تاخیر پہ تاخیر مقدمات سوالیہ نشان
فیصلے میں طویل تاخیر کا ایک اہم کیس الیکشن کمیشن میں 2014 سے چل رہا ہے جو پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کیس کہلاتا ہے
کراچی:
سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق موجودہ چیف جسٹس کے آنے کے بعد زیر التوا مقدمات میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے اور چار ماہ میں سپریم کورٹ میں 1182 زیر التوا مقدمات نمٹا دیے گئے ہیں ، یہ کمی چیف جسٹس کی پالیسیوں کے باعث آنا شروع ہوئی ہے۔
گزشتہ ہفتے میں 568 مقدمات نمٹائے گئے جب کہ 187 نئے مقدمات دائر ہوئے اور اس طرح ایک ہفتے میں 385 مقدمات کی کمی ہوئی ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عدالت زیر التوا مقدمات کی تعداد کا ادراک رکھتی ہے اور انصاف کی فراہمی کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ مقدمات نمٹانے کے لیے موسم گرما کی تعطیلات کے باوجود گرمیوں میں تین بینچ اسلام آباد میں اور ایک کراچی میں سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج سردار طارق کی سربراہی میں کام کرنے والے بینچ میں روزانہ چالیس مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کیا جاتا ہے جوکہ دوسرے بینچوں کی نسبت دگنے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی فنڈنگ کیس میں آزادانہ طور پر کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے اور کہا ہے کہ الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کی کوئی وجہ سامنے نہیں آئی البتہ پی ٹی آئی تمام پارٹیوں کے لیے یکساں سلوک کی درخواست دے سکتی ہے جس کے بعد پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں ایک اور درخواست جمع کرادی ہے کہ ہمارے کیس کا فیصلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہی سنایا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ کسی جماعت کی غیر قانونی فنڈنگ پر اس جماعت کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی۔ غیر قانونی فنڈنگ ثابت ہونے پر مذکورہ رقم ضبط ہوسکتی ہے۔
ادھر سندھ ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبونل نے این اے 245 کراچی میں دھاندلی سے متعلق ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے خلاف فاروق ستار کی درخواست ڈاکٹر عامر لیاقت کی وفات کے باعث خارج کردی ہے کیونکہ مرحوم کے موکل نے موقف دیا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی وفات کے بعد اس کی اہمیت نہیں رہی۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے الیکشن ٹریبونل میں 2018 میں درخواست دی تھی کہ عام انتخابات میں عامر لیاقت کو دھاندلی کے ذریعے کامیاب کرایا گیا تھا۔
ملکی عدلیہ کی تاریخ ایسے تاخیری فیصلوں سے بھری پڑی ہے کہ درخواست گزاروں کو برسوں گزرنے کے باوجود اپنی زندگی میں فیصلہ نہیں ملا۔ اکثر درخواست گزار فیصلے کے انتظار میں فوت ہوگئے۔ بہت سوں کو عدالتی سزائیں مکمل ہونے کے بعد بے گناہی کا عدالتی سرٹیفکیٹ ملا۔ اس طرح نہ جانے کتنوں کو ناحق سزائیں بھگتنا پڑیں۔ سابق وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی ہو جانے کے کئی سال بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ نسیم حسن شاہ کے ریمارکس اس کا واضح ثبوت ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے کیس کی ایک سال سے زائد عرصہ بعد ہونے والی حالیہ سماعت پر کہا ہے کہ کوشش ہے کہ شوکت صدیقی کیس جلد مکمل کرلیں کیونکہ بینچ کے دو ججز جولائی، اگست میں ریٹائر ہو رہے ہیں اس سے قبل کیس ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سابق جج شوکت عزیز نے اپنی درخواست 3 سال قبل چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں دائر کی تھی جن کے بعد دو چیف جسٹس صاحبان ریٹائر ہوگئے اور اب ایک سال کے بعد یہ درخواست 13جون کو زیر سماعت آئی ہے۔
سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ نے ماڈرن کورٹوں کے ذریعے ملک بھر میں مقدمات کے فیصلوں پر توجہ دی تھی اور انصاف کی جلد فراہمی کی پالیسی کے تحت وہ ملک بھر میں عدالتوں سے بوجھ کم کرانا چاہتے تھے مگر اتنے مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پاتے تھے جتنے مزید نئے مقدمات دائر ہو جاتے تھے جس کی وجہ سے ملکی عدلیہ پر پہلے سے موجود لاکھوں مقدمات پر مزید بوجھ بڑھتا رہا ہے۔
ملک میں ہائی کورٹوں کے الیکشن ٹریبونل بھی موجود ہیں جہاں بے شمار انتخابی عذر داریاں زیر سماعت ہیں اور وہاں بھی فیصلوں میں تاخیر پہ تاخیر ہو رہی ہے اور وقت پر فیصلے نہیں ہوتے اور اگر ہو بھی جائے تو اپیل مزید تاخیر کراتی ہے اور الیکشن کی مدت پوری ہونے پر وہ کیس غیر موثر ہو جاتے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھی بے شمار درخواستیں آتی ہیں جہاں فیصلوں میں مہینوں بلکہ سال لگ جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو بھی ہائی کورٹ جیسے عدالتی اختیارات حاصل ہیں مگر یہ واحد عدالتی ادارہ ہے جس کو سیاسی دباؤ کا سامنا رہتا ہے جیسے آج کل عمران خان اور پی ٹی آئی اس پر الزامات لگا رہے ہیں تاکہ اس کے فیصلوں کو متنازعہ بناسکیں۔ الیکشن کمیشن نے دھاندلی ثابت ہونے پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف فیصلہ دیا تھا جس کے خلاف وہ سپریم کورٹ گئے اور حکم امتناعی لے کر کام کرتے رہے مگر دو سال تک ان کا فیصلہ نہ آیا بعد میں وہ اپریل میں مستعفی ہوگئے نیا ڈپٹی اسپیکر آگیا مگر حکم امتناعی کا فیصلہ نہ آیا۔
توقع ہے کہ سپریم کورٹ کی طرح دیگر عدالتیں بھی مقدمات میں تاخیر پہ تاخیر کا سلسلہ ختم یا کم کرائیں گی کیونکہ تاخیر سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ عالمی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر بڑی ناانصافی ہے اور ملک کی عدلیہ میں برسوں سے یہ تاخیری سلسلہ جاری ہے جس کو ختم یا کم کرانے کی کوشش بھی کی جاتی رہی مگر کامیاب نہیں ہوئی۔ مقدمات کی تاخیر کی ذمے دار عدالتیں ہی نہیں بلکہ وکلا حضرات مدعی اور ملزمان بھی ہوتے ہیں۔
فیصلے میں طویل تاخیر کا ایک اہم کیس الیکشن کمیشن میں 2014 سے چل رہا ہے جو پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کیس کہلاتا ہے ، جس کی تاخیر کی ذمے دار خود پی ٹی آئی تو ہے ہی ۔سب کو پتا ہے کہ پی ٹی آئی نے غیر قانونی طور پر فارن فنڈنگ کی ہے اسی وجہ سے تحریک انصاف نے خود 8 سال سے یہ کیس لٹکا رکھا ہے اور فیصلہ نہیں چاہتی مگر عوام بھی حیران ہیں کہ حقائق ظاہر ہونے کے باوجود فیصلہ کیوں نہیں دیا جا رہا۔
عام عدالتوں میں تو مقدمات کی بھرمار کے باعث فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے ، مگر الیکشن کمیشن پر کیسز کا زیادہ بوجھ نہیں ہے مگر پھر بھی فیصلہ نہیں آ رہا۔ مجوزہ فیصلہ عدالتوں میں چیلنج ہوگا جس کا فیصلہ آنے میں بھی یقینی طور پر تاخیر ہوگی۔
سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق موجودہ چیف جسٹس کے آنے کے بعد زیر التوا مقدمات میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے اور چار ماہ میں سپریم کورٹ میں 1182 زیر التوا مقدمات نمٹا دیے گئے ہیں ، یہ کمی چیف جسٹس کی پالیسیوں کے باعث آنا شروع ہوئی ہے۔
گزشتہ ہفتے میں 568 مقدمات نمٹائے گئے جب کہ 187 نئے مقدمات دائر ہوئے اور اس طرح ایک ہفتے میں 385 مقدمات کی کمی ہوئی ، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عدالت زیر التوا مقدمات کی تعداد کا ادراک رکھتی ہے اور انصاف کی فراہمی کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ مقدمات نمٹانے کے لیے موسم گرما کی تعطیلات کے باوجود گرمیوں میں تین بینچ اسلام آباد میں اور ایک کراچی میں سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج سردار طارق کی سربراہی میں کام کرنے والے بینچ میں روزانہ چالیس مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کیا جاتا ہے جوکہ دوسرے بینچوں کی نسبت دگنے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی فنڈنگ کیس میں آزادانہ طور پر کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے اور کہا ہے کہ الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کی کوئی وجہ سامنے نہیں آئی البتہ پی ٹی آئی تمام پارٹیوں کے لیے یکساں سلوک کی درخواست دے سکتی ہے جس کے بعد پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں ایک اور درخواست جمع کرادی ہے کہ ہمارے کیس کا فیصلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہی سنایا جائے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ کسی جماعت کی غیر قانونی فنڈنگ پر اس جماعت کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکتی۔ غیر قانونی فنڈنگ ثابت ہونے پر مذکورہ رقم ضبط ہوسکتی ہے۔
ادھر سندھ ہائی کورٹ کے الیکشن ٹریبونل نے این اے 245 کراچی میں دھاندلی سے متعلق ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کے خلاف فاروق ستار کی درخواست ڈاکٹر عامر لیاقت کی وفات کے باعث خارج کردی ہے کیونکہ مرحوم کے موکل نے موقف دیا کہ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی وفات کے بعد اس کی اہمیت نہیں رہی۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے الیکشن ٹریبونل میں 2018 میں درخواست دی تھی کہ عام انتخابات میں عامر لیاقت کو دھاندلی کے ذریعے کامیاب کرایا گیا تھا۔
ملکی عدلیہ کی تاریخ ایسے تاخیری فیصلوں سے بھری پڑی ہے کہ درخواست گزاروں کو برسوں گزرنے کے باوجود اپنی زندگی میں فیصلہ نہیں ملا۔ اکثر درخواست گزار فیصلے کے انتظار میں فوت ہوگئے۔ بہت سوں کو عدالتی سزائیں مکمل ہونے کے بعد بے گناہی کا عدالتی سرٹیفکیٹ ملا۔ اس طرح نہ جانے کتنوں کو ناحق سزائیں بھگتنا پڑیں۔ سابق وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی ہو جانے کے کئی سال بعد چیف جسٹس سپریم کورٹ نسیم حسن شاہ کے ریمارکس اس کا واضح ثبوت ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے کیس کی ایک سال سے زائد عرصہ بعد ہونے والی حالیہ سماعت پر کہا ہے کہ کوشش ہے کہ شوکت صدیقی کیس جلد مکمل کرلیں کیونکہ بینچ کے دو ججز جولائی، اگست میں ریٹائر ہو رہے ہیں اس سے قبل کیس ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سابق جج شوکت عزیز نے اپنی درخواست 3 سال قبل چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں دائر کی تھی جن کے بعد دو چیف جسٹس صاحبان ریٹائر ہوگئے اور اب ایک سال کے بعد یہ درخواست 13جون کو زیر سماعت آئی ہے۔
سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آصف سعید کھوسہ نے ماڈرن کورٹوں کے ذریعے ملک بھر میں مقدمات کے فیصلوں پر توجہ دی تھی اور انصاف کی جلد فراہمی کی پالیسی کے تحت وہ ملک بھر میں عدالتوں سے بوجھ کم کرانا چاہتے تھے مگر اتنے مقدمات کے فیصلے نہیں ہو پاتے تھے جتنے مزید نئے مقدمات دائر ہو جاتے تھے جس کی وجہ سے ملکی عدلیہ پر پہلے سے موجود لاکھوں مقدمات پر مزید بوجھ بڑھتا رہا ہے۔
ملک میں ہائی کورٹوں کے الیکشن ٹریبونل بھی موجود ہیں جہاں بے شمار انتخابی عذر داریاں زیر سماعت ہیں اور وہاں بھی فیصلوں میں تاخیر پہ تاخیر ہو رہی ہے اور وقت پر فیصلے نہیں ہوتے اور اگر ہو بھی جائے تو اپیل مزید تاخیر کراتی ہے اور الیکشن کی مدت پوری ہونے پر وہ کیس غیر موثر ہو جاتے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان میں بھی بے شمار درخواستیں آتی ہیں جہاں فیصلوں میں مہینوں بلکہ سال لگ جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو بھی ہائی کورٹ جیسے عدالتی اختیارات حاصل ہیں مگر یہ واحد عدالتی ادارہ ہے جس کو سیاسی دباؤ کا سامنا رہتا ہے جیسے آج کل عمران خان اور پی ٹی آئی اس پر الزامات لگا رہے ہیں تاکہ اس کے فیصلوں کو متنازعہ بناسکیں۔ الیکشن کمیشن نے دھاندلی ثابت ہونے پر ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کے خلاف فیصلہ دیا تھا جس کے خلاف وہ سپریم کورٹ گئے اور حکم امتناعی لے کر کام کرتے رہے مگر دو سال تک ان کا فیصلہ نہ آیا بعد میں وہ اپریل میں مستعفی ہوگئے نیا ڈپٹی اسپیکر آگیا مگر حکم امتناعی کا فیصلہ نہ آیا۔
توقع ہے کہ سپریم کورٹ کی طرح دیگر عدالتیں بھی مقدمات میں تاخیر پہ تاخیر کا سلسلہ ختم یا کم کرائیں گی کیونکہ تاخیر سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے۔ عالمی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر بڑی ناانصافی ہے اور ملک کی عدلیہ میں برسوں سے یہ تاخیری سلسلہ جاری ہے جس کو ختم یا کم کرانے کی کوشش بھی کی جاتی رہی مگر کامیاب نہیں ہوئی۔ مقدمات کی تاخیر کی ذمے دار عدالتیں ہی نہیں بلکہ وکلا حضرات مدعی اور ملزمان بھی ہوتے ہیں۔
فیصلے میں طویل تاخیر کا ایک اہم کیس الیکشن کمیشن میں 2014 سے چل رہا ہے جو پی ٹی آئی کا فارن فنڈنگ کیس کہلاتا ہے ، جس کی تاخیر کی ذمے دار خود پی ٹی آئی تو ہے ہی ۔سب کو پتا ہے کہ پی ٹی آئی نے غیر قانونی طور پر فارن فنڈنگ کی ہے اسی وجہ سے تحریک انصاف نے خود 8 سال سے یہ کیس لٹکا رکھا ہے اور فیصلہ نہیں چاہتی مگر عوام بھی حیران ہیں کہ حقائق ظاہر ہونے کے باوجود فیصلہ کیوں نہیں دیا جا رہا۔
عام عدالتوں میں تو مقدمات کی بھرمار کے باعث فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے ، مگر الیکشن کمیشن پر کیسز کا زیادہ بوجھ نہیں ہے مگر پھر بھی فیصلہ نہیں آ رہا۔ مجوزہ فیصلہ عدالتوں میں چیلنج ہوگا جس کا فیصلہ آنے میں بھی یقینی طور پر تاخیر ہوگی۔