں میں یہ ٹیکنالوجی استعمال کی جائے تو وہ کی بورڈ دبانے یا لکھنے کا کام نہیں کرسکیں گے۔
تاہم اس پر مزید تحقیق جاری ہے اور توقع ہے کہ جلد ہی بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
جزوی فالج کے شکار تین ایسے بندروں کی گردن پر الیکٹروڈ لگا کر ان کے ہاتھوں کی جنبش بحال کی گئی ہے جو اس سے قبل ہاتھ ہلانے سے معذور تھے۔
ماہرین نے حرام مغز میں موجود ان اعصابی خلیات کی سرگرمی کو بڑھایا (ایمپلیفائی) کیا ہے جو اپاہج ہونے کے باوجود اپنی سرگرمی برقرار رکھے ہوئے تھے۔
پینسلوینیا میں جامعہ پٹس برگ سے تعلق رکھنے والے مارکو کیپوگروسو نے یہ تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق فالج کے بعد ٹانگ کے مقابلے میں بازو کی حرکت بحال کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہاتھ اور بازو کا معاملہ بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔
اگرچہ معذورافراد میں برقی سرگرمی سے بے جان بازوؤں کو بحال کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں تاہم اس میں بہت کامیابی نہیں مل سکی۔ دوم سرجری ایک مشکل عمل ہوتا ہے اور پیچیدہ مشین لرننگ پر طویل تربیت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ برقی سنگلوں کو حرکات میں بدلنے میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔
اب ڈاکٹر مارکو نے اس عمل کو مؤثر اور سادہ بناتے ہوئے یہ دکھایا ہے کہ حرام مغز پر الیکٹروڈ لگا کر برقی سرگرمی سے دھڑ کے اوپری حصے یعنی بازو میں حرکت پیدا کی جاسکتی ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح اعصابی برقی سگنلوں کو حرکات میں بدلنے والے کمپیوٹر کی ضرورت نہیں پڑتی۔
اس کے لیے درست برقیرے (الیکٹروڈ) بنانے کے لیے سائنسدانوں نے تینوں بندروں کے حرام مغز کے تفصیلی ایم آر آئی اسکین لیے اور رگوں کا غور سے مطالعہ کیا جو ہاتھ اور بازو قابو کرتے ہیں۔
پھر انہوں نے شعوری طور پر بندروں کو بے ہوش کرکے ان کا الٹا بازو مفلوج کیا۔ اس کے کئی دن بعد انہوں نے حرام مغز میں برقیرے لگائے اور ہلکی بجلی فراہم کی۔ الیکٹروڈ سے مدھم برقی سگنلوں کو بھی بڑھایا گیا۔ عین یہی کیفیت انسانوں میں بھی ہوتی ہے جہاں اضافی اعصاب اور ان کے رابطے موجود ہوتے ہیں۔
جب حرام مغز کے برقیروں کو بجلی دی گئی تو ایک ہفتے بعد ایک بندر نے کسی شے کی جانب ہاتھ تو بڑھایا لیکن اسے تھام نہ سکا۔ باقی دو بندروں نے نہ صرف ایک شے (مثلاً گلاس) کی جانب ہاتھ بڑھایا اور اسے تھام بھی لیا لیکن اس میں انہیں ایک ہفتے کا وقت لگا۔
اس عمل کو چھ ہفتوں تک دہرایا گیا لیکن انگلیوں میں انفرادی حرکت پیدا نہیں ہوسکی۔ یعنی اگر انسانوں میں یہ ٹیکنالوجی استعمال کی جائے تو وہ کی بورڈ دبانے یا لکھنے کا کام نہیں کرسکیں گے۔
تاہم اس پر مزید تحقیق جاری ہے اور توقع ہے کہ جلد ہی بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔