ملکی سیاسی منظر نامہ
پاکستان کی سیاست میں گرما گرمی جاری ہے جب کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں
لاہور:
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں بیک وقت کئی ڈویلپمنٹس ہوتی نظر آرہی ہیں۔ایک جانب پنجاب میں17 جولائی کو صوبائی اسمبلی کی بیس نشستوں پرضمنی الیکشن ہورہے ہیں۔ یہ نشستیں پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کی بنا پر خالی ہوئی تھیں۔
ادھر چند دن پہلے تک پنجاب کے وزیراعلیٰ کے الیکشن پر جو عدالتی جنگ جاری تھی ، وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت بند ہوچکی ہے اور سارے فریق بائیس جولائی کو وزیراعلیٰ کے دوبارہ انتخاب پر متفق ہوگئے ہیں۔ادھر سابق وزیراعظم عمران خان حکومت کے خلاف احتجاج پر نکلے ہوئے ہیں اور انھوں نے ہفتے کی رات اسلام آباد کی پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے جارحانہ خطاب کیا۔ یہ سب کچھ ایک ہی وقت میں چل رہا ہے۔
اسی سلسلے میں وزیر اعظم شہباز شریف گزشتہ روز لاہور پہنچے جہاں انھوں نے خاصا مصروف دن گزارا ۔ان کی زیرصدارت پارٹی کی سینئر قیادت کا لاہور میں اجلاس بھی ہوا ۔اس میں سیاسی صورتحال خصوصاً پنجاب اور لاہور میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے مسلم لیگ ن کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز، مریم نواز، خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق، علیم خان، ملک احمد خان، عطا تارڑ اور دیگر نے شرکت کی۔
اخبارات نے ذرایع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس اجلاس میں17جولائی کو پنجاب کے مختلف حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی حکمت عملی پر غور کیا گیا اوراس حوالے سے مزید مشاورت کی گئی اور لیگی رہنماؤں کو ضمنی انتخابات کے حوالے سے اہم ٹاسک بھی سونپ دیے گئے ہیں۔ مریم نواز کو لاہور سمیت پنجاب بھر کے حلقوں میں انتخابی مہم چلانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق اور علیم خان کو لاہور کے چاروں حلقوں میں ضمنی انتخابات کی نگرانی کا کہا گیا ہے۔ ذرایع کے مطابق حمزہ شہباز صرف انتخابی مہم کی نگرانی کریں گے، تاہم وہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے مطابق انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیں گے۔
مسلم لیگ ن کے لیے پنجاب کے ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ضمنی الیکشن کے نتائج ہی اگلے وزیراعلیٰ پنجاب کا تعین کریں گے۔اس لیے مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کو مریم نواز لیڈ کریں گی کیونکہ دوسری جانب عمران خان جارحانہ احتجاجی مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔اسی دوران سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب انتخاب کیس کا تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا ہے، میڈیا کے مطابق دس صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن نے تحریر کیا ہے جس میں حمزہ شہباز کو وزیراعلٰی برقرار رکھا گیا جب کہ ان کے لیے نگران وزیراعلیٰ کے طور پر کوئی لفظ شامل نہیں ہے۔
عدالت عظمیٰ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے بائیس جولائی شام چار بجے پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے، لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کو ایک ہفتے میں پانچ مخصوص نشستوں پر تفصیلی فیصلے اور کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ تحریک انصاف کے سوا کسی نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔
سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی صدارت ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری ہی کریں گے، عدالت نے ہدایت کی کہ لاہور ہائیکورٹ مخصوص نشستوں کے حوالے سے ایک ہفتے میں تفصیلی فیصلہ جاری کرے گی جس کے فوری بعدالیکشن کمیشن پانچ مخصوص نشستوں پر کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری کرے لیکن پنجاب میں ضمنی انتخابات کے بعد اگر کوئی تنازع پیدا ہوتا ہے تو اس کے لیے قانونی فورمز موجود ہیں۔ یوں یہ تنازعہ پوری طرح حل ہوگیا ہے اور پنجاب میں جاری بحران کا خاتمہ ہوگیا ہے۔
ادھر حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے گزشتہ روز کہا ہے کہ ایک ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔ ہر قیمت پر آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنا لازمی تھا۔
عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف سے غلط معاہدہ کیا جو خامیوں سے بھرپورتھا اور شرائط بھی صحیح نہیں تھیں۔ شہدا پولیس کے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرداخلہ نے کہا کہ اکانومی،لا اینڈ آرڈر کی صور تحال ساری قیادت کے مل بیٹھنے سے حل ہوگی۔ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ آئین سے ماورا نہ تو ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہوں گے اور نہ کوئی معاہدہ ہوگا،جو بھی اس بارے میں پیش رفت ہوگی اس سے پارلیمانی کمیٹی کو آگاہ کیا جائے گا اور پھر اس پر قومی اسمبلی میں بحث ہوگی۔
پنجاب کے 20صوبائی حلقوں میں ضمنی انتخابات کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیرصدارت سول سیکریٹریٹ میں اجلاس ہوا جس میں الیکشن کمیشن کے ارکان اور سیکریٹری، چیف سیکریٹری پنجاب، آئی جی، ڈی جی رینجرز اور دیگر حکام نے شرکت کی۔ چیف سیکریٹری نے تیاریوں پر بریفنگ دی اور یقین دلایا کہ صوبائی حکومت الیکشن کمیشن کو ہر ممکن معاونت فراہم کریگی۔ سرکاری ملازمین الیکشن کے غیر جانبدارانہ اور شفاف انعقاد کو یقینی بنائیں گے۔
آئی جی اور ڈی جی رینجرز نے سیکیورٹی انتظامات پر بریفنگ دی۔ چیف الیکشن کمشنر نے واضح الفاظ میں بتایا کہ امن و امان قائم رکھنا اور انتخابی عملے کو سیکیورٹی فراہم کرنا وفاقی اور صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے اور انتخابات کے انعقاد میں ان کا کردار انتہائی اہم ہے۔تمام وفاقی و صوبائی اداروں کی یہ آئینی ذمے داری ہے کہ الیکشن کے پر امن انعقاد کو یقینی بنائیں اور انتخابات کے دوران بے ضابطگی کی صورت میں ذمے داروں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائیں اور اس ضمن میں کسی بھی طرح کے سیاسی دباؤکو خاطر میں نہ لائیں۔
ادھر اسلام آباد کی پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عوام ان کے ساتھ نہیں، امپائر ان کے ساتھ ہیں پھر بھی ان کو شکست دینی ہے۔ ڈھائی سال آئی ایم ایف سے ڈیل کی، مہنگائی نہیں ہونے دی،کیوں نیوٹرلز نے ان چوروں کو ملک پر مسلط ہونے دیا۔ اداروں سے پوچھتے ہیں کہ کیا کرپشن کے خلاف لڑنے کا ٹھیکہ اکیلے میں نے ہی لیا ہوا ہے۔
میں ملک کے اداروں کے خلاف جنگ لڑنے نہیں نکلا ، یہ پرامن احتجاج اداروں کو پیغام دے رہا ہے کہ ان چوروں سے ملک کو بچا لو۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس وجہ سے نکلے تھے کہ امپورٹڈ حکومت نامنظور ہے،وہ تمام اداروں کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ قوم کدھر کھڑی ہے۔
وہ اپنے ملک کے اداروں کے خلاف جنگ کرنے اور اپنے اداروں کا نقصان کرنے نہیں نکلے تھے۔عمران خان نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم یہ چاہتے ہو کہ ہم اپنی فوج اور عدلیہ سے لڑ پڑیں اور ان کے سامنے کھڑے ہو جائیں تو پھر سن لو کہ ہمارا جینا مرنا پاکستان میں ہے، فوج ہماری ضرورت ہے، ہم پولیس کے خلاف بھی لڑنا نہیں چاہتے۔ایک جرمن نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے مفادات روس سے جڑے ہیں۔ہمیں روسی تیل، گیس اور گندم چاہیے۔
اس لیے یوکرین جنگ میں پاکستان کسی طرف داری کا متحمل نہیں ہو سکتا، ان کی حکومت گرانے میں امریکی کردار اہم تھا۔ دوسری جانب سابق عمران خان کی اہلیہ کی ایک مبینہ آڈیو سوشل میڈیا پر لیک ہوئی ہے ، میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس آڈیو میں وہ عمران خان کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ارسلان خالد کو مخالفین کے خلاف غداری کا بیانیہ بنانے کی مہم چلانے کی ہدایات دے رہی ہیں۔ یہ آڈیو کتنی درست ہے ، اس کا پتہ تو تحقیقات کرانے کے بعد ہی چل سکتا ہے، اس لیے اس مبینہ آڈیو کے بارے میں کوئی مزید بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
عمران خان کے جارحانہ بیانات کے جواب میں مریم نواز شریف بھی سابق وزیراعظم پر کڑی تنقید کررہی ہیں۔انھوں نے گزشتہ روزانتخابی جلسے سے تقریر کے دوران کہا ہے کہ فتنہ خان نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا، آئی ایم ایف نے وزیراعظم شہباز شریف پر واضح کیا ہے کہ عمران خان کی وجہ سے اب انھیں پاکستان پر اعتبار نہیں ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ عمران خان2018 میں عوامی مینڈیٹ چرا کر اقتدار پر مسلط ہوا اور اس نے خزانے کو خالی کردیا، بات توشہ خانے کی نہیں بلکہ عادت کی ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان کا خزانہ خالی ہے۔
پاکستان کی سیاست میں گرما گرمی جاری ہے جب کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف ہے حالانکہ ملک کو اس وقت اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں بیک وقت کئی ڈویلپمنٹس ہوتی نظر آرہی ہیں۔ایک جانب پنجاب میں17 جولائی کو صوبائی اسمبلی کی بیس نشستوں پرضمنی الیکشن ہورہے ہیں۔ یہ نشستیں پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کی بنا پر خالی ہوئی تھیں۔
ادھر چند دن پہلے تک پنجاب کے وزیراعلیٰ کے الیکشن پر جو عدالتی جنگ جاری تھی ، وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت بند ہوچکی ہے اور سارے فریق بائیس جولائی کو وزیراعلیٰ کے دوبارہ انتخاب پر متفق ہوگئے ہیں۔ادھر سابق وزیراعظم عمران خان حکومت کے خلاف احتجاج پر نکلے ہوئے ہیں اور انھوں نے ہفتے کی رات اسلام آباد کی پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے جارحانہ خطاب کیا۔ یہ سب کچھ ایک ہی وقت میں چل رہا ہے۔
اسی سلسلے میں وزیر اعظم شہباز شریف گزشتہ روز لاہور پہنچے جہاں انھوں نے خاصا مصروف دن گزارا ۔ان کی زیرصدارت پارٹی کی سینئر قیادت کا لاہور میں اجلاس بھی ہوا ۔اس میں سیاسی صورتحال خصوصاً پنجاب اور لاہور میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے مسلم لیگ ن کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز، مریم نواز، خواجہ سعد رفیق، سردار ایاز صادق، علیم خان، ملک احمد خان، عطا تارڑ اور دیگر نے شرکت کی۔
اخبارات نے ذرایع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس اجلاس میں17جولائی کو پنجاب کے مختلف حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی حکمت عملی پر غور کیا گیا اوراس حوالے سے مزید مشاورت کی گئی اور لیگی رہنماؤں کو ضمنی انتخابات کے حوالے سے اہم ٹاسک بھی سونپ دیے گئے ہیں۔ مریم نواز کو لاہور سمیت پنجاب بھر کے حلقوں میں انتخابی مہم چلانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق اور علیم خان کو لاہور کے چاروں حلقوں میں ضمنی انتخابات کی نگرانی کا کہا گیا ہے۔ ذرایع کے مطابق حمزہ شہباز صرف انتخابی مہم کی نگرانی کریں گے، تاہم وہ الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کے مطابق انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیں گے۔
مسلم لیگ ن کے لیے پنجاب کے ضمنی الیکشن میں کامیابی حاصل کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ضمنی الیکشن کے نتائج ہی اگلے وزیراعلیٰ پنجاب کا تعین کریں گے۔اس لیے مسلم لیگ ن کی انتخابی مہم کو مریم نواز لیڈ کریں گی کیونکہ دوسری جانب عمران خان جارحانہ احتجاجی مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔اسی دوران سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب انتخاب کیس کا تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا ہے، میڈیا کے مطابق دس صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس اعجاز الاحسن نے تحریر کیا ہے جس میں حمزہ شہباز کو وزیراعلٰی برقرار رکھا گیا جب کہ ان کے لیے نگران وزیراعلیٰ کے طور پر کوئی لفظ شامل نہیں ہے۔
عدالت عظمیٰ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے بائیس جولائی شام چار بجے پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے، لاہور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کو ایک ہفتے میں پانچ مخصوص نشستوں پر تفصیلی فیصلے اور کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ تحریک انصاف کے سوا کسی نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا۔
سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے پنجاب اسمبلی کے اجلاس کی صدارت ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری ہی کریں گے، عدالت نے ہدایت کی کہ لاہور ہائیکورٹ مخصوص نشستوں کے حوالے سے ایک ہفتے میں تفصیلی فیصلہ جاری کرے گی جس کے فوری بعدالیکشن کمیشن پانچ مخصوص نشستوں پر کامیابی کا نوٹیفیکیشن جاری کرے لیکن پنجاب میں ضمنی انتخابات کے بعد اگر کوئی تنازع پیدا ہوتا ہے تو اس کے لیے قانونی فورمز موجود ہیں۔ یوں یہ تنازعہ پوری طرح حل ہوگیا ہے اور پنجاب میں جاری بحران کا خاتمہ ہوگیا ہے۔
ادھر حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ وفاقی وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے گزشتہ روز کہا ہے کہ ایک ارب ڈالر کے لیے آئی ایم ایف تگنی کا ناچ نچا رہا ہے۔ ہر قیمت پر آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنا لازمی تھا۔
عمران خان حکومت نے آئی ایم ایف سے غلط معاہدہ کیا جو خامیوں سے بھرپورتھا اور شرائط بھی صحیح نہیں تھیں۔ شہدا پولیس کے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرداخلہ نے کہا کہ اکانومی،لا اینڈ آرڈر کی صور تحال ساری قیادت کے مل بیٹھنے سے حل ہوگی۔ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ آئین سے ماورا نہ تو ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہوں گے اور نہ کوئی معاہدہ ہوگا،جو بھی اس بارے میں پیش رفت ہوگی اس سے پارلیمانی کمیٹی کو آگاہ کیا جائے گا اور پھر اس پر قومی اسمبلی میں بحث ہوگی۔
پنجاب کے 20صوبائی حلقوں میں ضمنی انتخابات کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لیے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیرصدارت سول سیکریٹریٹ میں اجلاس ہوا جس میں الیکشن کمیشن کے ارکان اور سیکریٹری، چیف سیکریٹری پنجاب، آئی جی، ڈی جی رینجرز اور دیگر حکام نے شرکت کی۔ چیف سیکریٹری نے تیاریوں پر بریفنگ دی اور یقین دلایا کہ صوبائی حکومت الیکشن کمیشن کو ہر ممکن معاونت فراہم کریگی۔ سرکاری ملازمین الیکشن کے غیر جانبدارانہ اور شفاف انعقاد کو یقینی بنائیں گے۔
آئی جی اور ڈی جی رینجرز نے سیکیورٹی انتظامات پر بریفنگ دی۔ چیف الیکشن کمشنر نے واضح الفاظ میں بتایا کہ امن و امان قائم رکھنا اور انتخابی عملے کو سیکیورٹی فراہم کرنا وفاقی اور صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے اور انتخابات کے انعقاد میں ان کا کردار انتہائی اہم ہے۔تمام وفاقی و صوبائی اداروں کی یہ آئینی ذمے داری ہے کہ الیکشن کے پر امن انعقاد کو یقینی بنائیں اور انتخابات کے دوران بے ضابطگی کی صورت میں ذمے داروں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائیں اور اس ضمن میں کسی بھی طرح کے سیاسی دباؤکو خاطر میں نہ لائیں۔
ادھر اسلام آباد کی پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عوام ان کے ساتھ نہیں، امپائر ان کے ساتھ ہیں پھر بھی ان کو شکست دینی ہے۔ ڈھائی سال آئی ایم ایف سے ڈیل کی، مہنگائی نہیں ہونے دی،کیوں نیوٹرلز نے ان چوروں کو ملک پر مسلط ہونے دیا۔ اداروں سے پوچھتے ہیں کہ کیا کرپشن کے خلاف لڑنے کا ٹھیکہ اکیلے میں نے ہی لیا ہوا ہے۔
میں ملک کے اداروں کے خلاف جنگ لڑنے نہیں نکلا ، یہ پرامن احتجاج اداروں کو پیغام دے رہا ہے کہ ان چوروں سے ملک کو بچا لو۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ وہ اس وجہ سے نکلے تھے کہ امپورٹڈ حکومت نامنظور ہے،وہ تمام اداروں کو پیغام دینا چاہتے تھے کہ قوم کدھر کھڑی ہے۔
وہ اپنے ملک کے اداروں کے خلاف جنگ کرنے اور اپنے اداروں کا نقصان کرنے نہیں نکلے تھے۔عمران خان نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم یہ چاہتے ہو کہ ہم اپنی فوج اور عدلیہ سے لڑ پڑیں اور ان کے سامنے کھڑے ہو جائیں تو پھر سن لو کہ ہمارا جینا مرنا پاکستان میں ہے، فوج ہماری ضرورت ہے، ہم پولیس کے خلاف بھی لڑنا نہیں چاہتے۔ایک جرمن نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے مفادات روس سے جڑے ہیں۔ہمیں روسی تیل، گیس اور گندم چاہیے۔
اس لیے یوکرین جنگ میں پاکستان کسی طرف داری کا متحمل نہیں ہو سکتا، ان کی حکومت گرانے میں امریکی کردار اہم تھا۔ دوسری جانب سابق عمران خان کی اہلیہ کی ایک مبینہ آڈیو سوشل میڈیا پر لیک ہوئی ہے ، میڈیا کی اطلاعات کے مطابق اس آڈیو میں وہ عمران خان کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ارسلان خالد کو مخالفین کے خلاف غداری کا بیانیہ بنانے کی مہم چلانے کی ہدایات دے رہی ہیں۔ یہ آڈیو کتنی درست ہے ، اس کا پتہ تو تحقیقات کرانے کے بعد ہی چل سکتا ہے، اس لیے اس مبینہ آڈیو کے بارے میں کوئی مزید بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
عمران خان کے جارحانہ بیانات کے جواب میں مریم نواز شریف بھی سابق وزیراعظم پر کڑی تنقید کررہی ہیں۔انھوں نے گزشتہ روزانتخابی جلسے سے تقریر کے دوران کہا ہے کہ فتنہ خان نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا، آئی ایم ایف نے وزیراعظم شہباز شریف پر واضح کیا ہے کہ عمران خان کی وجہ سے اب انھیں پاکستان پر اعتبار نہیں ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ عمران خان2018 میں عوامی مینڈیٹ چرا کر اقتدار پر مسلط ہوا اور اس نے خزانے کو خالی کردیا، بات توشہ خانے کی نہیں بلکہ عادت کی ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان کا خزانہ خالی ہے۔
پاکستان کی سیاست میں گرما گرمی جاری ہے جب کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت سیاسی پوائنٹ اسکورنگ میں مصروف ہے حالانکہ ملک کو اس وقت اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔