جب روٹی نہیں ہوگی

ایٹم مارکرتباہ کرنا آسان ہے لیکن غلے کاایک دانہ سبزی یاپھل نہ بناسکتے ہیں نہ زمین کی مددکے بغیرپیداکرسکتے ہیں


Saad Ulllah Jaan Baraq July 04, 2022
[email protected]

آپ مانیں یانہ مانیں مگریہ حقیقت ہے کہ اس دنیاپراوراس انسانیت پرایک بہت ہی کٹھن،جان لیوا اورتباہ کن دورآنے والاہے، ایک ایسا دورجس کاعلاج یہ اپنے آپ کو اشرف المخلوقات،حیوان اعلیٰ، حیوان ناطق اورحیوان ذہین کہنے والاانسان ہرگزنہیں کرپائے گا۔

ویسے اگر سنجیدہ ہوکردیکھاجائے تو اس تباہی کی ابتداہوچکی ہے لیکن ابھی صاف صاف نہیں دکھائی دے رہی ہے ،چلیے ہم سمجھادیتے ہیں یہ تو عام اور معمولی سمجھ کاانسان بھی سمجھ سکتاہے کہ انسان کی زندگی کاانحصاراوردارومدار''پیٹ''کے بھرنے پرہے۔

دنیاکے بڑے عالموں موجدوں، سانئس دانوں، فلسفیوں اوردانشوروں کی زندگی اورکام کاانحصار بھی پیٹ پر تھا اورہے اورپیٹ صرف روٹی سے یاان چیزوں سے بھرتا ہے جو زمین سے پیداہوتی ہیں ،ان سب لوگوں کے جو تاریخ میں نامورہوئے اگرپیٹ میں روٹی نہ ہوتی تو کیاوہ سب کچھ کرپاتے جو کرچکے ہیں؟

اس سلسلے میں ایک حکایت بڑی چشم کشا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جسم کے سارے اعضانے آپس میں مشورہ کیا، ہاتھ، پیر، آنکھیں، ناک ،کان، انگلیاں سب نے کہاکہ ہم سب کام کرکے لاتے ہیں اوراس پیٹ کم بخت کو کھلاتے ہیں اوریہ کچھ بھی نہیں کرتا، آرام سے پڑارہتاہے چلو کام چھوڑ ہڑتال کرتے ہیں سب نے کام کرنا چھوڑ دیااوراپنے خیال میں ''مفت خور''پیٹ کو مزہ چکھانے لگے۔

لیکن ایک ہی روزمیں سارے اعضانے محسوس کیاکہ ان میں وہ دم خم نہیںرہاجو پہلے تھا پھر آہستہ آہستہ ان کی سمجھ میں آگیا کہ اصل میں ہم جوکام کرتے ہیں، پیٹ کے لیے نہیں خود اپنے لیے کرتے ہیں بلکہ پیٹ کااحسان ہے کہ وہ خوراک کوطاقت بنا کر ہمیں دیتاہے۔

عرض یہ ہے کہ سقراط، بقراط، دمیقراط، افلاطون و ارسطو،نیوٹن، آئن اسٹائن وغیرہ اگر بھوکے ہوتے تویہ کرسکتے تھے جو انھوں نے کیا،ہرگزنہیں بلکہ شاید اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پاتے اورچند روز میں بے جان بھی ہوجاتے،آج بھی جو ملک چلاتے ہیں، بینک چلاتے ہیں، کاروباراورانڈسٹریاں چلاتے ہیں، بڑی بڑی باتیں کرکے پہاڑ پر پہاڑ مارتے ہیں لیکن سارے کے سارے مل کر اوراپنی تمام دولتیں اورایجادات لے کر ایک روٹی ایک نوالہ نہیں بنا سکتے ہیں؟

ایٹم مارکرتباہ کرنا آسان ہے لیکن غلے کاایک دانہ سبزی یاپھل نہ بناسکتے ہیں نہ زمین کی مددکے بغیرپیداکرسکتے ہیں اوراس حقیقت کے باوجود اپنے تمام تر فلسفوں کے باوجوداپنی ساری ذہانت کے باوجودلگاہواہے زمین کو برباد اورتباہ کرنے میں، جگہ جگہ زمین گھیرکراس پر سیمنٹ سریااوراینٹ پتھرکے جنگل اگارہاہے اور خاص طورپر ہمارے پاکستان جسے نادان لوگ اسے ترقی سمجھ رہے ہیں، ہم دیکھ رہے ہیں ہر جگہ یہ ٹاون شپ، وہ ٹاؤن شپ یہ سٹی وہ سٹی یہ لگژری گھر اوروہ جنت ابھررہے ہیں اپنی ماں کو قتل کرکے۔

گھر کے بغیر بھی انسان زندہ تھا زندہ ہے، زندہ رہے گا لیکن اگر زمین نہ رہی، روٹی نہیں رہی تو انسان کیاکرے گا؟وہی کرے گا جوپہلے زمانوں میں کرتاتھا پہلے جانوروں کوکھاجائے گا اورپھر ایک دوسرے کاشکار کرکے کھائے گا۔

انسانی روایات اورتاریخ میں جس''جنت آدم'' اورفردوس گم گشتہ یاپیراڈائزلاسٹ کاذکر ہوتاہے اس کے مذہبی پہلوکوچھیڑے بغیربھی طبیعات ہمیں بتاتی ہیں اس زمین پر ایک ایسا وقت واقعی گزراہے جب یہ جنت کانمونہ تھی، آبادی کم اورخوراک زیادہ تھی، انسان کاجب جی چاہتاجہاں جی چاہتاہاتھ بڑھا کر کھالیا اوروہیں پڑارہتا،نہ فکر نہ غم نہ آزارنہ جھگڑا۔

بہشت آں جاکہ آزارے نہ باشد

کسے راباکسے کارے نہ باشد

لیکن مسئلہ اس وقت پیداہواجب انسان کے اندر''برتری''کاابلیس پیداہوا،کچھ لوگوں نے خودکو ''برتر''کہہ کر قبضہ گیری کاسلسلہ شروع کیااپنے حصے اورحق سے زیادہ وسائل پر قبضہ کرنے سے کچھ لوگوں کو محرومی کا شکار ہونا پڑا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے جب دسترخوان پر دس لوگ اوردس روٹیاں ہواوران میں چند لوگ دودوروٹیاں اٹھالیں تو باقی ضروربھوکے رہ جائیں گے۔

زمین ایک ایسی ماں ہے جو کسی بھی خطے کی ہو اپنے بچوں کو پالنے کافرض اداکرتی ہے خرابی اس وقت جنم لیتی ہے جب چند لوگ بہت ساری زمین پر قبضہ کرلیتے ہیں تو بہت سارے لوگوں کو ''توت لایموت''کا مسئلہ ہوجاتا ہے۔

ایک طرف ایک فرد یاایک خاندان سیکڑوں ہزاروں ایکڑوں کامالک بن جاتاہے کیسے بن جاتا ہے؟یہ ایک الگ اور بہت بڑاموضوع ہے اس لیے صرف اتنا بتاناکافی ہے کہ حکومتوں کی تبدیلیوں کے ساتھ کچھ وفادار اورکچھ غدارکاسلسلہ ہی اس غلط قبضہ گیری کی وجہ ہوتی ہے ۔لیکن یہاں باقی سارے مسائل کو ایک طرف کرکے صرف اس بات پر فوکس کرتے ہیںکہ اس کرہ ارض کا رقبہ جتناروزاول سے تھا وہ بڑھا نہیں بلکہ کم ہواہے اورہوتاجارہاہے کہیں دریاؤں کی کٹائی، کہیں سیم وتھورکی زیادتی، کہیں پانی کی کمی کے باعث زمین کا بنجر ہونا اوراوپر سے یہ کنسٹرکشن کی لعنت۔ جو حقیقت میں ڈسٹرکشن ہے جو زمین کو روزبروز برباد کر رہی ہے۔

لگژری اور ایکڑوں میں بڑے بڑے گھر۔فضول قسم کے اشتہاری ٹاؤن شپ اورکالونیاںجو اشتہاروں کے زورسے پرکشش بنائی جاتی ہیں، اصل میں اس تباہی کی طرف سفرہے، جب زمین اپنی اولاد کاپیٹ بھرنے سے قاصرہوجائے گی،اب بھی اگر آپ نے غورکیا ہو تو سب سے زیادہ مہنگائی ان چیزوں میں ہے جو انسان کا پیٹ بھرتی ہیں اور زمین کے علاوہ اورکسی طرح سے پیدا نہیں ہوتیں۔ اوپر سے گزشتہ عمران حکومت نے کنسٹرکشن کے سلسلے میں غیرملکی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے رعایتیں بھی دے ڈالیں جو ایک اورالمیہ ہے۔

بخدا ہمیں توابھی سے ڈرلگنے لگاہے کہ اگر زمین اپنی اولاد کو پالنے کے لیے کم پڑگئی تو انجام کیاہوگا کیوں کہ زمین کے علاوہ اورجتنی ''دولتیں''ہیں ایک نوالہ بھی پیدا نہیں کرسکتیں۔

کھڑاہوں آج بھی روٹی کے چارحرف لیے

سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔